نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ’’ٹک ٹاک‘‘ کے دور میں جی رہے ہیں۔تقریباََ ہر شخص بے چین ہے کہ لوگ اس پر توجہ مرکوز رکھیں۔زندگی معمول کے مطابق گزررہی ہوتوایسی توجہ مگر نصیب نہیں ہوتی۔کچھ ’’ہٹ کے ‘‘ کرنا پڑتا ہے۔یوں کرتے ہوئے مضحکہ خیز حرکات سرزد ہوجانا یقینی ہے۔ اسی باعث ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر 18سے 35سال کے درمیان والی عمر کے لڑکے لڑکیاں ہی چھائے رہے۔ وقت گزرنے کیساتھ مگراب ’’سترے بترے‘‘ہوئے بزرگوں کو بھی خیال آنا شروع ہوگیا ہے کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں۔امریکہ میں ان کی وجہ سے بلکہ Granfluencersکا لفظ بھی مشہور ہورہا ہے۔ مذکورہ لفظ کی تفہیم کے لئے یاد رکھیں کہ سوشل میڈیا پر چھائے نوجوانوں کو Influencerکہا جاتا ہے۔لوگوں کے ذہنوں پراثرانداز ہونے والے۔انگریزی میں دا دا یا نانا کو Grand Fatherکہا جاتا ہے۔لہٰذا ’’سترے بترے‘‘ بڈھوں نے ٹک ٹاک کا رُخ کیا تو Grandکا (D)اور Influenceکا ’’ان‘‘ ہٹاکر Fluanceکے ساتھ ملادیا اور یوں Granfluencerکی اصطلاح ایجاد ہوگئی۔
مذکورہ بالا تمہید اس لئے باندھی ہے کہ دو روز قبل سوشل میڈیا پرایک تصویر وائرل ہوئی تھی۔ اس میں وطن عزیز کے مؤثر ترین ذہن ساز صحافی جناب نجم سیٹھی جن کی ’’چڑیا‘‘ اندر کی خبریں لانے کی وجہ سے زبان زد عام ہے ایک کشتی میں سابق وزیراعظم نوازشریف صاحب کے ہمراہ بیٹھے تھے۔یہ تصویر دیکھ کر گماں ہوتا ہے کہ ’’پارٹی ہورہی ہے‘‘۔ایمان داری کی بات ہے کہ اس تصویر پر پہلی نظر ڈالتے ہوئے میں خوش ہوا۔ زندگی سے لطف اندوز ہونا انسان کا بنیادی حق ہے۔نجم سیٹھی اور نواز شریف مذکورہ حق کو بھرپور انداز میں استعمال کرتے نظر آئے۔ تھوڑی دیر بعد مگر میرا ضرورت سے زیادہ جھکی اور اداس ذہن یہ سوچنے کو مجبور ہوگیا کہ مذکورہ تصویر ذرا’’بچگانہ‘‘ ہے۔ان دونوں حضرات کے بارُعب اور سنجیدہ امیج کے ساتھ میچ نہیں کرتی۔
بعدازاں اپنے ٹی وی شو میں نجم صاحب نے تفصیل سے مذکورہ تصویر کا پس منظر بیان کردیا۔ان کی زبانی علم ہوا کہ نواز شریف صاحب کے نواسے اور محترمہ مریم نواز صاحبہ کے فرزند ان دنوں کیمرج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔وہ ان سے ملنے یورنیورسٹی گئے تھے۔اس یونیورسٹی کے ساتھ ایک دریا بہتا ہے۔ اس کے دونوں جانب مناظر دل موہ لیتے ہیں۔ نجم سیٹھی اور نواز شریف صاحب کشتی میں بیٹھ کر ان سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ربّ کریم دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے۔ زندگی سے لطف اٹھاتے رہیں۔
ٹک ٹاک کے علاوہ دور ہمارا اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم کا بھی ہے۔ کشتی میں نجم سیٹھی اور نواز شریف صاحب کو بے فکر نوجوانوں کی طرح نیم دراز ہوئے دیکھا تو ان کے نقاد جل بھن گئے۔ سستی جگتوں سے دونوں کا تمسخراُڑایا۔ بات مگر یہاں ختم نہیں ہوئی۔اس تصویر کے چھپنے کے بعد نجم صاحب نے اپنے ٹی وی شو میں پاک-امریکہ تعلقات کی داستان چھیڑدی۔ اسے سناتے ہوئے ہماری سرزمین کا ذکر بھی ہوا جو 1980کی دہائی میں سوویت یونین کو افغانستان میں گھیر کر اس سپرطاقت کی تباہی کو یقینی بنانے کے لئے بطور ’’اڈا‘‘ استعمال ہوئی تھی۔
تحریک انصاف کے متوالوں نے نجم صاحب کی سنائی داستان کو محض تاریخ کی یاددہانی کی صورت نہیں لیا۔ دو جمع دو کا کلیہ استعمال کرتے ہوئے بلکہ طے کردیا کہ نجم سیٹھی اور نواز شریف کشتی میں بیٹھے پاکستان کو ایک بار پھر امریکہ کی خوشنودی کے لئے بطور اڈا پیش کرنے کے منصوبے بنارہے تھے۔ ان کے قائد عمران خان صاحب نے جبکہ اس تناظر میں Absolutely Notکا اعلان کررکھا ہے۔غالباََ اسی باعث بائیڈن انتظامیہ مشتعل ہوگئی۔ واشنگٹن میں مقیم پاکستانی سفیر کو دھمکی آمیز پیغام دیا۔ عمران خان صاحب اس کے باوجود جھکنے کو آمادہ نہ ہوئے تو ہماری قومی اسمبلی میں بیٹھے ’’چور اور لٹیروں‘‘ کے ذریعے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کروادی گئی۔ عمران خان صاحب کے لگائے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے مذکورہ تحریک کو بیرونی ساز ش قرار دیتے ہوئے ’’مسترد‘‘ کردیا تھا۔ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں اور اعلیٰ عدلیہ کے مگر تحریک انصاف کی جانب سے ’’میر جعفر‘‘ ٹھہرائے افراد نے قاسم سوری کا فیصلہ قبول نہیں کیا۔اس امر کو یقینی بنایا کہ جو تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی ہے اس پر ہر صورت گنتی کروائی جائے۔عمران خان صاحب اس کی وجہ سے وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوگئے۔ اب قومی حمیت کی بحالی کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔
میں نے مذکورہ تاویل سنی تو حیرت میں مبتلا ہوگیا۔ بچپن میں سنی داستانوں کی طرح یہ تاویل سنتے ہوئے ہنسی بھی آئی اور رونا بھی۔نجم سیٹھی کی رسائی پاکستان ہی نہیں امریکہ اور برطانیہ کے طاقت ور ترین حلقوں تک بھی پراثر تصور ہوتی ہے۔ میرے پاس اس ضمن میں اگرچہ ان کی محدودات عیاں کرنے کو چند ٹھوس مثالیں بھی ہیں۔انہیں سنانے سے گریز ہی بہتر کیونکہ نجم صاحب بہت وڈے آدمی ہونے سے قبل میرے عزیز ترین دوست بھی رہے ہیں۔ ان کا ’’ٹہکا شہکا‘‘ برقرار رہے تو مجھے دلی خوشی ہوگی۔نواز شریف صاحب کا اپنا عالم یہ ہے کہ ان کے سگے چھوٹے بھائی جناب شہباز شریف صاحب ان دنوں پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ دکھاوے کے ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ ہوتے ہوئے بھی تاہم وہ اپنے بھائی کی باعزت وطن واپسی کی راہ نہیں بناسکتے۔پاکستان لوٹنے کی سکت سے محروم نواز شریف صاحب پاکستان میں امریکہ کو ’’اڈے‘‘ فراہم کرنے کا فیصلہ کیسے کرسکتے ہیں۔اس سوال کا جواب میرا کند ذہن ابھی تک ڈھونڈ نہیں پایا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر