اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جنت کی تلاش||رؤف کلاسرا

بعض ملکوں‘ معاشروں اور انسانوں کو جنت اس دنیا میں ہی نصیب ہو جاتی ہے۔ ٹھنڈے ماحول میں کیفے کے اندر گرم کافی کی چار سو پھیلی خوشبو میں ڈوبے خیال آیا کہ ہم خود ہی اپنی جنت اور جہنم تخلیق کرتے ہیں۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مان میں رہتے ہوئے آپ کو عجیب سا سکون محسوس ہوتا ہے۔ اس ملک کی پُرسکون فضا سے آپ کے اندر ایک سکون سا بھر جاتا ہے۔ یہاں قیام کے دوران مجھے کوئی شخص روتا یا گلہ کرتا نہیں ملا‘ جو بھی ملا خوشحال ملا‘ کھلے دل کا ملا۔ ایسے مطمئن چہرے تو مجھے لندن میں بھی نہ ملے تھے، بلکہ مجھے یاد ہے اگر لندن میں کوئی مجھے کافی پلا رہا ہوتا تو میری کوشش ہوتی تھی کہ میں خود جیب سے بل دوں کیونکہ مجھے علم تھا کہ اس کے ذہن میں فی گھنٹہ اُجرت چل رہی ہوگی۔ برطانیہ‘ امریکہ یا کسی اور ملک جائیں تو آپ کو اکثر پاکستانی گلہ کرتے ملیں گے۔ کسی کو سفارتخانے سے گلہ ہے تو کسی کو پاکستان سے‘ کسی کو سیاسی لیڈروں سے یا میڈیا سے‘ یقینا ان کے گلے جائز بھی ہوں گے۔ اس کے برعکس مسقط میں مقیم پاکستانیوں کو کسی سے کوئی شکوہ یا شکایت نہیں۔ احساس ہوا کہ جس ملک میں آپ رہتے ہیں‘ وہاں کی خوشحالی یا سکون کا آپ پر بھی اثر ہوتا ہے۔ مسقط میں اہلِ وطن میں ویسا جذباتی پن بھی نہیں دیکھا جو امریکہ یا برطانیہ میں رہنے والے بعض افراد میں نظر آتا ہے۔ جس طرح امریکہ اور برطانیہ میں رہنے والے اکثر پاکستانی سنبھالے نہیں جارہے‘ ویسی صورتحال کم از کم اس ملک میں نہیں ہے۔ یقینا لوگوں کے سیاسی نظریات ہیں لیکن وہ آپ کے گلے نہیں پڑتے‘ نہ بدتمیزی پر اترتے ہیں۔ وہ آپ کی بات دھیان سے سنتے ہیں اور اپنی بھی سناتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہاں کا حکومتی نظام ہے ‘جہاں سیاست پر لوگ اتنے ایکٹو نہیں یا انہیں اجازت نہیں‘ لہٰذا وہ متنازع ایشوز میں نہیں پڑتے۔
عمان میں چوہدری اشرف صاحب جیسے لوگ بھی ملے‘ جو ساٹھ کی دہائی میں مسقط گئے تھے اور آج وہ وہاں کے شہری ہیں۔ اگرچہ یہاں کی شہریت لینا آسان نہیں لیکن بہت سے پاکستانی شہریت لے چکے ہیں اور ان کا یہاں نمایاں مقام ہے۔ امیر حمزہ نے مسقط میں تعینات پاکستان کے نئے سفیر عمران چوہدری صاحب کی تعریف کی کہ کم عرصے میں انہوں نے یہاں لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔ ان سے مل کر یاد آیا کہ عمران صاحب ایک وقت میں فارن آفس میں اس ڈیسک کو دیکھ رہے تھے جو کچھ یورپی قوموں سے ڈیل کرتا تھا‘ انہی کے دور میں سوئٹزرلینڈ ایمبسی کا سکینڈل آیا تھا جس کی وجہ سے اس ایمبسی کو بند کر دیا گیا تھا۔عمران صاحب سے جب ملاقات ہوئی تو انہیں بڑا کھلا ڈُلا پایا۔ یوں لگا اب بھی فارن سروس میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو انسان کو انسان سمجھ کر ملتے ہیں اور اعلیٰ عہدوں پر انکساری کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ یقینا ان جیسے اور بھی افسران ہوں گے۔ کسی بھی ڈپلومیٹ کی اچھائی یا برائی وہاں کے پاکستانی بتاتے ہیں۔ اگرچہ سب کو خوش کرنا مشکل کام ہے لیکن پھر بھی آپ کو کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون کس مزاج کا ہے۔ عمران صاحب کی سب نے ہی تعریف کی کہ سادہ انسان ہیں‘ سب کو میسر ہیں۔
سفیر صاحب اور میں وہ یادیں تازہ کرنے لگے جب پندرہ‘ سولہ برس قبل میں نے ایک سکینڈل بریک کیا تھا‘ جس میں ایک یورپی ملک کے سفارتخانے کے کچھ افسران ایک پاکستانی خاتون کو ہراساں کرنے میں ملوث پائے گئے تھے۔ سفارتخانے کا ایک مقامی ملازم ایسا ریکٹ چلا رہا تھا جو پاکستانیوں کو ویزے لگوا کر دیتا تھا۔ لاہور کی ایک خاتون کو بھی اس کی طرف سے ویزہ لینے کیلئے شام کے کھانے کی دعوت دی گئی تھی۔ خاتون کے انکار پر اس اور اہلِ خانہ کے برطانیہ اور دیگر ممالک کے ویزوں کو بھی بلیڈ سے کاٹ دیا گیا۔ اس خاتون نے پاسپورٹ واپس ملنے پر رولا ڈالا۔ پاکستانی فارن آفس اس معاملے پر زیادہ ایکٹو نہ تھا‘ ان کا خیال تھا خواتین کی باتوں پر زیادہ اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ عمران صاحب نے لیکن اس پر سٹینڈ لیا کہ ہم کیوں سمجھتے ہیں کہ ہر دفعہ ہم ہی غلط اور جھوٹے ہوتے ہیں۔ اس وقت ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ تھے۔انہوں نے اس کیس پر کارروائی شروع کی اور جب اس پاکستانی ملازم کو گرفتار کیا گیا تو اس نے کئی انکشافات کیے۔ وہ انکشافات جب میں نے رپورٹ کیے تو ایمبیسی چھوڑیں‘ جنیوا تک رولا پڑ گیا۔ سوئس وزیرخارجہ‘ جو خود ایک خاتون تھیں‘ فوراً پاکستان آئیں اور تحقیقات کے بعد ایمبیسی بند کر دی گئی‘ پھر کافی عرصے بعد اسے دوبارہ کھولا گیا۔
عمران صاحب کہنے لگے: ہمارے بارے میں ایک تاثر بن گیا ہے کہ ہم پاکستانی ہی ہر جگہ غلط ہوتے ہیں۔ انہوں نے پندرہ سال قبل بھی اپنے افسران سے یہی درخواست کی تھی کہ ایک دفعہ ہم یہ سوچ کر تحقیقات کیوں نہیں کراتے کہ خاتون کے الزامات درست ہیں کہ اسے ہراساں کیا گیا‘ اس کے اور اس کی فیملی کے پاسپورٹس سے امریکہ اور برطانیہ کے ویزے بلیڈ سے کاٹ دیے گئے۔ اگر مسئلہ صرف سوئس ویزہ نہ دینے کا ہوتا تو یہ اور معاملہ تھا لیکن باقی ملکوں کے ویزے کیوں کاٹے گئے؟خیر یہ ایک لمبی لڑائی تھی جو اس وقت لڑی گئی تھی اور اس سے ثابت ہوا کہ اگر آپ کسی ایشو پر سچے ہیں‘ تو ڈٹے رہیں۔ ہوسکتا ہے کہ دیر سویر ہو جائے لیکن آخر میں فتح سچ کی ہی ہوتی ہے اور اس مشکل کیس میں یہی کچھ ہوا۔ آخرکار وہ لوگ گرفتار ہوئے، نوکریوں سے نکالے گئے اور سفارت خانے کو کچھ عرصے کے لیے بند کر دیا گیا۔
عمان میں اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ اگر کسی بھی ملک یا قوم کو ایک لیڈر مل جائے تو معاشرے بدل سکتے ہیں۔ عمان کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ سلطان قابوس نے ان تمام برسوں میں عمان کو ایک جدید ریاست میں بدل دیا۔امیر حمزہ سے میں نے پوچھا: کیا وجہ ہے‘ دبئی کی طرز پر یہاں بلند و بالا عمارتیں کیوں نہیں ہیں‘ دبئی میں تو لگتا ہے زندگی کبھی رکتی نہیں‘ مگر یہاں لگتا ہے کہ وقت ٹھہر سا گیا ہے‘حالانکہ روڈ سے صرف تین گھنٹوں کا سفر ہے‘ اتنا فرق؟امیر حمزہ کہنے لگے: یہ ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے کہ ہم نے دبئی جیسا نہیں بننا‘ لہٰذا یہاں کی زندگی آپ کو مختلف ملے گی۔ یہاں کوئی عمارت آپ کو اونچی نظر نہیں آئے گی اور یہی اس شہر کی سادگی اور خوبصورتی ہے۔
مجھے اب سمجھ آیا کہ یہ شہر کیوں دل کو بھا جاتا ہے‘ یہاں آپ کو اپنے فلک بوس عمارتیں نظر نہیں آتیں۔ سادگی اور خوبصورتی ہی آپ کی آنکھوں کو نظر آتی ہے۔ عمان نے جس طرح ساحلِ سمندر کو استعمال کیا ہے‘ وہ اپنی جگہ کمال ہے۔ نیلے پانیوں کے کنارے بنے کیفے شام کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ وہاں مشہورِ زمانہ کافی چین کے کیفے کو دیکھ کر دل مچل گیا۔ سمندر کے کنارے بنے اس کیفے کی اپنی خوبصورتی ہے۔ سر پر تپتا سورج، آگے نیلے پانیوں سے بھرا سمندر اور پیچھے پہاڑیاں اور ان کے درمیان دور تک جھاڑیاں‘ آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو لگے گا کسی انگریزی ویسٹرن فلم کا منظر ہے اور آگے دیکھیں گے تو تا حدِ نظر نیلا پانی‘ جہاں سے ابھی سند باد جہازی اپنے سفر پر نکلا ہے۔
امیر حمزہ اور خوبصورت شاعر قمر ریاض کے ساتھ اس دوپہر میں‘ اس کیفے سے اٹھنے کو دل نہ کررہا تھا۔ ایک عجیب سا سکون‘ ایک عجیب سا ناسٹلجیا‘ منفرد قسم کا ماحول‘ کیفے میں چار سو پھیلی کافی کی مخصوص خوشبو‘ جسے آپ آنکھیں بند کر کے محسوس کرنے کی کوشش کریں تو مزہ دوبالا ہو جائے۔ کیفے میں بیٹھے سب مرد وخواتین کے چہرے مطمئن تھے۔ کافی اور ملک شیک کے گھونٹ بھرتے نوجوان لڑکے لڑکیاں‘ آگے نیلا سمندر‘ پیچھے سرخی مائل پہاڑ اور درمیان میں یہ پُرسکون کیفے اور اس کے اندر گرم کافی کے گھونٹ بھرتے ہنستے‘ مسکراتے خوبصورت چہرے۔
بعض ملکوں‘ معاشروں اور انسانوں کو جنت اس دنیا میں ہی نصیب ہو جاتی ہے۔ ٹھنڈے ماحول میں کیفے کے اندر گرم کافی کی چار سو پھیلی خوشبو میں ڈوبے خیال آیا کہ ہم خود ہی اپنی جنت اور جہنم تخلیق کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: