نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ جب بھی رات کے بارہ بجے سے قبل پیٹرول اور ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرنے کے لئے ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوں تو ابتدائیہ میں عمران حکومت کو ہماری مشکلات کا ذمہ دار ٹھہرانے میں وقت ضائع نہ کریں۔ میری درخواست کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں گزشتہ حکومت کو ان دنوں شدید سے شدید تر ہوتے اقتصادی بحران کے تناظر میں بری الذمہ سمجھتا ہوں۔ بنیادی مسئلہ ہمارے ہاں اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم ہے۔ ویسے بھی عام پاکستانی کی نگاہ سے دیکھیں تو اسے رواں برس کے مارچ تک ”ستے خیراں“ والا ماحول نظر آ رہا تھا۔ وہ سمجھ ہی نہیں پارہا کہ عمران حکومت کے فارغ ہوتے ہی ملک میں ایسی کون سی بلا نازل ہو گئی جس نے لوڈشیڈنگ کا بحران ”اچانک“ پیدا کر دیا۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان کو چھونا شروع ہو گئیں۔
جو ”بلا“ نازل ہوئی ہے اس کی چاپ مجھ جیسے اقتصادی امور سے تقریباً نابلد شخص نے مارچ کے آغاز ہی میں سن لی تھی۔ اسی باعث فریاد کرتا رہا کہ عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کرنے سے گریز کیا جائے۔ اس سے نجات ہر صورت مقصود ہے تو خدارا تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل کرنے کی حماقت سے گریز کیا جائے۔ نئے انتخاب کی راہ بنے۔ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم چلاتے ہوئے ٹھوس معاشی حقائق کو عوام کے روبرو لاتے ہوئے یہ بتائیں کہ ان کے پاس سنگین تر ہوتے بحران سے نبرآزما ہونے کے لئے کون سا ”نسخہ“ موجود ہے۔
شہباز شریف اور ان کے چند مصاحبین کو تاہم اپنی ”سپیڈ“ اور انتظامی صلاحیتوں پر بہت مان تھا۔ دھڑلے سے حکومت سنبھال لی اور اب میرؔ کی طرح خوار ہوئے جا رہے ہیں۔ جس حقیقت کو حکومت سنبھالنے کی عجلت میں نظر انداز کر دیا وہ عمران حکومت نہیں بلکہ ریاست پاکستان کا عالمی معیشت کے نگہبان ادارے یعنی آئی ایم ایف سے ہوا معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کی تفصیلات معاشی امور کے حوالے سے عقل کل تصور ہوتے ”ٹینکوکریٹ“ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے 2019 ء میں طے کی تھیں۔ پاکستان نے چند کڑی شرائط پر ستمبر 2022 ء تک عمل کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے مختلف اقساط میں 6 بلین ڈالر حاصل کرنے کا بندوبست کیا۔
ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ جناتی انگریزی زبان میں میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو معاشی امور سمجھانے والے ”دانشور“ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی توجہ کے طالب رہے ہیں۔ حفیظ شیخ نے جو معاہدہ کیا اس کی ستائش میں دلائل کے انبار لگادیے گئے۔ اصرار ہوا کہ ”انقلابی اصلاحات“ کیے بغیر پاکستان کی معیشت کو سنبھالنا اب ممکن نہیں رہا۔
روزمرہ زندگی کا عذاب سہتے مجھ جیسے بدنصیب فریاد کرتے رہے کہ آئی ایم ایف سے جو معاہدہ ہوا ہے وہ امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنائے گا۔ متوسط طبقہ اس کی وجہ سے سکڑنا شروع ہو جائے گا اور محدود کم آمدنی والے کنبوں کا جینا دو بھر ہو جائے گا۔
حفیظ شیخ کی جگہ تاہم شوکت ترین وزیر خزانہ ہوئے تو سینہ پھلا کر یقین دلاتے رہے کہ پاکستان کی معیشت نہ صر ف بحال ہو چکی ہے بلکہ خوش حالی کی راہ پر تیز قدم بھی اٹھانا شروع ہو گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ ”ترقی کی رفتار“ برقرار رکھنے کے لئے بجلی کی قیمت کسی صورت نہیں بڑھائی جائے گی۔ شوکت ترین نے جو خوش کن خاکہ کھینچا اس میں رنگ بھرنے کے لئے عمران حکومت کے ترجمانوں کی فوج ظفرموج ”خوش حالی“ کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے بے تحاشا داستانیں گھڑنا شروع ہو گئی۔ میڈیا پر کامل کنٹرول کی وجہ سے انہیں بروقت جھٹلایا نہ جا سکا۔ پارلیمان میں اپوزیشن کی نشستوں پر براجمان ”ہمارے نمائندے“ بھی ہمیں خبردار رکھنے کو اپنا فرض نہ نبھاسکے۔
آئی ایم ایف مگر سفاک ساہوکار کی طرح چوکنا رہا۔ تواتر سے یاد دہانی کرواتا رہا ”یہ کیا ہو رہا ہے بھائی۔ یہ کیا ہو رہا ہے“ ۔ آئی ایم ایف کو رام کرنے ترین صاحب واشنگٹن گئے تو وطن لوٹنے کے بعد ٹی وی سکرینوں پر حیرت سے اعتراف کرتے رہے کہ آئی ایم ایف کا رویہ ”مخاصمانہ“ ہو چکا ہے۔ آپ کو اکتادینے کی حد تک میں تواتر سے یاد دلاتا رہا کہ امریکہ آئی ایم ایف کی فیصلہ سازی کے ضمن میں حتمی کردار ادا کرتا ہے۔ آئی ایم ایف اگر ہم سے ”مخاصمانہ“ ہو چکا ہے تو اس کے اسباب تلاش کیے جائیں۔ میری دانست میں افغانستان سے امریکی افواج کی ذلت آمیز واپسی نے امریکہ کو ”مخاصمانہ“ بنا دیا۔ اپنی ذات کا بدلہ وہ پاکستان کے خلاف آئی ایم ایف کو سخت گیر رکھتے ہوئے لے رہا ہے۔ عمران خان صاحب کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد جو حکومت آئی ہے اس کی ”اوقات“ کا بھی اسے بخوبی علم ہے۔ ہمارے ہاں ریاستی فیصلہ سازی کی حتمی قوتوں کو وہ ہم سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔ ”سبق“ درحقیقت ”انہیں“ سکھانا مقصود ہے۔ عمران یا شہباز حکومت اس تناظر میں ثانوی حیثیت کی حامل ہیں۔ اس پہلو کو مگر ہمارا ”آزاد و بے باک“ میڈیا اجاگر کرنے کی جرات سے محروم کر دیا گیا ہے۔
روس کے یوکرین پر حملے نے ایک حوالے سے امریکی مخاصمت کے حقیقی اسباب سے توجہ بھی ہٹادی ہے۔ اس کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کا بحران نمودار ہوا۔ انصاف کا تقاضا تھا کہ عمران حکومت اس بحران کے روبرو اپنی محدودات کو جرات وبہادری سے تسلیم کرتی۔ عمران خان صاحب مگر جبلی طور پر بھانپ چکے تھے کہ ان کی فراغت کا بندوبست تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔ اچانک ٹی وی پر نمودار ہوئے اور پیٹرول کی قیمتوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ عوام سے مذکورہ اعلان کی بدولت واہ واہ کروائی اور اقتدار سے فارغ ہو جانے کے بعد ”چور اور لٹیروں“ کے علاوہ ”میر جعفروں“ کو بھی للکارنا شروع ہو گئے۔ ان کی بیان کردہ ”امریکی سازش“ کے ذریعے قائم ہوئی ”امپورٹڈ“ حکومت کو سہار ا دینے کے لئے آئی ایم ایف اور اس کے سرپرست ممالک مگر ہرگز آمادہ نہیں ہیں۔ عرب دنیا میں ہمارے ”برادر“ تصور ہوتے ممالک بھی یاد دلانا شروع ہو گئے کہ پاکستان کے پیٹرول پمپوں پر جن نرخوں پر پیٹرول اور ڈیزل بیچا جا رہا ہے وہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کے مقابلے میں بھی صارفین کو سستے داموں بیچا جا رہا ہے۔ روس پر اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے عرب ممالک میں پیدا ہوا تیل عالمی منڈی میں اب سونے کے بھاؤ بک رہا ہے۔ بازار میں منافع کی رونق لگی ہو تو سگے بھائی بھی آپ کی مشکلات سے غافل ہو جاتے ہیں۔
چند دن قبل ہمارے ایک وزیر خاموشی سے ایک خلیجی ملک گئے تھے۔ وہ ملک قدرتی گیس سے مالا مال ہے۔ ہماری خواہش تھی کہ وہ ادھار پر ہمیں گیس کی وافر ترسیل کی امید دلائے۔ وہاں سے اطلاع مگر یہ ملی ہے کہ مذکورہ ملک کی گیس کو مختلف یورپی ملکوں نے 2025 ء تک ”بک“ کر لیا ہے۔ کسی اور کو گیس دینے کو اب اس ملک کے پاس ”بلبلہ“ بھی میسر نہیں ہے۔ مختصراً یوں کہہ لیں کہ پیٹرول کے بعد اب گیس کو بھی عالمی منڈی کے بھاؤ مطابق خرید کر پاکستان لانا ہو گا۔ آنے والے موسم سرما میں لہٰذا ہیٹر اور گیز رچلانے سے قبل میرے اور آپ جیسے پاکستانی کو سو بار سوچنا ہو گا۔ پیٹرول، گیس اور کوئلہ کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے بجلی کو بھی مزید مہنگا ہونا ہے۔ مہنگائی کا طوفان گویا ”ابھی تو“ شروع ہوا ہے۔ اس کا سارا دوش تاہم وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے سر ہی جائے گا۔ اس سے مفر ممکن ہی نہیں۔ بہتر یہی تھا کہ اقتدار سنبھالنے سے گریز کرتے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر