مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہ شہر کا مشہور ڈاکٹر تھا||مبشرعلی زیدی

عامر لیاقت نے وہ کہانی بھی پڑھی ہوگی لیکن اس بار فون نہیں کیا۔ اس کے بجائے میری طرح فلیش فکشن لکھنے کی کوشش کی اور چلہ کہانی کا آغاز کیا۔ چلہ کہانی یعنی چالیس الفاظ کی کہانی۔ پہلی تحریر میرے ہی خلاف تھی،
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شہر کا مشہور ڈاکٹر تھا۔
تشخیص غلط کرتا تھا، دوا سے آرام نہیں آتا تھا۔
لیکن چرب زبان تھا، مریضوں کو مطمئن کر دیتا تھا۔
پھر ایک دن میں نے دیکھا، وہ چوراہے پر بیٹھا تھا۔
منہ سے رال ٹپک رہی تھی۔ اول فول بکے جا رہا تھا۔
اپنے کپڑے اتار پھینکے تھے۔ دوسروں کے کپڑے اتارنے کو لپکتا تھا۔
میں نے پوچھا، "اس کے ساتھ کیا حادثہ ہوا؟”
ایک راہ گیر نے بتایا، "یہ بے چارہ آدھا پاگل تھا،
اپنا علاج خود کرنے کی کوشش کی،
لیکن جعلی ڈاکٹر تھا نا، غلط علاج سے پورا پاگل ہو گیا۔”
میری یہ کہانی 23 جنوری 2017 کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی تھی۔ صبح صبح عامر لیاقت کا فون آیا۔ شدید غصے میں تھا۔
"بہت سیانڑا بنتا ہے؟ لکھ دی کہانی میرے خلاف؟ اب دیکھ میں تیرا کیا حشر کرتا ہوں۔ رات کو پروگرام میں بتاوں گا۔ تیرا تعلق تھا بھینسے سلمان حیدر کے ساتھ۔ میرے پاس تصویر ہے وہ والی۔ جلوس نکلواؤں گا تیرے خلاف۔ لوگ ڈھونڈ کے ماریں گے۔ بیٹا تو دیکھ کیا ہوتا ہے اب۔”
میں سکون سے سب سنتا رہا۔ پھر جیو کے ایک عہدے دار کو فون کرکے بتایا۔ یہ بھی کہا کہ عامر لیاقت نے کیا دھمکی دی ہے اور اگر مجھے نقصان پہنچے تو اسے ذمے دار قرار دیا جائے۔
"کیا آپ نے سلمان حیدر کے ساتھ تصویر بنوائی تھی؟” انھوں نے پوچھا۔
"وہ میرے دوست ہیں۔ جی ہاں، تصویر میں نے خود فیس بک پر پوسٹ کی تھی۔ لیکن وہ بھینسا بلاگر نہیں ہیں اور ان پر الزامات غلط ہیں۔” میں نے کہا۔
"غلط درست کون دیکھتا ہے آج کل۔ آپ احتیاط سے کام لیں۔” مجھے جواب ملا۔
ان دنوں سلمان حیدر اور کئی دوسرے بلاگرز لاپتا تھے۔
رات کو عامر لیاقت نے پروگرام کیا اور کسی کے سمجھانے پر یا خود ہی عقل آنے پر زبان سے تو میرا نام نہیں لیا لیکن ایک گرافک میرے خلاف چلائی گئی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں عامر لیاقت سے ڈر گیا ہوں گا۔ چار دن بعد جنگ میں یہ کہانی چھپی،
بھائی جان کار خوب چلاتے ہیں، لیکن ٹرک چلانا مختلف کام ہے۔
ہوا یہ کہ تنگ گلی میں ایک ٹرک پھنس گیا۔ کسی نے مدد طلب کی۔
بھائی جان ڈرائیونگ سیٹ پر اعتماد سے بیٹھے۔ لیکن گئیر لگاتے ہی ٹرک قابو سے نکل گیا۔
پہلے امتیاز صاحب کے بنگلے کی دیوار گرائی، پھر بینا آنٹی کی گاڑی سے ٹکرایا، اویس بھائی کے گملے توڑے،
میں بھاگ کر جان نہ بچاتا تو کچلا جاتا۔ بڑی چیخ و پکار کے بعد ٹرک رکا۔
حضرت اترے تو میں نے ادب سے کہا، "بھائی جان! یہ کار نہیں، ٹرک ہے۔
ایسے نہیں چلے گا۔”
عامر لیاقت نے وہ کہانی بھی پڑھی ہوگی لیکن اس بار فون نہیں کیا۔ اس کے بجائے میری طرح فلیش فکشن لکھنے کی کوشش کی اور چلہ کہانی کا آغاز کیا۔ چلہ کہانی یعنی چالیس الفاظ کی کہانی۔ پہلی تحریر میرے ہی خلاف تھی،
ادھر حق گوئی پر پابندی لگی، ادھر کوفے کا ایک یزیدی سو لفظوں کی ہجو گوئی سے پھر نمودار ہوا اور ابن زیاد سے اپنی پرانی خدمات پر سر عام ہڈی کا مطالبہ کر ڈالا۔ ابن زیاد نے ہڈی پھینکی اور کہا، جیو اور جینے دو۔
اس کہانی میں اس نے میر ابراہیم الرحمان کو ابن زیاد قرار دیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ میں نے ان کے کہنے پر اس کے خلاف کہانیاں لکھی ہیں۔
عامر لیاقت مجھے پہلے دن ہی سے ناپسند تھا۔ پہلی بار اس کا نام اس وقت سنا جب میں کالج میں پڑھتا تھا۔ ایک دن کہیں ایم کیو ایم کا ماوتھ آرگن پرچم اخبار دیکھنے کا موقع ملا جس میں عامر لیاقت کا کالم بھی تھا۔ اس نے آصف زرداری کا نام لے کر گالیاں دی تھیں۔ میں حیران تھا کہ اخبار میں گالی کیسے چھپ سکتی ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہی اس اخبار کا ایڈیٹر تھا۔ اسی دن سے اس کے نام سے نفرت ہوگئی تھی۔
اس سے پہلا سامنا دبئی کے جیو اسٹیشن میں ہوا جہاں میں نیوزروم کے عملے کا رکن تھا اور وہ مذہبی ٹرانس مشن کرنے آتا تھا۔ اس نے پہلی بار رقت آمیز دعا وہیں کروائی تھی۔ مجھے وہ دن یاد ہے۔ میں پینل پر کھڑا دیکھ رہا تھا۔ اس نے دعا ختم کرکے بریک لیا۔ آنکھ میں آنسو ابھی موجود تھے لیکن کیمرا کٹ ہوتے ہی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس نے اپنے پروڈیوسر سے داد طلب لہجے میں پوچھا، کیسی پرفارمنس تھی؟
ایک سحری ٹرانس میشن بھی یاد ہے جب میں علی الصباح کا بلیٹن ریکارڈ کروارہا تھا۔ ان دنوں لائیو نہیں، ریکارڈڈ بلیٹنز چلتے تھے۔ فی میل اینکر واش روم گئی اور گھبرائی ہوئی آئی۔ میں نے پوچھا، کیا مسئلہ ہے۔ اس نے بتایا کہ عامر لیاقت اسے پریشان کررہا تھا۔ وہ واش روم جارہی تھی کہ اس کے پیچھے گیا اور خواتین کے واش روم میں گھس گیا۔ لڑکی نے بتایا کہ وہ نشے میں تھا۔
میں نے اپنی ساتھی لڑکیوں کے تحفظ کے لیے انتظامیہ کو مطلع کیا۔ اور بھی شکایات ہوں گی، مجھے نہیں معلوم۔ البتہ اس کے بعد جیو میں ہراسمنٹ کی سخت پالیسی بنائی گئی۔
اس نے دوسری شادی کافی بعد میں کی لیکن ارادہ پہلے سے تھا۔ جیو کی ایک اینکر کو شادی کی پیشکش کرچکا تھا اور وہ بظاہر راضی بھی تھی۔ یہ بات مجھے اس لڑکی کے ساتھی میل اینکر نے بتائی۔ بقول اس اینکر کے، لڑکی دوسری بیوی بننے کو اس لیے تیار تھی کہ عامر لیاقت کے پاس پیسہ بہت تھا اور وہ اس پیسے سے ساری دنیا گھومنا چاہتی تھی۔
پتا نہیں بعد میں کیا ہوا کہ وہ بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ اس لڑکی نےایک فضائی ادارے کے افسر سے شادی کی اور اینکرنگ چھوڑ کر بزنس شروع کردیا۔ اب وہ اتنے پیسے کماچکی ہے کہ دنیا گھومنے کے لیے اپنا طیارہ خرید سکتی ہے۔ کیا پتا خرید بھی چکی ہو۔
بہرحال عامر لیاقت کا دوسری شادی کا ارادہ تھا اور وہ اس نے کی۔ دو سال پہلے کی بات ہے کہ میں ٹوئیٹر پر کافی ایکٹو تھا اور میرے نام سے کئی جعلی اکاونٹ بھی چل رہے تھے۔ کسی جعلی اکاونٹ سے عامر لیاقت اور اس کی دوسری بیوی کے خلاف ٹوئیٹس ہوئے۔ میں نہیں جانتا تھا۔ کسی دوست نے اسکرین شاٹ مجھے بھیجے اور کہا کہ عامر لیاقت سخت غصے میں ہے۔ اس کا خیال ہے کہ آپ اسلام آباد میں ہیں اور وہ آپ کو نقصان پہنچانے کے لیے ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔
میرے پاس عامر لیاقت کا فون نمبر تھا۔ اسے کال کی اور کہا، جب میں پاکستان میں بیٹھ کر آپ پر تنقید کرسکتا تھا تو باہر بیٹھ کر کیا ڈروں گا۔ لیکن آپ کی بیوی سے میرا کوئی جھگڑا نہیں اور میں کسی خاتون کی تذلیل نہیں کرسکتا۔ کسی جعلی اکاونٹ کو میرے کھاتے میں نہ ڈالیں۔ اس نے فون پر الٹی سیدھی باتیں تو کیں لیکن پھر میرے خلاف ٹوئیٹس کا سلسلہ روک دیا۔
احمد نورانی نے 2020 میں جنرل پیزا باجوہ کی خبر بریک کی تو پاکستان میں ایجنسیوں نے ان کے ساتھ کئی دوسرے لوگوں کو بھی رگڑا۔ گل بخاری اور میں بھی زد میں آئے۔ اے آر وائی نے ہمارے خلاف رپورٹ نشر کی بلکہ ہیڈلائنز میں بِھی نام اور تصویر چلائی۔ عامر لیاقت تو تھا ہی ایجنسیوں کا ہرکارہ۔ اس نے بھی میرے خلاف ٹوئیٹ کیے اور ٹی وی چینل پر بیٹھ کر زہر اگلا۔ میں نے اس پر ردعمل نہیں دیا کیونکہ وہ نوکری کررہا تھا۔ اس کی مجبوری تھی۔
وہ گلیارہ تھا۔ نشے باز تھا۔ جنسی بھوک میں مبتلا تھا۔ ذپنی عدم توازن کا شکار تھا۔ شہرت کے لیے کچھ بھی کرسکتا تھا۔ مذہب اور حب الوطنی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا تھا۔ جھوٹے الزامات لگاتا تھا۔ اپنے بیوی بچوں تک کو نہیں بخشا۔
اب وہ مر گیا ہے۔ کمزور دل لوگ کہتے ہیں کہ مرنے والے کی برائی نہ کی جائے۔ برائی کیسی؟ سچ تو بتانا چاہیے۔ ایک گھٹیا آدمی سے جان چھوٹی۔ یہ وہی گھٹیا آدمی تھا جو ٹی وی پر بیٹھ کر قتل کے فتوے دیتا تھا۔ اپنی پوزیشن کو دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اس کے اکسانے پر کئی احمدیوں کو قتل کیا گیا تھا۔ یہ جرم کیوں معاف کیا جائے؟
مر گیا مردود، نہ فاتحہ نہ درود
یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: