مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

روہی کی تس کی خبر۔۔۔|| عثمان کریم بھٹہ

یار.. ! روتے، بلکتے، پیاس کی شدت سے باہر نکلی زبان لیے حسرت کی تصویر بنتے انسانوں کے مردہ چہرے دیکھنے کے بعد ان کو واقعی نیند آ جاتی ہوگی؟ یہ اپنے بچوں کو منرل واٹر پلاتے وقت ان سے نظریں ملا لیتے ہوں گے؟ ان کا کوئی لقمہ بھی نہیں اٹک جاتا ہوگا؟ ان کو ہچکیاں بھی نہیں آجاتی ہوں گی؟ ان کو ذرا سی شرم بھی نہیں آتی ہوگی..؟
عثمان کریم بھٹہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میلوں تک پھیلی "آسمان کے بَٹُھل” سے آتی تپش میں جلتی ریت پر گزرے اس ایک دن کے بعد پتہ نہیں کتنے دن گزر گئے، واش بیسن کی ٹونٹی کھولتے ہوئے پانی کو ضائع ہوتا دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے. جہانگیر مخلص کی انتہائے میزبانی میں بیتی روہی یاترا کے بعد آج دو مہینے گزر گئے ہیں لیکن ایک دن بھی ایسا نہیں جب شاور کھولتے ہوئے روہی باسیوں (روہیلوں) کی آنکھوں میں ٹھہر چکی تشنگی نے پانی کی قیمت کا احساس نہ دلایا ہو.
ایک ایسا شخص جو روہیلوں کے لئے کچھ کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو سوچنے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے کہ کبھی دامان میں داجل کینال کو بند کردینے والے، روہی کی پیاسی ریت کو جھلسانے والے اور تھل کو بے آب و گیاہ ویرانہ بنانے دینے والے وہ حکمران جن کے ہاتھوں میں اختیار ہے، طاقت ہے کیسے سکون کی نیند سو لیتے ہیں. ایک ایسے وقت میں جب جانور اپنے پیاسے سوکھے ہونٹ ریت پر رکھ کر جان دیتے ہوئے عظمتِ انسانی کی میت بن جاتے ہیں اس وقت یہ کیسے اپنے ائیر کنڈیشنڈ ڈرائنگ روم کروفر کے ساتھ پیسہ کمانے کی نئی ڈیلیں کر لیتے ہیں.
یار.. ! روتے، بلکتے، پیاس کی شدت سے باہر نکلی زبان لیے حسرت کی تصویر بنتے انسانوں کے مردہ چہرے دیکھنے کے بعد ان کو واقعی نیند آ جاتی ہوگی؟ یہ اپنے بچوں کو منرل واٹر پلاتے وقت ان سے نظریں ملا لیتے ہوں گے؟ ان کا کوئی لقمہ بھی نہیں اٹک جاتا ہوگا؟ ان کو ہچکیاں بھی نہیں آجاتی ہوں گی؟ ان کو ذرا سی شرم بھی نہیں آتی ہوگی..؟
بچے پیاس سے مر رہے ہیں لیکن امداد کو کوئی نہیں پہنچا. روہیلوں کی پیاس سے بجھتی ہر آنکھ سامنے آنے والے کسی بھی شخص کو ایسے دیکھتی ہے
"جیویں کوئی کربل دے وچ سکینہ
فرات والی نہر توں امدا.. عباس ڈیکھے”
May be an image of 2 people, people sitting and outdoors
کہاں گیا خسرو بختیار، طارق بشیر چیمہ، چوہدری منیر اور احمد محمود..؟ سب اکٹھے ہیں اسلام آباد میں لگی لوٹ سیل میں اپنے اپنے حصے کے لئے لڑتے. کوئی نہیں آیا. کوئی آئے گا بھی نہیں یہی سوچ کر کراچی سے ایک ماں چھاگل اٹھائے نکلی ہے کہ ذرا پل بھر کو پیاس ریت کے لب بھیگ جائیں گے. اماں عابدہ بتول ایسی ماں جو سکینہ کی غلام ہونے کا مطلب سمجھاتی ہے.. جس کو پیاس کے معنی معلوم ہیں… صحافت کو ایمان بنانے، سمجھنے اور کر دکھانے والے شوہر نذیر لغاری کی تربیت ہی تو ہے کہ سوا نیزے پر آگ اُگلتے مئی کے سورج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پانی سے بھری ٹینکیاں لے کر خود روہی کے جہنم کو بجھانے نکلی ہوئی ہے. میں جتنا بھی سلام پیش کروں کم ہے. وسوں خود خراج دے گی ان ہستیوں کو جو داد و تحسین سے کب کے بے نیاز ہو چکے.
سب سے پہلے جام اظہر مراد نے روہی کی تس کی خبر دی. روہی اتنی بدنصیب ہے کہ جیسی بھی قیامت ٹوٹ پڑے نہ تو کبھی آسمان کو ہلتے دیکھا ہے اور نہ ہی ایوان کو. جاگے تو بس وسیبی جاگے، میرا چیتا لیڈر راشد عزیز بھٹہ ہیڈ قاسم والا پر پہنچا اور پانی کی غیرمنصفانہ تقسیم اور انتظامی نا اہلی بلکہ مجرمانہ غفلت کے ثبوت تصویری شکل میں پیش کیے. راشد عزیز بھی غضب کا آشفتہ سر ہے، پچھلے دنوں ایک انڈین فلم آئی تھی جس میں لاہور کا منظر دکھاتے ہوئے سرائیکی تحریک کا ایک بینر دکھایا گیا تھا. اس بینر پر منجانب راشد عزیز بھٹہ لکھا تھا. میرے ایک دوست نے کہا یار بھٹے کو تو مفت میں پیکج مل گیا. میں نے کہا نہیں جانی کاش تو نے اس بندے کو کالج دور سے تحریک کے لئے اپنا خون دیتے، طارق چیمے کی طرف سے ملنے والی جان کی دھمکیوں کے باوجود اس کے گھر جا کر اس کے خلاف احتجاج کرتے اور اس کے غنڈوں کا سامنا کرتے دیکھا ہوتا تو تجھے معلوم ہوتا کہ تحریکیوں کو کوئی مقام مفت میں نہیں ملا کرتا.
اربابِ اختیار سے مایوس رانا فراز نون کو پریس کانفرنسیں کرتے، اپنی پارٹی کے مقامی ورکروں کو روہی بھیجتے اور سرائیکی پارٹی کے اعجاز الرحمٰن کو پانی کے ٹینکر پہنچاتے دیکھتا ہوں، ظہور دھریجہ، مجاہد جتوئی جیسے بزرگوں کو روہیلے کی خاطر چیخ و پکار کرتے ہوئے سنتا ہوں اور اپنے وسیب کے شاعروں کو روہی کے دکھ روتے ہوئے پڑھتا ہوں تو فخر ہوتا ہے کہ روہی جائے اکیلے نہیں ہیں. شاہنواز مشوری کہتے ہیں کہ کمزور کے پاس آخر میں دو حل رہ جاتے ہیں یا تو وہ گالیاں دیتا ہے یا پھر دعائیں مانگتا ہے. اس بار وسیبیوں نے تیسرا کام کر دیا ہے وہ خود اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اوک میں پانی بھرے پیاسی روہی کے لب بھگونے کہ شاید مظلوموں کی چونچ سے قطرہ قطرہ ٹپکتے پانی کو دیکھ کر ابرِ کرم کو بھی رحم آ ہی جائے

عثمان کریم بھٹہ دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

%d bloggers like this: