اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جان اور روح||سجاد جہانیہ

خوبصورتی میں جنجر دوسرے نمبر پر تھا. اس وجہ سے بھی تیسرا "مَیلا" کہلایا. ہارنلڈ کو اس کی خوبصورتی لے ڈوبی اور اسے کوئی اٹھا لے گیا. اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے جس نے ڈالی بری نظر ڈالی اس شام جنجر بہت اداس تھا. بھائی کو کھو دینے کا دکھ اس کے چہرے پہ لکھا تھا. بہرحال اب یہ دو رہ گئے. واہ مکھڑا حیدر باندی دا جیویں چندر چمکدے چاندی داتقسیم ہندوستان سے آس پاس کا ایک واقعہ استاد صغیر احمد سناتے ہیں۔ نواب ممتاز چترالی تھے جن کی بوہڑ دروازے کے باہر بے تحاشا جائیداد تھی۔ وہ بازار حسن کی طوائف پکھراج بائی پر عاشق ہو گئے۔ عاشق بھی ایسے کہ اپنی زندگی اور جائیداد، سب پکھراج بائی کے لئے وقف کر دیا۔ کوٹھیاں، مکان، موٹریں اور دیگر تعیشات ’نواب صاحب کی نوازشوں کے طفیل پکھراج بائی کے در کی لونڈیاں ہوئیں۔ ایک دن پکھراج بائی نے فرمائش کی کہ اگر مجھے بمبئی لے چلو تو میری گائیکی فلم کے راستے چہار وانگ عالم میں چھا جائے گی۔نواب صاحب کی جائیداد تب آخری دموں پر تھی۔ اس کا شاید پکھراج بائی کو بھی احساس تھا۔ بہرحال نواب صاحب آخری جمع پونجی لے کر پکھراج بائی کو بمبئی لے گئے۔ وہاں اس نے تیر نظر سے ایک اور موٹی اسامی گھائل کرلی۔ نواب صاحب دل برداشتہ ہو کر ملتان لوٹ آئے۔ سب کچھ فروخت ہو چکا تھا۔ یہاں ایک معروف بس کمپنی ہوا کرتی تھی مسلم وہاڑی اینڈ وہنی وال بس سروس۔ وہ نواب صاحب کے آشنا تھے۔ ان سے ایک بس لی اور نواب صاحب بس ڈرائیور ہو گئے۔ بس سروس والوں نے کہا کہ نواب صاحب آپ یہ بس رکھیں اور اس کی آمدن بھی اپنے تصرف میں لایا کریں ’یہ آپ کی ہوئی مگر نواب صاحب کی غیرت نے گوارا نہ کیا۔ انہوں نے بقیہ عمر بس چلائی۔ اس وقت ڈرائیور کی جو بھی مروجہ تنخواہ تھی، وہ اپنے پاس رکھتے، باقی آمدن مالکان کو پہنچاتے۔ کاخ (محل) سے خاک تک کے سفر کی ایسی داستانیں صرف ملتان کے بازار حسن ہی نہیں بلکہ برصغیر کے سبھی بازاروں میں تحریر ہوئیں۔ ایک زمانے میں جو بڑے ٹھسے سے آ کر گانا سنا کرتے تھے، وہ سب کچھ لٹانے کے بعد اسی کوٹھے پر گاہکوں کو پان پیش کرتے دیکھے گئے۔بازار حسن کی پہلی اینٹ تب رکھی گئی ہوگی جب اس زمین پر کسی پہلی عورت نے پیٹ میں لگی بھوک کی آگ بجھانے کے لئے چند لقمے حاصل کرنے کو اپنا ناز نخرہ اور جسم بیچا ہوگا۔ خریداریقیناً اس قدر صاحب حیثیت ضرورہوگا کہ اپنی اور اپنے متعلقین کی بھوک مٹانے کے بعد اس کے پاس چند نوالے بچ رہے ہوں گے ’جن سے اس نے کچھ دیر کو ایک نسوانی جسم خرید لیا ہوگا۔ یہ خرید و فروخت آج بھی جاری ہے۔ بیچنے والے شاید آج بھی مجبور ہیں۔اگر کچھ فی صد مجبور نہیں تو وہ تعیشات کی ہوس کی ہاتھوں مجبور ضرور ہیں جبکہ خریدنے والے کے پاس اپنی بنیادی ضروریات سے زائد ہے اور وہ اپنی حس لامسہ، حس باصرہ اور حس سامعہ کو لذت اندوزکرنے کی خواہش پوری کرنے کووسائل رکھتا ہے۔ سو تجارت جاری و ساری ہے۔ اچھا کہیں یا برا ’کسی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ حقیقت یہی ہے کہ حسن کے بازار انسانی معاشرت کا ناگزیرحصہ ہیں اور روئے زمین کا قدیم ترین پیشہ۔طوائف کا شباب ڈھل جائے تو وہ بازار کی سیر دیکھنے والوں کے لئے اہمیت کھو بیٹھتی ہے، ایسے ہی ملتان کا بازار حسن بھی فقط گئے وقتوں کا ذکر ہو کر رہ گیا ہے۔حرم دروازہ وہیں ہے، اس سے پھوٹنے والی نشاط روڈ بھی اور اس کی ذیلی سڑک گل روڈ بھی مگر روشنیاں اور رنگ روٹھ گئے ہیں۔ اب وہاں تاریک شام اترتی ہے۔ ویران ’پھیکی اور وحشت زدہ۔ گل روڈ پر بیابانی برستی ہے۔ کہیں کہیں مدقوق، بڈھے چہرے دکانوں پر بیٹھے یا اپنے ناتواں پیکر گھسیٹتے نظر آتے ہیں، جن کی آنکھوں میں اجڑے بازار کی خاک اڑتی ہے۔ گویا منیر نیازی کا مصرع ہوں ”آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول“گل روڈ پر دکانوں کی نوعیت بدل چکی۔ عمارتوں نے بھی پیرہن بدلا۔ بیچ میں کہیں کوئی ایک آدھ عمارت رہ گئی ہے کہ جس کی پیشانی پر حسرت زدہ کھڑکیاں اور محرابی دریچے خستگی کی تصویر بنے موجود ہیں۔ وہ دریچے جہاں سے کبھی روشنیاں لپکتی تھیں اور سجے سنورے چہرے طلوع ہوتے تھے۔ طبلے کی تھاپ اور ہارمونیم، سارنگی کے سر سنائی دیتے تھے۔ اب گل روڈ پرحسرت مزار کی سی پژمردگی اوڑھ کر شام اترتی ہے۔ اب کسی آٹریا (بالاخانہ، چھت پر بنا کمرہ، چوبارہ) سے بھیرویں میں ترتیب دیے داد راکی یہ صداسنائی نہیں دیتی۔ہمری اٹریا پہ آؤ سنوریا دیکھا دیکھی بلم ہوئی جائےاب کوئی اختری بائی بھی تو پیدا نہیں ہوتی۔ اقبال بانو، مائی دارو، بدرو ملنگ والی، نسیم اختر، مسرت بانو، بدرو ملتانی، ثریا ملتانیکر کا بدل بھی تو کوئی نہیں آیا۔”اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے“

سجاد جہانیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مَیلا مرگیا، جنجر اداس ہے، بہت زیادہ اداس. سر ڈالے پڑا ہے. نہ بولتا ہے، نہ بلانے پر جواب دیتا ہے اور نہ کچھ کھا پی رہا ہے. پتہ نہیں آپ کو مَیلا، جنجر، ہارنلڈ یاد بھی ہیں کہ نہیں. چار مہینے پہلے ان پر ایک کالم لکھا تھا "ایک بِلے کی کہانی” کے عنوان تلے. کہاں یاد ہونگے بھلا. جس ملک میں نہرو کی دھوتیوں سے زیادہ وزیراعظم بدلتے ہوں اور پے در پے حوادث و واقعات کا سلسلہ جاری رہتا ہو، وہاں بلونگڑوں کو کون یاد رکھتا ہے بھلا. لبِ راہ اور بر سینہِ سڑک ابن و بناتِ آدم مارے جاتے ہیں اور چند دن بعد کسی کو یاد بھی نہیں رہتا، ایسے میں بلونگڑوں کی کیا اوقات اور کیا حیثیت.
کچھ دنوں سے مَیلے کا ڈیرہ عقبی لان میں مغربی دیوار کے ساتھ ساتھ بنی کیاری میں تھا. اس جگہ جہاں دیوار سے آگے کو تصرف کرتی چھتنار بیل مستقل سایہ کئے رہتی ہے. وگرنہ اپنی زندگی کے دو گرم اور ایک سرد موسم مَیلے نے پچھلے برآمدے میں سوئچ بورڈ کے نیچے والی نکڑ میں گزارے. برآمدہ اونچی کرسی پر بنا ہے چنانچہ باغیچے سے دو سیڑھیاں چڑھ کر برآمدے کا فرش آتا ہے. پچھلے چند دنوں سے کمزوری، نقاہت اور اس کے پچھلے دھڑ کا مفلوج پن اس قدر بڑھ گیا تھا کہ وہ سیڑھیاں نہ چڑھ پاتا. اس کا دودھ کا پیالہ اور پانی کا برتن وہیں کیاری میں اس کے قریب رکھ دیا گیا تھا. کل سے تو اس کی نقاہت کا یہ عالم تھا کہ قریب پڑا دودھ بھی نہ پی سکتا تھا. یہی وجہ ہے آج جب لال خان مالی نے بتایا کہ مَیلا کیاری میں مرا پڑا تھا، میں نے اٹھا کے اسے باہر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا ہے تو ہمیں کچھ زیادہ حیرت نہ ہوئی. زہرا کی آنکھیں البتہ نم ہوئیں. مَیلا اور جنجر اس کی واک کے پارٹنر تھے.
گھر کے مشرقی لان میں رات کو زہرا شمالاً جنوباً واک کیا کرتی ہے. وہ دونوں اس کے ساتھ ساتھ واک کرتے تھے. کبھی بھوکے ہوتے تو راستے میں آ کے بیٹھ جاتے اور جب تک انہیں کچھ کھانے کو مل نہ جاتا، راستہ نہ چھوڑتے. یہ سطریں لکھی جارہی ہیں تو مَیلا اسی ڈھیر پر پڑا ہے جہاں سے وہ اپنے لئے رزق تلاش کیا کرتا تھا. کل صبح جب سینٹری ورکر اسے اٹھا کر لے جائیں گے تو ان کے وہم و گماں میں بھی نہ ہوگا کہ وہ ایک چھوٹی سی کہانی کوڑے کے ٹرک میں لئے جاتے ہیں. وہ کہانی جس کا ایک کردار جنجر اکیلا رہ گیا ہے. جنجر اپنی معصومیت اور بھولی بھالی شکل کی وجہ سے سب کا پیار لیتا تھا، مَیلے کو کوئی لفٹ نہ ملتی. چنانچہ جب جب جنجر کو پکارا جاتا اور وہ میاؤں میاؤں کرتا برآمدے میں آتا تو مَیلا بھاگ کر اس سے آن چپکتا اوراسے دھکیلتا ہوا پرے کر کے خود کو پکارنے والے کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتا مگر اسے گھرکیاں ہی ملتیں. ایک دن کہیں باہر سے پِٹ کر آیا، کمر پر سے کھال ادھڑی ہوئی تھی. ایک موٹے منہ والا ظالم سا بلا پھرتا ہے، وہی ان کی پٹائی کیا کرتا ہے. اس کی کھال کے وہ اْدھڑے بال مرتے دم تک دوبارہ نہ آسکے.
 ابھی پندرہ بیس روز قبل مَیلے نے پھر یا تو کہیں سے مار کھائی یا چوٹ لگوا کے آیا. اس کی پچھلی ٹانگیں اس کا بوجھ نہ اٹھا پاتیں. چلنے کی کوشش میں لڑکھڑا کر اس کا پچھلا دھڑ زمین پر آ رہتا. بس یہی معذوری اس کی جان لے گئی. تاہم اس بیماری میں اس نے توجہ لی اور خدمت بھی خوب کروائی. تاہم یہ پیار نہ تھا بلکہ جذبہ ترحم کے زیرِ اثر تھا. یاد دہانی کو پسِ منظر تازہ کر لیجئے. جنجر اور ہارنلڈ بھائی تھے. ان کی ماں چھوڑ کے چلی گئی تو ایک دن یہ گرے رنگ والا بھی کہیں سے پھرتا پھراتا آگیا. تھا تو یہ بھی ہارنلڈ اور جنجر کا ہم عمر مگر کسی قدر غاصب. جنجر اور ہارنلڈ کو جو کھانے کے لیے دیا جاتا، یہ جھپٹ کر قبضہ جما لیتا. پہلے خود سیر ہوتا پھر کسی اور کو قریب پھٹکنے دیتا. فرینک ایسا کہ آپ چائے کا کپ لے کر لان میں بیٹھے ہیں تو لپک کر آپ کی گود میں گھسنے کی کوشش کرے گا کہ جو بھی کھاتے پیتے ہو مجھے بھی حصہ دو. اس کی انہی عادات کی وجہ سے بچوں نے اسے مَیلے کا خطاب دیا. عادات و حرکات جو مَیلی تھیں. بہر حال رفتہ رفتہ یہ تینوں ہماری روزمرہ کا حصہ بن گئے. ہارنلڈ بہت کیوٹ تھا، سفید دودھ ایسی رنگت اور نیلی آنکھیں.
خوبصورتی میں جنجر دوسرے نمبر پر تھا. اس وجہ سے بھی تیسرا "مَیلا” کہلایا. ہارنلڈ کو اس کی خوبصورتی لے ڈوبی اور اسے کوئی اٹھا لے گیا. اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے جس نے ڈالی بری نظر ڈالی اس شام جنجر بہت اداس تھا. بھائی کو کھو دینے کا دکھ اس کے چہرے پہ لکھا تھا. بہرحال اب یہ دو رہ گئے. اس روز سے جنجر بہت سنجیدہ رہنے لگا. اِک صوفیانہ سی بے نیازی اس کے انداز و اطوار سے جھلکتی تھی. جنجر کو نارمل ہونے میں بہت وقت لگا، پھر دھیرے دھیرے اس کی مَیلے سے دوستی ہوگئی. ہوتا یہ ہے کہ شام کو دودھ کا پیالہ جو بھرا ہے تو جنجر آکے پینے لگا، اتنے میں مَیلا آگیا اور پیالے میں منہ دے دیا. جنجر صلح پسندی سے دودھ چھوڑ کر ایک طرف ہوگیا ہے. میلے نے پیٹ بھر لیا تو پھر جنجر نے بچا کھچا پی لیا. کوئی بوٹی ڈالی ہے تو مَیلا دور سے بھاگتا آیا ہے اور جھپٹ کر جنجر کے آگے سے بوٹی اٹھا لے گیا. مجال ہے جنجر کبھی اس کے پیچھے لپکے. دونوں اکٹھے گھومتے.
 حتیٰ کہ موٹے منہ والے بلے سے مار بھی اکٹھے کھاتے. اب میلا بھی مر گیا ہے اور جنجر نے پھر سے سر ڈال دیا ہے. چپ چاپ برآمدے میں پڑا ہے. مجھے لگتا ہے جنجر میں جان نہیں، روح ہے. اشفاق احمد صاحب سے جان اور روح کا فرق پوچھا گیا تھا. انہوں نے کہا دو بکرے بندھے ہوں، آپ ان میں سے ایک کو ذبح کردیں، تھوڑی دیر بعد دوسرا مزے سے گھاس کھا رہا ہوگا. یہ جان ہے. دو انسانوں میں سے ایک کو دوسرے کے سامنے مار دیں، بچ جانے والا کچھ کھا پی نہ سکے گا. یہ روح ہے. جنجر بھی کچھ نہیں کھا رہا، نہ بات کا جواب دیتا ہے. نہ بولتا ہے.

 

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

سجاد جہانیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: