دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران خان اور ٹی وی چینلوں کی ریٹنگ|| نصرت جاوید

ہمارے کسی ایک چینل نے بھی تاہم انکار کی جرأت نہیں دکھائی۔ریٹنگز کے لالچ میں نوبجے کے خبرنامے کے بجائے فواد چودھری صاحب کے متعارف کردہ بندوبست کی بدولت آئی فیڈ کو دکھاتے ہوئے ’جو دے اس کا بھلا-جو نہ دے اس کا بھی بھلا‘ والی جی حضوری دکھانے کو مجبور ہوگئے۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران صاحب کی یہ خوبی تو ان کے بدترین ناقد کو بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ وہ ٹی وی اداروں کو ریٹنگز دیتے ہیں۔اپنی اس خوبی کو انہیں کمال مہارت سے استعمال کرنا بھی آتا ہے۔اپنے تئیں پھنے خان اور ’مارکیٹ میں صف اوّل‘ ہونے کی بڑھکیں لگاتے صحافتی ادارے بھی اس کی وجہ سے ان کے تھلے لگے رہتے ہیں۔ کسی بھی صحافتی ادارے کا بنیادی مان یہ ہوتا ہے کہ اس کے لئے کام کرنے والے پیشہ ور ہی یہ طے کرتے ہیں کہ ’خبر‘ کیا ہے۔اس شے کو اخبار کے کون سے صفحے پر کتنی جگہ دینی ہے اور ٹی وی کے خبرنامے میں وہ کتنا وقت حاصل کرنے کے قابل ہے۔ 2011ء کے اکتوبر میں لاہور کے مینارِ پاکستان میں ہوئے جلسے کے بعد مگر خان صاحب نے ’مدیروں‘ کی نام نہاد ’خودمختاری‘ کے پرخچے اڑانا شروع کردیے۔ اس سے قبل وہ اپنی ’سٹارویلیو‘ بنانے کے لئے ’چھوٹے‘ ٹیلی وژن چینل کے نسبتاََ جونیئر اینکر خواتین وحضرات کے پروگراموں میں شرکت کے لئے بھی ہمہ وقت میسر رہا کرتے تھے۔ 2011ء کے بعد مگر وہ ’سٹار‘ بن گئے۔ ٹی وی سکرینوں پر کھڑکی توڑ رش لینے کی شہرت والے اینکر خواتین وحضرات ان کے ساتھ ون آن ون انٹرویو کے لئے بے چین رہناشروع ہوگئے۔

اتفاقاً عمران خان صاحب کے ساتھ میری دیرینہ شناسائی تھی۔ان کے چند عزیز ترین دوست میرے بھی قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ میں 2007ء میں پرنٹ سے الیکٹرانک صحافت کی جانب گیا تو انہیں اپنے شو میں لینے کی جسارت مگر اسی وقت کی جب خالصتاً پیشہ وارانہ وجوہات کی بنیاد پر ان کا تبصرہ درکار تھا۔اس ضمن میں ان سے ٹیلی فون پر رابطہ بھی ازخود کرتا۔ اپنے سٹاف کو زحمت نہ دیتا۔وہ بالآخر ریٹنگز کو یقینی بنانے والے ’سٹار‘ بن گئے تب بھی یہ روش جاری رکھی۔ دریں اثناء چند ماہ کے لئے 2010ء کے دوران میں ایک اور ٹی وی نیٹ ورک چلاگیا۔اس کا نام لینا ضروری نہیں۔اس کے مالک اور انتظامیہ ریٹنگز کو میرے سابقہ نیٹ ورک کے مقابلے میں ضرورت سے زیاد ہ اہمیت دیتے تھے۔بتدریج مجھ سے ’دوستانہ‘ تقاضہ شروع ہوگیا کہ میں اپنے پروگرام میں عمران خان صاحب کو تواتر سے مدعو کیا کروں۔ میرے شو کا مزاج یا Formatاگرچہ دیگر ٹاک شوز سے مختلف تھا۔ قدآور سیاست دانوں کو مدعو کرنے کے بجائے میری خواہش ہوتی کہ جن موضوعات کو میں پیشہ وارانہ اعتبار سے اہم ترین سمجھتا ہوں انہیں اپنے ساتھی مشتاق منہاس کے ساتھ زیر بحث لایا جائے۔ہمارے مابین ہوئی بحث میں عام ناظرین بھی لائیو کال کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کریں۔ کچھ دنوں کی مزاحمت کے بعد مگر ’نوکر کیہ تے نخرہ کیہ‘ والی حقیقت کے ہاتھوں مجبور ہوگیا۔

جس روز عمران خان صاحب میرے پروگرام میں آئے اس کے دوسرے روز لاہور میں ایک ضمنی انتخاب ہونا تھا۔مذکور ہ انتخاب میں تحریک انصا ف کے نامزد کردہ امیدوار بھی حصہ لے رہے تھے۔ اخلاقی طورپر تحریک انصاف کے چیئرمین کو مجھے اس انتخاب سے ایک روز قبل لائیو شو میں مدعو نہیں کرنا چاہیے تھا۔لالچ مگر بری بلا ہوتا ہے۔ بہرحال عمران خان صاحب پر خلوص فراخ دلی سے میرے پروگرام میں شریک ہونے کے لئے تشریف لائے۔ پروگرام شروع ہونے سے قبل مائیک وغیرہ لگواتے ہوئے انہوں نے چند مشہور ٹی وی اینکروں کے نام لئے اور نہایت حقارت سے مجھے آگاہ کیا کہ ان کی ریٹنگز گررہی ہے۔مجھے بہت حیرت ہوئی کیونکہ جو نام انہوں نے لئے ان میں ایسے دوست بھی شامل تھے جو دل وجان سے عمران خان صاحب کے گرویدہ شمار ہوتے تھے۔ اینکروں کی ’اوقات‘بتانے کے بعد انہوں نے یہ فرمائش بھی کردی کہ ان کے ساتھ گفتگو کے دوران عام ناظرین کے لائیو کال کے ذریعے سوالات نہ لئے جائیں۔میں اس ضمن میں بھی بکری ہوگیا۔ مذکورہ پروگرام کے دوران جو وقفے آئے ان میں اپنا موبائل دیکھتا تومیرے ادارے کی انتظامیہ کے سرکردہ افراد کی جانب سے پرجوش مداح سرائی والے پیغامات موصول ہورہے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہفتے کے اختتام پر جو ریٹنگز آئیں اس میں عمران خان صاحب کے انٹرویو والا پروگرام چوتھے نمبر پر تھا۔قدآور شخصیات کے بغیر ہوئے میرے دیگر شوز بھی چوتھے یا پانچویں نمبر پر منجمدرہا کرتے تھے۔ ذاتی طورپر میں اس کے بارے میں ہرگز فکر مند نہیں رہا۔میری رائے میں ریٹنگز سے کہیں زیادہ اہم ناظرین کی وہ تعداد ہوتی ہے جو ہر صورت آپ کو دیکھنا اور سننا چاہتی ہے۔پیشہ وارانہ زبان میں اسے "Niche Audience”کہا جاتا ہے۔آپ کا وفادار قاری یا ناظر۔

میرے تجربے نے البتہ ایک بات واضح کردی کہ عمران خان صاحب اپنے تئیں رینٹگز کو یقینی بنانے والے حتمی سٹار نہیں ہیں۔وہ خود بھی اس حقیقت سے لاعلم نہیں تھے۔اسی باعث 2014ء کا دھرنا شروع ہونے سے قبل ٹی وی اداروں کو اشتہاری ایجنسیوں کے ذریعے یقین دلایا گیا کہ وہ جب بھی اپنے ریگولر پروگرام کے دوران لائیو کٹ کے ذریعے عمران خان صاحب کا ڈی چوک میں خطاب لائیو دکھائیں گے تو انہیں اشتہارات کھودینے کا خمیازہ بھگتنا نہیں ہوگا۔تمام چینلوں نے مذکورہ فرمائش کی تعمیل کی۔یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ ’فرمائش‘ سے زیادہ یہ کسی اور جانب سے آیا’حکم‘ بھی تھا۔مذکورہ حکم کی تعمیل اس حد تک ہوئی کہ عمران خان صاحب کے لائیو خطاب کے دوران کیمرہ فقط سٹیج تک مرکوز رکھا جاتا۔پنڈال میں کتنے لوگ موجود ہیں یہ دکھانے کی کسی چینل کو اجازت نصیب نہ ہوئی۔ 2014ء کے دھرنے کی کوریج کو جس انداز میں Manageکیا گیا اس کے بعد عمران خان صاحب کا بالآخر ٹی وی سکرین کا حتمی سٹار بن جانا یقینی تھا۔ وہ خود بھی اپنی ’سٹار ویلیو‘ بڑھانے یا برقرار کھنے پر کامل توجہ دیتے ہیں۔کیمرہ انہیں کس زاویے سے کتنی لائٹ کے ساتھ دکھائے اس تکنیکی باریکی کو پیشہ ور ڈائریکٹروں کی طرح سمجھتے ہیں۔

’امریکی سازش‘ کی وجہ سے وزارت عظمیٰ کھودینے کے بعد وہ اب وطن عزیز پر مسلط ’میر جعفروں‘ کے خلاف تحریک کا آغاز کرچکے ہیں۔ان کی جگہ لینے والے شہباز شریف ان کے برعکس گھبرائے نظر آرہے ہیں۔’ان‘ کے بھی ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں جن کے جلال کے روبرو ’جماندروانقلابی‘ بھی مفلوج محسوس کیا کرتے تھے۔فقط روایتی میڈیا پر تکیہ کرنے کے بجائے عمران خان صاحب لوگوں سے رابطہ استوار کرنے کے لئے ایجاد ہوئے تمام تر ذرائع کو بھی پیشہ ورلگن سے استعمال کررہے ہیں۔اقتدار سے فراغت کے بعد انہوں نے جو جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے کہ وہ ان کے مخالفین وناقدین کو حواس باختہ بنائے ہوئے ہے۔ وطن عزیز کے نامور صحافیوں کی اکثریت کو تحریک انصاف سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے کئی برس قبل ہی ’’لفافہ‘‘ اور ’’ٹوکرا‘‘ ثابت کرچکی ہے۔اپنی ساکھ بچانے کو لہٰذا روایتی ٹیلی وژن مجبور ہے کہ ان کے جلسوں اور عوام سے گفتگو کی بھرپور کوریج یقینی بنائے۔ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان صاحب نے بتدریج یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ فقط اسی ٹی وی نیٹ ورک کو Eye Ballsملتے ہیں جو انہیں دکھارہا ہو۔یہ ثابت کرلینے کے بعد منگل کی رات سے عمران خان صاحب اب ایک قدم اور آگے بڑھ گئے ہیں۔

عمران حکومت کے دوران ’ذہن سازی‘ کے مدارالمہام رہے فواد چودھری صاحب نے اپنے آبائی شہر جہلم میں اس روز عوامی اجتماع کا اہتمام کیا تھا۔سابق وزیر اعظم نے اس سے خطاب کرنا تھا۔متوقع خطاب کی لائیو کوریج کے لئے تمام چینلوں کی ڈی ایس این جیز مگر جب جہلم پہنچیں تو انہیں جلسہ گاہ کے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیا گیا۔چودھری صاحب نے بعدازاں ایک آڈیو پروگرام کے ذریعے آگاہ کیا کہ ہمارے ہاں ’’مارکیٹ میں صف اوّل‘‘ ہونے کے دعوے دار ٹی وی نیٹ ورک کے کیمرے اور لائٹنگ کا انتظام بھی اس قابل نہیں کہ تحریک انصاف کے زیر اہتمام ہوئے جلسوں کی کماحقہ کوریج کرسکے۔چودھری صاحب نے لہٰذا جدید ترین آلات کے ذریعے عوامی اجتماع کی کوریج کرنے والے ایک نجی ادارے سے رجوع کیا۔اس کی ٹیم ہی جلسے کی کوریج کرے گی۔یہ کوریج لائیو فیڈ کے ذریعے تمام چینلوں کو فراہم کردی جائے گی۔ان کی مرضی استعمال کریں یا نہیں۔

ہمارے کسی ایک چینل نے بھی تاہم انکار کی جرأت نہیں دکھائی۔ریٹنگز کے لالچ میں نوبجے کے خبرنامے کے بجائے فواد چودھری صاحب کے متعارف کردہ بندوبست کی بدولت آئی فیڈ کو دکھاتے ہوئے ’جو دے اس کا بھلا-جو نہ دے اس کا بھی بھلا‘ والی جی حضوری دکھانے کو مجبور ہوگئے۔منگل کی شام دکھائی غلامانہ جی حضوری کے باوجود ان چینلوں کی سکرینوں پر چھائے ’سٹارز‘ سے گفتگو کریں تو وہ ’صحافت کے اصول‘ سینہ پھلاتے ہوئے بیان کرنا شروع ہوجائیں گے۔گفتار کے ایسے غازیوں ہی سے شیکسپیئر یہ سوال کرنے کو مجبور ہوا تھا۔”Where is thy blush?” (سادہ ترجمہ:تمہارے چہرے سے شرم کی سرخی کہاں کھوگئی؟)

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author