اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سانسوں کے دیناروں سے بھری زندگی کی تھیلی |||حیدر جاوید سید

نصف صدی سے ڈیڑھ عشرہ اوپر کا سفر حیات طے کرچکے مجھ طالب علم سے کوئی پوچھے کہ زندگی کیا ہے تو میرا جواب ہوگا، دوست، کتابیں، مطالعہ، مکالمہ۔ یہ محض بناوٹی بات نہیں۔ دوستوں نے مجھے ہمیشہ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ آڑے وقت میں سائے کی طرح ساتھ موجود رہے۔ مشکل میں باہمی مشاورت سے حل تلاش کیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چنددن ہوتے ہیں سوشل میڈیا پر آقائے حافظ شیرازیؒ کے ایک شعر کا ترجمہ پوسٹ کیا تو ایک عزیز نے اس شعر کو خلاف مذہب و عقیدہ قرار دے دیا۔

حافظ شیرازیؒ کہتے ہیں

’’میں کعبہ کی طرف منہ کیسے کروں میرے مرشد کا منہ میخانہ کی طرف ہے‘‘۔ اس میں خلاف مذہب و عقیدہ بات اور فہم کیا ہے طالب علم سمجھ نہیں پایا۔

جو سمجھ پایا وہ فقط یہی ہے کہ تقابلی مطالعے اور خود مطالعے سے عدم دلچسپی بسا اوقات ایسی بات کہلوادیتی ہے کہ پڑھنے سننے والے پریشان ہوجاتے ہیں۔

پانچ عشروں سے کچھ اوپر ایک دن کلاس روم میں استاد مکرم سیدی عباس نقویؒ غالب پڑھاتے ہوئے شیخ سعدیؒ کی طرف گئے پھر دیوان حافظ شیرازیؒ کے اشعار بمعہ ترجمہ شاگردوں کو سنانے لگے۔

استاد محترم نے حافظ شیرازی کا شعر پڑھا اور ترجمہ کچھ یوں کیا

’’کم ظرف کا میخانے کے اس پار کیا کام و ہ تو پہلی سیڑھی نہیں چڑھ پاتا‘‘۔

عباس نقوی صاحب اپنے پیریڈ میں دس منٹ شاگردوں کے سوالات کا جواب دیا کرتے تھے۔ سوالات کا وقت ہوا تو عرض کیا، استاد مکرم ، شیرازیؒ کے اس شعر کا مطلب سمجھادیجئے۔ انہوں نے فرمایا

’’اس شعر میں حافظ شیرازی علم کو میخانہ کہہ رہے ہیں، درست بات بھی یہی ہے کہ علم کے میخانے میں کم ظرف کا کوئی کام نہیں۔ کم ظرف کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا یہ وہ شخص ہے جو دو لفظوں کا بوجھ نہ اٹھاسکتا ہو۔ سیدی کا جواب خاصا طویل تھا نصف صدی بعد جو بات یاد رہ گئی وہ یہ ہے کہ

"ظرف نہ ہو تو علم کے تین لفظوں کا یہ بوجھ ہی نہیں اٹھایا جاسکتا کہاں علم کی کسی ایک شاخ پر مکمل دسترس اور اس کے لئے وسیع مطالعہ” ۔

بعد کے ماہ و سال میں جن شعرا سے عشق سا ہوا ان میں آقائے حافظ شیرازیؒ بھی شامل ہیں۔ فارسی کے قادر الکلام شاعر ہیں سو انہیں بھی سعدیؒ و عمر خیام کی طرح ترجمے کی مدد سے ہی پڑھا سمجھا۔

ہمارے عہد کے سرائیکی شاعر اصغر گورمانی نے چار مصرعوں میں بات کہی۔ مفہوم یہ ہے کہ

’’مالک تمہارا گھر بن رہا ہے، میں سادہ و غریب بے نوا تمہارے گھر کی تعمیر کے لئے چندہ دینے کی حیثیت میں نہیں ہوں۔ میرا دل چاہتا ہے حضرت جبرائیلؑ کو تلاش کروں۔ مل جائیں تو کہلوا بھیجوں، مالک اگر موسموں کی سختیاں برداشت کرسکو تو جب تک تمہارا گھر نہیں بن جاتا تم میرے گھر میں قیام کرلو‘‘۔

علم و ادب کے نقاد پتہ نہیں سرائیکی شاعری کے ان چار مصرعوں پر کیا کہیں گے مجھ طالب علم کے خیال میں یہ چار مصرعے اتنے طاقت ور ہیں کہ اصغر گورمانی کو صدیوں بلکہ ہزاریوں تک زندہ رکھیں گے۔

شاعر اپنی فہم اور مشاہدے سے کلام کرتا ہے۔ لازم نہیں کہ تخلیق کار کی فہم کو سوفیصد سمجھ لیا جائے۔ جو سمجھ لیتے ہیں وہ اپنے اپنے دور میں اساتذہ کے درجہ پر فائز ہوتے ہیں۔

ان سطور میں سندھی زبان کے دوصوفی شعرا حضرت سچل سرمستؒ اور سامی کے دو اشعار کے ترجمے ایک سے زائد بار پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کرچکا۔ مکرر عرض کئے دیتا ہوں۔ سچل سرمستؒ سے دریافت کیا گیا،

’’زندگی کیا ہے۔ سچل نے چٹکی بھر خاک زمین سے اٹھاکر ہوا کے دوش پر رکھتے ہوئے کہا یہ ہے زندگی‘‘

اب زندگی ہے تو واقعی ہوا کے دوش پر رکھی خاک کی چٹکی۔ پڑھنے والا اپنی فہم کے مطابق ہی مفہوم پائے اور سمجھے گا۔ طالب علم یہ سمجھ پایا کہ سچل کہہ رہے ہیں

’’رائے سے خالی انسان کی زندگی اس مٹی کی طرح ہے جو معمولی سی ہوا میں بھی اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے۔ زندگی کو ڈھنگ سے جینے کا سامان کرو زندہ رہنے کے تقاضے سمجھو تاکہ وقت کے تھپیڑے تمہیں ادھر اُدھر نہ لئے پھرتے رہیں اور تم اپنی جگہ ثابت قدمی سے کھڑے جمے رہو، یہ ثابت قدمی مطالعے اور مکالمے کی عطا وہ رائے ہے جس نے تمہارا وزن بنایا۔ یہ وزن ہی لڑھکتے رہنے سے آدمی کو بچاتا ہے‘‘۔

دوسرا شعر جناب سامی کا ہے۔ اس کا ترجمہ ہے ’’دوست سندھو ندی کے ٹھنڈے اور میٹھے پانیوں کی طرح ہوتے ہیں‘‘۔ طالب علم نے سندھ کے صوفی شاعر سامی کے اس شعر کو سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں سمجھا۔

امام علیؑ فرماتے ہیں

’’غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو‘‘۔ یعنی دوست کا ہونا جہاں فکری اور معاشی مفلسی سے محفوظ رکھتا ہے وہیں اس کی موجودگی کا احساس ایسا ہی فرحت بخش ہے جیسا سندھو ندی کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی۔

دوستوں سے محروم شخص کی غربت کیا ہے یہی اپنی ذات کو کل کائنات سمجھنا یہ احساس برتری کی وہ قسم ہے جو احساس کمتری سے بھی بھیانک بیماری ہے۔

یہاں ایک بات اور بھی ہے ہماری اور ہمارے بعد کی نسلوں کو متاثر کرنے والے شاعر احمد فراز کا ایک شعر ہے:

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

بات وہی ہے کہ آپ اپنے روز و شب میں درجنوں گاہے انگنت لوگوں سے ملتے ہیں کچھ لمحے ان کے ساتھ بیتاتے ہیں خوب گپ شپ کرتے ہیں لیکن حال دل اسی سے بیان کرتے ہیں جو آپ کے دوست ہوں آپ قلبی طور پر انہیں دوست سمجھتے اور ان پر اعتماد کرتے ہوں۔

دوستوں سے محرومی یقیناً غربت ہے بدترین غربت۔ دوست کا وجود تپتے ہوئے صحرا میں نخلستان ہے۔ پیاس میں سندھو ندی۔ دوست ہوتو اکلاپے کو مسلط نہیں ہونے دیتا۔ ہمت بندھاتا ہے۔ اس کی ڈھارس اور ساتھ کا حوصلہ زمانے سے لڑنے کا جذبہ مستحکم کرتا ہے۔

نصف صدی سے ڈیڑھ عشرہ اوپر کا سفر حیات طے کرچکے مجھ طالب علم سے کوئی پوچھے کہ زندگی کیا ہے تو میرا جواب ہوگا، دوست، کتابیں، مطالعہ، مکالمہ۔ یہ محض بناوٹی بات نہیں۔ دوستوں نے مجھے ہمیشہ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ آڑے وقت میں سائے کی طرح ساتھ موجود رہے۔ مشکل میں باہمی مشاورت سے حل تلاش کیا۔

کتابوں نے زندگی، تاریخ اور افکار و خیالات کو سمجھنے کےلئے رہنمائی کی۔

مطالعہ نے بہت ساری ان عادتوں سے محفوظ رکھا جو اگر ہوتیں تو ہر قدم پر لوگوں کی انگلیاں ہماری طرف اٹھتی رہتیں۔

مکالمے نے درست اور غلط کے شعور کی دولت سے مالامال کیا۔

اب ضروری نہیں کہ میرا غلط آپ کے لئے بھی غلط اور میرا درست آپ کے لئے بھی درست ہو ہاں ہم اس پر مکالمہ کرسکتے ہیں اتفاق رائے پیدا نہ بھی ہو تو کم از کم برداشت تو پیدا ہوتی ہے دوسرے کی بات اور رائے سننے کی۔

یہ برداشت ہی آپ کو مسیتڑ ملا کی طرح فتوے بازی اور کاٹھ کے الووں کی سی حب البرتنی سے محفوظ رکھتی ہے۔

معاف کیجئے گا آج کا کالم ہلکی پھلی سیاسی نوک جھونک اور چٹخارے دار کہانیوں کے ساتھ ملاکھڑوں سے خالی ہے۔

بات حافظ شیرازیؒ کے ایک شعر سے شروع ہوئی تھی ہمیں شاعروں کے کلام کو اپنے مذہب و عقیدے کے ترازو میں تولنے اور کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے مطالعے اور عصری شعوری سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

زندگی کا اصل حسن مطالعہ ہے لیکن لازم ہے کہ یہ یک رُخا نہ ہو۔ تقابلی مطالعہ کی اہمیت مسلمہ ہے اس سے آپ کو اپنی رائے بنانے میں مدد ملتی ہے۔

حافظ شیرازیؒ کہتے ہیں ’’دیناروں سے بھری تھیلی بس چند جاموں کے عوض ساقی کے قدموں پر نچھاور کردی‘‘۔

اب آپ اس کا جو مرضی مطلب نکالتے رہیں طالب علم کو یہی سمجھ میں آیا کہ زندگی کی تھیلی سانسوں کے دیناروں سے بھری تھی ہم اسے پیاس علم بجھانے کے لئے اساتذہ کے قدموں پر نچھاور کرتے رہے‘‘۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: