اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اَدھورا پن||شبیر حسین امام

۔ ترقیاتی عمل سے زیادہ اِس کا ’ادھوراپن‘ دور کرنے کی ضرورت ہے اُور اِس سلسلے میں ادارہ جاتی فیصلوں پر نظرثانی کے لئے ضلعی سطح پر ایسی مشاورتی کمیٹیاں تشکیل دی جا سکتی ہیں جس میں مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہوں اُور اِن ’ٹیکنوکریٹس‘ کے ذریعے کسی بھی حکومتی ترقیاتی منصوبے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے

شبیر حسین امام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

شہر شہر اُور گاؤں گاؤں تعمیر و ترقی کا عمل کئی وجوہات کی بنا پر ’ادھورے پن‘ کا شکار ہے‘ جس میں ایک پہلو تو یہ ہے کہ قومی خزانے سے کی جانے والی تعمیروترقی میں مستقبل کے تقاضوں (آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات) کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اُور دوسرا پہلو جو اِس بھی زیادہ  تشویش کا باعث ہے کہ قومی خزانے سے خطیر رقومات خرچ کرنے کے باوجود بھی تعمیروترقی عوام کے مسائل حل کرنے کا باعث (وسیلہ) نہیں۔ ترقیاتی ادھورے پن سے متعلق اِس تصور کو 2 مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پہلی مثال پشاور شہر کے علاقے سیٹھی ٹاؤن (پہاڑی پورہ)‘ کی ہے جہاں کے رہائشی ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی موسم گرما کے آغاز ہی سے 3 طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ حسین چوک سے غالب سٹریٹ اُور اِس سے ملحقہ محلوں میں پینے کے پانی کی فراہمی گزشتہ کئی ہفتوں سے معطل ہے۔ پانی کب آئے گا‘ کسی کو کچھ نہیں معلوم اُور نہ ہی اُمید ہے لیکن پانی آئے نہ آئے آبنوشی کا بل باقاعدگی سے ادا کرنا ضروری ہے‘ جو ایک الگ موضوع ہے! سیٹھی ٹاؤن کی مذکورہ آبادی کے لئے ٹیوب ویل کی تنصیب متنازعہ قطعہئ اراضی میں کی گئی جس کا انتخاب ہی غلط تھا اُور یہی بنیادی غلطی پوری حکمت عملی کی ناکامی کا سبب بن گئی ہے کہ ٹیوب ویل کی اراضی ایک بااثر شخص کی ملکیت ہے اُور ٹیوب ویل لگنے کے بعد‘ مبینہ طور پر اُس نے اپنے بیٹے کو اِس بات کے لئے اہل سمجھا کہ وہ ’ٹیوب ویل آپریٹر‘ کی سرکاری ملازمت کرے لیکن جب اُس کا یہ مطالبہ پورا نہ ہوا تو اُس ٹیوب ویل بند کر دیا اُور سیٹھی ٹاؤن کے رہائشی پانی کی بوند بوند کو ترستے ہوئے ہر دن پانی راہ دیکھتے ہیں! سیٹھی ٹاؤن کا دوسرا مسئلہ ’نکاسیئ آب‘ کے نظام کی صفائی نہ ہونا اُور تیسرا مسئلہ کوڑا کرکٹ کی بروقت تلفی نہ ہونا ہے جس کے سبب مچھروں اُور مکھیوں کی اَفزائش (بہتات) ہے جبکہ مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں کا جاری عرصہ (سیزن) اہل علاقہ کے لئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ سب سے زیادہ ضروری اُور ٹیوب ویل کی واگزاری ہے‘ تاکہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے! عجیب و غریب صورتحال یہ ہے کہ اگر ’عوامی مفاد‘ کو دیکھا جائے تو ’ٹیوب ویل بند کرنا‘ قانوناً جرم ہے لیکن چونکہ یہاں معاملہ ایک بااثر شخص کا ہے‘ اِس لئے ادارے خاموش اُور عوام بلک رہے ہیں!

تعمیروترقی اُور عوام کو فراہم کی جانے والی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے منصوبوں میں پائے جانے والے ”اَدھورے پن“ کی بدترین دوسری مثال سیٹھی ٹاؤن سے 150 کلومیٹر دور ’ہری پور‘ میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں کے ”منگ“ نامی دیہی علاقے میں 200 طلبہ کے لئے ”سرکاری ہائی سکول“ 10 سال قبل تعمیر ہوا‘ جس کے بعد اراضی کے مالک بااثر زمیندار اور محکمہئ تعلیم کے درمیان مالی امور پر تنازعہ پیدا ہوا اُور مذکورہ عمارت تعمیر تو ہوئی لیکن دس سال سے فعال نہ ہو سکی! تصور کیا جا سکتا ہے کہ 10 سال کتنا طویل عرصہ ہوتا ہے جسے ضائع کرنے سے علاقے کے کس قدر تعلیمی حرج ہو چکا ہے اُور یہ حرج مسلسل جاری بھی ہے! محکمہ تعلیم نے عارضی طور پر کرائے کی عمارت میں تین کمروں پر مشتمل سکول قائم کر رکھا ہے جبکہ میلوں سفر کر کے دور دراز سکول جانے والے کتنے ہی بچے سفری مشکلات کے باعث تعلیم کو الوداع کہہ چکے ہیں!

سرکاری ریکارڈ کے مطابق ہری پور کے ’خان پور روڈ‘ کے کنارے آباد ’منگ‘ گاؤں میں سکول 1913ء میں تعمیر ہوا تھا‘ جس کی خستہ حال (پرانی) عمارت کو کی جگہ زیادہ گنجائش والی نئی عمارت تعمیر کی گئی۔ نئی عمارت تعمیر کرے کے لئے سال 2004ء میں اُس وقت کے محکمہئ تعلیم کے ضلعی نگران (حیدر زمان مرحوم) اُور مالک اراضی (ملک اعظم خان) کے درمیان زبانی کلامی معاہدہ ہوا جس کے بعد 2012 میں 86لاکھ روپے کی لاگت سے نئی عمارت تعمیر کی گئی اُور معاہدے کے تحت پرانی عمارت والی اراضی زمیندار کو منتقل کرنا تھا۔ جب نئی عمارت میں کلاسیں شروع ہونے والی تھیں تو زمیندار نے معاہدے کے مطابق جائیداد کے حقوق کی منتقلی کے لئے محکمے پر دباؤ ڈالا اُور جب حکام نے اراضی کی ملکیت کے ریکارڈ کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ پرانی عمارت کا ٹکڑا ہری پور ضلع کونسل کی ملکیت ہے اُور سرکاری اراضی زمیندار کے نام منتقل کرنے سے معذرت کر لی گئی چونکہ زمیندار بااثر تھا اُس نے ہر طرح کا دباؤ استعمال کیا اُور عدالت سے بھی رجوع کیا جہاں دوہزارچودہ میں سول عدالت نے محکمہ تعلیم کو حکم دیا کہ وہ زمیندار کو دس لاکھ روپے فی کنال کے حساب سے ادائیگی کرے یا پھر زمیندار سکول کی تعمیراتی لاگت ادا کرے۔ محکمے نے عدالت کو بتایا کہ سکول کی تعمیر پر مجموعی کو ایک کروڑ چودہ لاکھ روپے لاگت آئی ہے۔ محکمہ تعلیم نے بھی عدالت سے رجوع کیا اُور ہائی کورٹ نے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے دس لاکھ روپے فی کنال کی بجائے ’مارکیٹ ریٹ‘ یعنی دو لاکھ اَسی ہزار روپے فی کنال ادائیگی کا حکم دیا لیکن اِس پوری تگ و دو میں سکول کی نئی عمارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی اُور مقامی افراد کے مطالبے پر خیبرپختونخوا محکمہئ تعلیم نے ایک نیا سکول تعمیر کرنے کے لئے چار کروڑ بیاسی لاکھ روپے منظور کئے ہیں۔ اِس پوری کہانی سے ’منصوبہ بندی کا فقدان‘ کھل کر سامنے آتا ہے اُور یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ انتظامی عہدوں پر فائز ہونے والوں کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو کس قدر مالی نقصان جبکہ عوام کو کس قدر سنگین نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ ترقیاتی عمل سے زیادہ اِس کا ’ادھوراپن‘ دور کرنے کی ضرورت ہے اُور اِس سلسلے میں ادارہ جاتی فیصلوں پر نظرثانی کے لئے ضلعی سطح پر ایسی مشاورتی کمیٹیاں تشکیل دی جا سکتی ہیں جس میں مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہوں اُور اِن ’ٹیکنوکریٹس‘ کے ذریعے کسی بھی حکومتی ترقیاتی منصوبے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے جن میں بشمول لاگت‘ پائیداری‘ معیار‘ سماجی و ماحولیاتی اثرات اُور اِس کی راہ میں حائل ممکنہ قانونی رکاوٹوں کے بارے پہلے ہی سے سوچ بچار کر لیا جائے تو اِس سے حکومتی وسائل میں بچت اُور عوام کو فراہم کی جانے والی سہولیات کی فراہمی میں روانی ممکن و برقرار بنائی جا سکتی ہے۔

اگر نیت میں فتور نہیں‘ اگر خالصتاً قومی و عوامی مفادات ہی پیش نظر ہیں تو ترقیاتی عمل کو سیاسی و انتخابی مفادات و ترجیحات کی قید سے آزاد کرانا ہوگا‘ جس کا ایک امکان بلدیاتی اداروں کو زیادہ بااختیار بنانا بھی ہے اُور اِس سے بھی بامقصد و باسہولت تعمیروترقی جیسے اہداف باآسانی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ”اگر ہے جذبہئ تعمیر زندہ …… تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے!؟ (احمد ندیم قاسمی)“

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

شبیر حسین امام کی مزید تحریریں پڑھیے

(شبیر حسین امام سینئر صحافی ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: