اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بس کرو یار‘ کوئی نئی بات کرو||ظہور دھریجہ

ملائشیا میں ہری بار یعنی خوشی کا دن‘ انڈونیشیا میں ’’رنگ پائو‘‘ یعنی بالاں دی عید‘عرب ملکوں میں عید پر میٹھے پکوان شوق سے پکائے جاتے ہیں اور عیدڈش کو ’’کلائجہ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید ایک چھوٹا ساتین حرفی لفظ ہے جو عربی لفظ عود سے نکلا ہے، اس کے معنی لوٹ آنے اور بار بار آنے کے ہیں۔ عید کیونکہ ہر سال لوٹ آتی ہے اس لئے اس کا نام عید پڑگیا ،عید کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ۔تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں جو عید کے تصور سے آشنا نہ ہو،قدیم تاریخی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمدن دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی عید کا بھی آغاز ہو گیا تھا۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کئی دنوں سے شور بپا ہے ’’پاکستان میں دو عیدیں پکی‘‘ پاکستانی قوم تقسیم ہو گئی ‘ روائت ہلال کمیٹی ناکام’’سرحد حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ عید منانے کا فیصلہ کر لیا ‘‘ یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں‘ بس کرو یار‘ کوئی نئی بات کرو’’دو عیدیں‘‘ یہ کوئی پہلی مرتبہ تو نہیں ہوا‘ ہر مرتبہ ایسا ہوتا آ رہا ہے ‘ اور یہ سب کچھ وہی کرا رہے ہیں جو وارث الانبیاء ہیں جن کے پاس منبر اور محراب ہے اور جو ہمیں اللہ کا فرمان ’’خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو‘ آپس میں متفرق نہ ہو پڑو’’ہروقت سناتے ہیں ۔
آئین پاکستان میں پورے ملک میں ایک ہی دن عیدکا قانون موجود ہے مگر عمل کون کرائے؟ خصوصاً ان حالات میں جبکہ صوبہ سرحد کی اے این پی اور مرکز کی پی پی آپس میں اتحادی ہوں اور دونوں آئین کی پاسداری کا حلف بھی اٹھائیں مگر عید کے مسئلے پر قوم کو دو حصوں میں بانٹ کے رکھ دیں تو کس سے منصفی چاہیں؟ عیدالفطر کے پر مسرت موقع پر جو آپس میں کسی وجہ سے ناراض ہیں ان کو ایک دوسرے سے صلح کر لینی چاہیے اور بروز عید ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا چاہیے۔ عید کے دن دل میں کوئی رنجش نہ رکھیں کیونکہ عید آتی ہے اور خوشیاں دے کر چلی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیںکہ اور جب انسان اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے سرفراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خوب خوشیاں منائے عید کے دن مسلمانوں کی مسر ت اور خوشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خدا کے احکامات کی ایک ماہ تک سختی سے تعمیل کی اور اس تعمیل کے بعد خوش و مسرور رہتے ہیں، حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں، کہ عیدالفطر کے دن حضورﷺ میدان میں نماز ادا فرماتے نماز کی ادائیگی کے بعد لوگوں سے ملاقات کرتے گلے ملتے پھر واپس گھر آجاتے عید الفطر کو میٹھی عید کہا جاتا ہے ‘ سندھی سرائیکی ‘ پنجابی‘ پوٹھوہاری ‘براہوی‘ کشمیری ،اردو اور دوسری پاکستانی زبانوں میں بھی عید الفطر کو میٹھی اور ’’سیویوں‘‘ والی عیدکہا جاتا ہے ۔
 ملائشیا میں ہری بار یعنی خوشی کا دن‘ انڈونیشیا میں ’’رنگ پائو‘‘ یعنی بالاں دی عید‘عرب ملکوں میں عید پر میٹھے پکوان شوق سے پکائے جاتے ہیں اور عیدڈش کو ’’کلائجہ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستانی زبانوں کی طرح چین اور ترکی کے مسلمان بھی عید الفطر کو ’’شکرم بیرم‘‘ کا نام دیتے ہیں ۔اب گڑ کا زمانہ نہیں رہا میٹھی ڈش چینی سے تیار کی جاتی ہے ‘ ہمارے ملک کے سرمایہ داروں نے میٹھی عیدکے آنے سے پہلے جس طرح چینی کا بحران پیدا کیا اور غربت مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں مرے ہوئے غریبوں سے جس طرح تیس سے پچاس ارب کا خون نچوڑا پوری دنیا میں شاید اس کی مثال نہ ملے‘ مگر ایک نئی مثال وجود میں ضرور آئی ہے‘ کہ ہمارے امراء کی طرف سے غریبوں کیلئے ’’ایڈوانس عیدی ‘‘ اس طرح جاتی ہے ۔
عید کاچاند واقعی عید کا چاند ہوتا ہے ‘ ہر خوبصورت اپنے محب کیلئے عید کا چاند ہی ہوتا ہے ‘ ہر زلیخا اپنے یوسف کو عید کا چاند ہی سمجھتی ہے ‘ کل کی طرح آج کی زلیخا بھی کتنی کملی بھولی اور ’’یلی‘‘ ہے کہ ’’پیسہ نہ پلے ہار گھناں کہ چھلے‘‘ کے مصداق جیب میں ’’کھوٹی دمڑی‘‘ نہیں بازار ملتان میں یوسف لینے چلی ہے ‘ یلی صرف کالیلیٰ نہیں سرائیکی وسیب میں ’’یلے‘‘ بھی بکثرت پائے جاتے ہیں صرف کاغذکے ایک چھوٹے سے ٹکڑے ‘ یعنی ووٹ پرچی کے بدلے ’’کھلن کو چاند مانگتے ہیں ‘‘ کیا ایسا بھی کبھی ہوا؟ ۔ ہمیں نظر آ رہا ہے کہ نواب مشتاق گورمانی سے لیکر فاروق لغاری تک اپنے وسیب کیلئے کام نہ کرنے کے جو داغ ہیں اس میں ایک اور داغ کا اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے ‘ لغاری نے سرائیکی وسیب کے کارکنوں کی قربانیوں کا صلہ صدارت کا ثمر اور گیلانی نے وزیر اعظم کا عہد ہ لیا ‘ مگر وسیب کیلئے کچھ نہ کرنا غریب وسیب پر ظلم ہے ۔
پوری دنیا میں عید نماز خوشیوں کے سائبان مگر پاکستان میں عید نماز بھی خوف کے پہرے میں ادا ہوتی ہے جس عید گاہ میں بندوق بردار پولیس والے نہ ہوں یوں سمجھیے عید ہوئی ہی نہیں‘ آج جب پاکستان میں عید پولیس فورس کے پہرے میں ادا ہو رہی ہے ۔ عید کا لغوی معنی خوشی ہے ‘ خوشی احساس کا نام ہے مگر افسوس کہ آج ہمیں کسی چیز کا کوئی احساس نہیں‘ اگر احساس ہوتا تو آج غریب آبادی خوشیوں سے محروم نہ ہوتی‘ دنیا کی کثیر آبادی کیلئے عید کا دن بھی عید نہیں جبکہ امراء کیلئے ہر دن روز عید ہے ‘ غریب آج بھی غریب تر اور امیر آج بھی امیر تر ہو رہاہے ‘ خوراک کے گودام بھرے ہیں مگر غریب کا پیٹ خالی ہے ‘ پوری دنیا میں رائج طبقاتی سسٹم میں کائنات کے امن و سکون کو برباد کر کے رکھ دیا ہے ‘ سندھی کے عظیم شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی کا ایک شعر اس طرح ہے کہ ’’بکھ بچھڑو ٹول‘ دانا نہ دانا کرے‘‘ یعنی بھوک ایسا ظالم لشکر ہے جو سمجھدار کو پاگل بنا دیتا ہے ۔
 بھوک کی وجہ سے ہمارے ہاں چور ڈاکو سے بڑھ کر دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں ‘ اور بھوک سے خود کشیاں تو اپنی جگہ رہیں لوگ خود کشوں کے پاس جا رہے ہیں ‘ اس تمام صورت حال کے ذمہ دار امریکہ یورپ اور ہمارے ملک کے لٹیرے گروہ بھی ہیں جو بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف جہاد بھی کر رہے ہیں اور اپنے نا پسندیدہ کرتوتوں سے خود ہی اس کا باعث ہیں ‘ لیکن ہر بڑے ظلم کے بعد ایک انقلاب آتا ہے اور اب جو انقلاب آئے گا اس میں غربت یا غریب میں سے ایک چیز باقی رہے گی ۔

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: