اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تین خبریں اور تین ” کھڑکی توڑ ” کہانیاں |||حیدر جاوید سید

نور عالم تحریک انصاف کے ان 20منحرف ارکان میں شامل ہیں جن کے بارے میں سابق وزیراعظم عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ یہ لوگ 20سے 25کروڑ روپیہ لے کر منحرف ہوئے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عقیل یوسفزئی خیبر پختونخوا کے ان صحافیوں میں سے ہیں جنہوں نے بہت محنت اور مشقت سے اپنا نام بنایااور ساکھ بھی۔ اپنی حالیہ تحریر میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ

’’خیبر پختونخواکی صوبائی کابینہ کے 6ارکان نے کالعدم ٹی ٹی پی کو بھتہ ادا کیا ہے‘‘۔

تحریک انصاف کی حکومت پچھلے 9سال سے اس صوبے میں قائم ہے لیکن بھتہ خوری کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ صوبے کے طول و عرض میں بنام طالبان جاری اس کاروبار سے تقریباً سبھی آگاہ ہیں مگر کارروائی کون کرے۔

ایک ایسے صوبے میں جہاں کبھی عمران خان طالبان کو دفتر بنواکر دینے کے لئے پرجوش تھے، ان کا خیال تھا کہ دفتر اس لئے بھی ضروری ہے کہ بات چیت کرنے میں آسانی رہے گی۔

پھر یہ بھی ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کے پچھلے دور میں جب کالعدم ٹی ٹی پی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی تو عمران خان بھی مولانا سمیع الحق مرحوم کے ساتھ ٹی ٹی پی کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن تھے۔

اب اسی کالعدم تنظیم کو اگر تحریک انصاف کے صوبائی وزراء بھتہ دے رہے ہیں تو سوچنا پڑے گا کہ کیا یہ واقعی بھتہ ہے یا اعانت کو بھتے کا نام دے کر پردہ پوشی کی جارہی ہے۔

سوچنے اور غور کرنے کے لئے اگر ’’کسی‘‘ کے پاس وقت ہو دلچسپ انکشافات ہوسکتے ہیں۔

دو تین سابق وفاقی وزراء مراد سعید، علی محمد خان اور شہریار آفریدی کے کالعدم تنظیم سے خاموش اور پرجوش روابط کے ساتھ خود وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے بہت سارے معاملات سے پردہ اٹھ سکتا ہے۔

عقیل یوسفزئی یا کسی دوسرے صحافی دوست کو چاہیے کہ وہ خیبر پختونخوا پولیس کے پاس گزشتہ 9سالوں کے دوران بھتہ خوری کی درج شکایات کا ڈیٹا حاصل کریں مزید دلچسپ انکشافات تو ہوں گے ہی بہت ساری ایسی شخصیات کے چہروں سے نقاب بھی اترے گا جو اس بھتہ کے لئے ’’وچولے‘‘ (سہولت کار) کا کردار ادا کرتے رہے۔

ویسے مجھے اندازہ ہے کہ یہ خاصا مشکل کام ہے۔ سانپ کے بل میں انگلیاں ڈالنے والا۔ پھر ہمارے یہاں صحافی کی کسی سٹوری پر دادوتحسین ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ کوئی انہونی ہوجائے تو داد دینے والے سات سات کوس دور بھی دیکھائی نہیں دیتے۔

فقیر راحموں کے بقول کامیابی کے حصے دار بہت ناکامی اور موت پر افسوس کرتے ہوئے بھی لوگ نفع نقصان سوچتے ہیں۔

یہ بات کچھ غلط بھی نہیں۔ بہرحال یہ تلخ حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوا میں پچھلے دو عشروں سے منافع بخش کاروبار بھتہ خوری اور سہولت کاری ہی ہے۔ کبھی بھتہ کا حکم بذریعہ پرچی موصول ہوا کرتا تھا پھر افغانستان کے موبائل نمبروں سے فون اور ہدایات موصول ہونے لگیں اب پھر پرچی والا سلسلہ شروع ہے۔

آج کی دوسری خبر

اسلام آباد کے صحافی زاہد گشکوری کا انکشاف ہے۔ انہوں نے نام لئے بغیر کہا کہ "ایک اہم شخصیت نے ڈی سی اسلام آباد کو اپنے دوست کا سیل شدہ پٹرول پپم کھولنے کا حکم دیا۔ ڈی سی کے انکار پر اسے طلب کرکے اس سے توہین آمیز برتائو کیا گیا” ،

فقیر راحموں نے دوستوں کے ذریعے جگاڑ لگاتے ہوئے جو معلومات حاصل کی ہیں وہ پیش کرنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ اگر صحافی کسی خبر میں نام لینے کی بجائے اشارے دے تو ضروری نہیں کہ اس نے لفافہ اٹھالیا ہوگا اور بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔

اہم ترین وجہ بااثر شخصیت کی ’’پہنچ‘‘ ہوتی ہے۔ پہنچ دو طرح کی ہوتی ہے ایک صحافی کے مالکان اور سینئر ادارتی عملے تک دوسری ریاست کی قوت استعمال کرسکنے والی۔ ایسے میں صحافی خبر میں ناموں کا ذکر نہیں کرتا اشارے دے دیتا ہے۔

چلیں خیر ہم آپ کو فقیر راحموں کی اپنے دوستوں کے ذریعے لگائی جگاڑی معلومات میں شریک کرتے ہیں البتہ اس سے قبل یہ عرض کردیں معلومات سوفیصد درست ہیں سینگ پھنسانے کی کوشش میں اگر کسی کے سینگ ٹوٹے تو ادارہ ہذا ذمہ دار نہیں ہوگا۔

قصہ یہ ہے کہ اسلام آباد کے کشمیر ہائی وے پر کسی وقار قاضی نام کے صاحب کا پٹرول پمپ ہے اسے کچھ دن قبل ڈی سی اسلام آباد کے حکم پر سیل کیا گیا۔ ملاوٹ اور مقررہ نرخوں سے زائد رقم کے ساتھ تیسرا الزام یہ ہے کہ مقدار میں کمی کا خصوصی انتظام تھا۔

آپ سیانے بیانے لوگ ہیں اب یہ نہ کہہ دیجئے گا شاہ جی یہ مقدار میں ’’کمی بیشی‘‘ کا خصوصی انتظام کیا ہوتا ہے۔ پٹرول پمپ سیل کئے جانے کے بعد وقار قاضی نے سفارش اور تعلقات کے گھوڑے دوڑاکر دیکھ لئے ناکامی پر اس نے اپنے دوست رکن قومی اسمبلی نور عالم سے رابطہ کیا۔

نور عالم خیبر پختونخوا سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ہیں ان کی آزاد خیالی یعنی ماضی میں اپنی ہی حکومت پر کھلی تنقید کی وجہ سے صحافیوں اور اپوزیشن جماعتوں نے انہیں ہیرو بناکر پیش کیا تھا۔

نور عالم تحریک انصاف کے ان 20منحرف ارکان میں شامل ہیں جن کے بارے میں سابق وزیراعظم عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ یہ لوگ 20سے 25کروڑ روپیہ لے کر منحرف ہوئے ہیں۔

پیسوں کے معاملے پر چونکہ نور عالم قرآن مجید پر حلف دے چکے ہیں اس لئے اس پر بحث فضول ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی جماعت سے بغاوت کی۔ آج کل نور عالم قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سربراہ ہیں جذباتی تقاریر اور اکھڑ پن میں مشہور ہیں۔

تین چار دن قبل انہوں نے نیب کے قائم مقام سربراہ کو اپنے محکمہ کے افسروں کے گوشوارے پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بھجوانے کا حکم دیا ہے تاکہ دیکھا جائے کرپشن ختم کرنے والے ادارے کے اپنے افسروں کے اثاثوں میں دوران ملازمت کتنا اضافہ ہوا۔

وقار قاضی سیل شدہ پٹرول پمپ کے مالک اسی نور عالم کے ذاتی دوست ہیں۔ دوست کی شکایت پر انہوں نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو فون کیا اور سیل ختم کرنے کو کہا۔ ڈی سی نے انکار کردیا۔

اس پر انہوں نے ڈی سی کو کمیٹی کے اجلاس میں طلب کیا۔ ڈی سی اجلاس میں پہنچے اور خاموشی سے ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ نور عالم نے ان کے بیٹھنے پر نہ صرف برہمی ظاہر کی بلکہ چند سخت جملے بھی کہے اور پھر ” کورا جواب بھی سن لیا” ،

سوال بس اتنا ہے کہ قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سربراہ کو اس پنگے میں پڑنے کی ضرورت کیا تھی؟

تیسری خبر

آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد سے ہے جہاں آزاد کشمیر کے وزیراعظم نے اپنے سٹاف کے چند سینئر ارکان کے ساتھ کچھ پولیس افسروں اور سکیورٹی والوں کو معطل کردیا ہے۔

بتایا جارہاہے کہ تین دن قبل کی ایک شب میں کوئی شخص سکیورٹی حصار کو ناکام بناکر وزیراعظم سردار تنویر الیاس کے بیڈ روم تک پہنچ گیا تھا۔

وزیراعظم ہائوس میں وزیراعظم کے بیڈ روم تک پراسرار شخص کی رسائی سے ہلچل کے ساتھ ’’ہنگامہ‘‘ بھی اٹھا، اب طرح طرح کی کہانیاں ہیں ان کہانیوں کو زبان ملی ان مقدمات کی وجہ سے جو ان کے ایک مشیر نے اپنے حلقہ کے بعض افراد کے خلاف درج کروائے۔

ڈاکٹر صاحب (( وزیراعظم کے مشیر ) کا موقف ہے کہ ان افراد (مقدمے میں نامزد) نے میری اخلاقی اور سماجی حیثیت پر حملہ کیا ہے۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ معاملہ صرف پراسرار شخص کے وزیراعظم کے بیڈ روم تک پہنچ جانے کا نہیں بلکہ کچھ لمحات کی ویڈیو بنائے جانے کا ہے۔

وزیراعظم کو جب ویڈیو بنائے جانے کا احساس ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی ان کے شور مچانے پر پراسرار بندہ چھلاوے کی طرح غائب ہوگیا۔

اب ایک انار سو بیمار والا معاملہ ہے۔ مظفر آباد سے لاہور تک دو تن کہانیاں فروخت ہورہی ہیں۔

سچ کیا ہے یہ وزیراعظم آزاد کشمیر جانتے ہیں یا ان کا وہ مشیر جس نے اپنے حلقہ کے بعض لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہے۔

فی الوقت تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کہانیوں پر توبہ ہی بھلی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: