نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان صاحب کے بیشتر خیالات سے میں ہرگز متفق نہیں ہوں۔ ’’یوٹرن‘‘ کے بارے میں لیکن ان کا مؤقف مبنی برحق ہے۔اسے سراہنے کے لئے لازمی ہے کہ اقبالؔ کی بتائی اس حقیقت کو یاد رکھا جائے کہ زمانے میں ثبات فقط تغیر کو نصیب ہوتا ہے۔زندگی کبھی یکساں نہیں رہتی۔ حالات بدلتے رہتے ہیں اور ایک کامیاب سیاستدان کے لئے لازمی ہے کہ وہ ’’آئی صورت‘‘ کے تقاضوں کے مطابق بنائی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھتا رہے۔یہاں تک پڑھنے کے بعد آپ کے ذہن میں سوال اٹھے گا کہ میری تمہید کا ’’یوٹرن‘‘ سے کیا تعلق ہے۔
آپ کی تسلی کے لئے یاد دلانا ہوگا کہ عمران خان صاحب نے اپنی جماعت کے 125اراکین سمیت قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے رکھا ہے۔اجتماعی استعفوں کا ہدف موجودہ قومی اسمبلی کو مفلوج ثابت کرتے ہوئے قبل از وقت انتخاب کا حصول تھا۔ خان صاحب اپنا یہ ہدف حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ان کی قومی اسمبلی سے عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت نے بلکہ نیب اور انتخاب سے متعلقہ قوانین میں اپنی ترجیح والی ترامیم متعارف کروائی ہیں۔اب رواں مالی سال کا بجٹ بھی منظور ہوچکا ہے۔اسے منظور کروالینے کے بعد گیارہ جماعتوں پر مشتمل حکومت بضد ہے کہ اسے قومی اسمبلی کی بقیہ مدت مکمل کرنے دی جائے۔اس کے دوران وہ حالیہ بجٹ کے ذریعے عوام کے لئے ناقابل برداشت اقدام اٹھالینے کے بعد بقیہ مہینوں میں معاشی میدان میں رونق لگانے کی کوشش کرے گی۔متوقع رونق لگ گئی تو عوام مہنگائی کے سیلاب سے نکل کر نسبتاََ محفوظ زندگی گزارتے ہوئے محسوس کریں گے۔ حکمرانوں کو ’’معاف‘‘ کردیں گے۔
خالصتاََ سیاسی حرکیات کے تناظر میں دیکھیں تو عمران خان صاحب کو اگلے برس کے اکتوبر تک موجودہ حکومت کے لئے اقتدار میں رہنا ناممکن بنانا ہوگا۔ حکومت کے خلاف لوگوں کے دلوں میں ابھرتے غصے کا فوری انتخاب مسلط کرتے ہوئے فائدہ اٹھانا ہوگا۔پرجوش اور عظیم الشان عوامی اجتماع یہ انتخاب مسلط نہیں کرسکتے۔دھرنا بھی اس ضمن میں 2014کی طرح ناکام ہوگا۔مقتدر حلقوں کو ’’میر جعفر‘‘ پکارتے ہوئے بھی عمران خان صاحب موجودہ حکومت پر دبائو نہیں بڑھاسکتے۔
مذکورہ بالا تناظرمیں نئے انتخاب کے حصول کے لئے تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کے اکھاڑے میں واپس آنا ہوگا۔اس کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے ابھی تک تحریک انصاف کے دئیے استعفے قبول نہیں کئے ہیں۔تحریک انصاف کے 125اراکین لہٰذا قانونی اعتبار سے آج بھی ایوان کے بااختیار اراکین ہیں۔اس حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی قوت کے حامل بھی ہیں۔قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست میں تحریک انصاف اس ارادے کا اظہار بھی کرسکتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں لوٹ کر وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا چاہتی ہے۔
تحریک انصاف نے اگر قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے اپنی درخواست باقاعدہ پیش کردی تو حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں ہکا بکا رہ جا ئیں گی۔ راجہ پرویز اشرف اگر یہ درخواست پیش ہوجانے کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے پیش ہوئے استعفے منظور کرنے کا اعلان کردیں گے تو اپنے اس مؤقف کی نفی کرتے نظر آئیں گے جس کی بنیاد پر وہ مستعفی ہوئے ہر رکن کو اپنے دفتر میں انفرادی طور پر پیش ہونے کے بعد استعفیٰ کی تصدیق کا تقاضہ کررہے ہیں۔ جس دلیل کی بنیادپر وہ ابھی تک تحریک انصاف کے استعفوں کی منظوری کا اعلان نہیں کررہے وہ قانونی اعتبار سے بھی جائز ہے۔
ایوان میں لوٹنے کی خواہش کے ساتھ اگر عمران خان صاحب اور ان کے ساتھی قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا چاہیں تو راجہ پرویزاشرف کے لئے لیت ولعل دکھانا لہٰذا ناممکن ہوجائے گا۔ جس روز طلب کردہ اجلاس ہو اس دن وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی جمع کروائی جاسکتی ہے۔راجہ صاحب کے لئے اس تحریک پر گنتی کروانا بھی لازمی ہوجائے گا۔رواں برس کے اپریل میںیہ طے ہوچکا ہے کہ اگر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوجائے تو اس سے مفر ممکن ہی نہیں۔اسے محض چند دنوں تک ٹالا ہی جاسکتا ہے۔
قومی اسمبلی میں واپسی کے اعلان کے ساتھ تحریک انصاف کھلے دل سے اپنے ماضی کے ’’اتحادیوں‘‘ سے روابط کا آغاز کرے تو انہیں ’’گھرواپسی‘‘ کا جواز مل جائے گا۔بجٹ اجلاس کے آخری دنوں میں ایم کیو ایم اور ’’باپ‘‘ کے چند اراکین نے ایوان میں دھواں دھار تقاریر کیں۔ دل کھول کر اعتراف کیا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کے دنوں میں زیادہ خوش تھے۔عمران خان صاحب ان کے تاسف کو سراہتے ہوئے ان کے دل موہ سکتے ہیں۔
بھان متی کا کنبہ دِکھتی حکومت تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی میں واپسی کے اعلان ہی سے خوفزدہ ہوجائے گی۔ اپنی اکثریت ہر صورت برقرار رکھنے کی خواہش میں وہ مضحکہ خیز ہتھکنڈے اختیار کرنے کو بھی مجبور ہوسکتی ہے جنہیں تحریک انصاف کا سوشل میڈیا مہارت سے لوگوں کے روبرو لاسکتا ہے۔ جو فضابنائی جاسکتی ہے وہ وزیر اعظم کو اس امر پر بھی مجبور کرسکتی ہے کہ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد باقاعدہ پیش ہونے سے قبل ہی ازخود صدر کو موجودہ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیج دیں۔یوں تحریک انصاف قبل از وقت انتخاب کا ہدف جلسے جلوسوں اور دھرنوں میں وقت ضائع کئے بغیر ہی حاصل کرسکتی ہے۔قومی اسمبلی میں لوٹے بغیر جلسوں کے دوران ’’جوش خطابت‘‘ میں جو سوال اٹھائے جارہے ہیں و ہ مقتدر حلقوں کو موجودہ حکومت کے مزید قریب لارہے ہیں۔دو دن قبل جو آڈیو لیک ہوئی ہے وہ مذکورہ قربت کا ٹھوس اظہار ہے اور ذمہ دار ذرائع سے گفتگو کے بعد میں یہ بھی کہہ سکتاہوں کہ اس ضمن میں ’’پارٹی‘‘ تو ابھی شروع ہوئی ہے۔
’’اگلے وار‘‘ کی پیش بندی سیاسی جنگوں میں لازمی ہوتی ہے۔قومی اسمبلی میں واپسی کا ارادہ مزید لیکس کو یقینا روک سکتا ہے اور اکتوبر میں نئے انتخاب کی راہ بھی بناسکتا ہے۔یہ وقت گزرگیا تو تحریک انصاف کی صفوں میں عمران خان صاحب کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد شدت سے جو گرم جوشی ابھری ہے بالآخر چھلنی میں پانی جمع کرنے والی کاوش بے سود ہی ثابت ہوگی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر