نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نئے انتخابات کی توقع، مگر اکتوبر ہی کیوں || نصرت جاوید

امید کھودینے کے اس ماحول کا تحریک انصاف جارحانہ حکمت عملی اپناتے ہوئے بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے۔روایتی اور سوشل میڈیا کو کمال مہارت سے استعمال کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے ریاستی اداروں کو بھی مدافعانہ خاموشی اختیار کرنے کو مجبور کردیا ہے۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسلم لیگ (نون) کے سرکردہ رہ نمائوں سے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو کریں تو بلا جھجک اعتراف کرلیتے ہیں کہ ایک خاص شخصیت کی اہم ترین ریاستی عہدے پر تعیناتی کے خدشات نے انہیں عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کو مجبور کیا تھا۔ نجی محفلوں میں ہوئے اس اعتراف کو خرم دستگیر خان صاحب ایک ٹی وی انٹرویو میں برسرعام بھی لے آئے۔ مصر رہے کہ تحریک عدم اعتماد نے عمران خان کو دس سال تک وطن عزیز کا بااختیار حاکم رکھنے کا منصوبہ ناکام بنادیا ہے۔ذاتی طورپر اگرچہ میں اس سوچ پر اب بھی قائم ہوں کہ جن صاحب کی تعیناتی کے امکانات نے مسلم لیگ (نون) کو بقول منیر نیازی ’’ڈرادیا‘‘ تھا وہ ممکنہ عہدہ بالآخر سنبھال بھی لیتے تو اقتدار میں پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرلینے کے بعد تحریک انصاف کے لئے آئندہ انتخاب میں اکثریت کا حصول ممکن نہ رہتا۔

ہماری معیشت گزشتہ کئی برسوں سے سنبھل نہیں پارہی ہے۔عالمی اداروں اور ’’برادر ممالک‘‘ سے مانگ تانگ کر رونق لگانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔قطعی داخلی اسباب سے نبردآزما ہونے کی ترکیب ابھی دریافت ہی نہیں ہوپارہی تھی کہ روس رواں برس کے آغاز میں یوکرین پر چڑھ دوڑا۔ اس کے نتیجے میں تیل اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ اس کے علاوہ غذائی بحران بھی دیوہیکل اژدھے کی صورت غریبوں کو ہڑپ کرنے کے ارادے سے آگے بڑھے چلاجارہا ہے۔روس اور یوکرین کے مابین جنگ نے امریکہ،برطانیہ اور جرمنی جیسی طاقت ور معیشتوں کو بھی چکرادیا ہے۔افراطِ زر ان ممالک میں نئے ریکارڈ قائم کررہا ہے۔اس کی وجہ سے رائے دہندگان میں جو غصہ اُبل رہا ہے اس کا مثالی اظہار حال ہی میں برطانیہ کے ضمنی انتخاب میں ہوا ہے جہاں حکمران جماعت کو اسمبلی کی ایک نشست 90سال بعد ہارنا پڑی۔رواں برس کے نومبر میں امریکی پارلیمان کے انتخاب بھی ہونا ہیں۔سروے بتارہے ہیں کہ بائیڈن کی جماعت ان کی وجہ سے اس معمولی اکثریت سے بھی محروم ہوجائے گی جو فی الوقت اسے امریکہ کی پارلیمان میں میسر ہے۔پاکستان دنیا سے کٹا کوئی جزیرہ نہیں۔2023کے اکتوبر/نومبر میں ہوئے انتخاب تحریک انصاف کو ویسی ہی مشکلات کی زد میں لاتے جن کا سامنا ان دنوں امریکہ اور برطانیہ کی حکمران جماعتیں کررہی ہیں۔

بہرحال مسلم لیگ (نون) گھبراہٹ میں دور اندیش رویہ اختیار کرنے میں ناکام رہی۔عمران صاحب کی فراغت کے بعد شہباز شریف نے گیارہ جماعتوں پر مشتمل ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ دکھتی حکومت کی قیادت سنبھال لی۔دس برس تک آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے بااختیار وزیر اعلیٰ رہے شہباز شریف صاحب کو ’’اچھی حکومت‘‘ اور تاج محل کی طرح شاندار دکھتے ’’میگاپراجیکٹس‘‘ کی علامت تصور کیا جاتا رہا ہے۔ وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد مگر وہ ’’تجربہ کار‘‘ منیجروالی شہرت تیزی سے کھورہے ہیں۔مسائل کے موجودہ گرداب کا فقط ان کی ذات کو ذمہ دار ٹھہرانا اگرچہ زیادتی ہوگی۔عوام کی اکثریت مگر تفصیلات سے لاتعلق ہوتی ہے۔وہ کسی بھی حاکم کو انگریزی والے Here and Nowکے پیمانے سے جانچتی ہے۔مسلم لیگ کے کئی دیرینہ حامی بھی میرے روبرو یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ عمران خان صاحب کی رخصت کے فوری بعد لوڈشیڈنگ کے طویل وقفے کیوں نمودار ہونا شروع ہوگئے۔’’اپریل تک تو بتی کبھی نہیں جاتی تھی‘‘۔ میں لوڈشیڈنگ کے ٹھوس اسباب گنوانے کی کوشش کرتا ہوں تو اُکتا کر جمائیاں لینا شروع ہوجاتے ہیں۔

ہمارے عوام کی خاطر خواہ تعداد خواہ وہ عمران خان صاحب کی حامی نہ بھی ہو اکثر مجھ سے یہ سوال بھی کرتی ہے کہ پاکستان روس سے ’’سستا تیل‘‘ کیوں حاصل نہیں کررہا۔انہیں یہ گماں ہے کہ سابق حکومت نے ہماری ضرورت کا تیل عالمی منڈی پر چھائے نرخوں سے ’’تیس فی صد‘‘ رعایت کے ساتھ حاصل کرنے کا بندوبست کرلیا تھا۔’’امریکی سازش‘‘ کے تحت قائم ہوئی ’’امپورٹڈ حکومت‘‘مگر مبینہ بندوبست سے فائدہ اٹھانے کے بجائے پیٹرول، بجلی اور گیس کے نرخ بھاری بھر کم تعداد میں یکمشت بڑھاتے ہوئے عوام کی کمر توڑرہی ہے۔ عوام کی اکثریت کے ذہنوں میں اُبلتے ان سوالات کے موجودہ حکومت خاطر خواہ جوابات فراہم نہیں کر پائی ہے۔

امید کھودینے کے اس ماحول کا تحریک انصاف جارحانہ حکمت عملی اپناتے ہوئے بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے۔روایتی اور سوشل میڈیا کو کمال مہارت سے استعمال کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے ریاستی اداروں کو بھی مدافعانہ خاموشی اختیار کرنے کو مجبور کردیا ہے۔

اس تناظر میں دو دن قبل موجودہ حکومت کے کئی ’’اتحادی‘‘ رواں مالی برس کے لئے تیار کردہ بجٹ پر گفتگو کرتے ہوئے پھٹ پڑے۔ ان کی تقاریر نے شہباز حکومت کی بابت ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والا تاثر پھیلانا شروع کردیا ہے۔ ’’ستے خیراں‘‘ کی وضاحتیں اس ضمن میں کام نہیں آرہیں۔ دریں اثناء مسلم لیگ (نون) کے ’’ذمہ دار ذرائع‘‘ یہ خبر بھی پھیلانا شروع ہوگئے ہیں کہ اسحاق ڈار صاحب جولائی کے وسط میں وطن لوٹ رہے ہیں۔’’ذمہ دار ذرائع‘‘ کی جانب سے پھیلائی یہ ’’خبر‘‘ واضح انداز میں پیغام دے رہی ہے کہ معاملات موجودہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم سے سنبھل نہیں رہے۔ اسحاق ڈار صاحب کو وطن لوٹ کر کوئی ’’چمتکار‘‘ دکھانا ہوگا۔ جان کی امان پاتے ہوئے اگرچہ یہ التجا کرنے کو مجبور ہوں کہ فی الوقت ٹھوس وجوہات کے باعث ’’چمتکاری‘‘ دکھانا کسی بھی ’’نورتن‘‘ کے لئے ممکن نہیںہے۔ اس کا انتظار مگر نئے انتخاب کی توقع بڑھائے گا جس کے لئے رواں برس کے اکتوبر کا ذکر ہورہا ہے۔’’اکتوبر‘‘ ہی کیوں؟اس سوال کا جواب اب تک آپ مجھ سے کہیں بہتر انداز میں جان چکے ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author