مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہندو راجہ کے گھر اللہ کے و لی کا جنم||ظہور دھریجہ

خلیق ملتانی نے لکھا تھا ’’چنن پیر دا میلہ ڈٹھا، ہک ہک جٹ البیلا ڈٹھا‘‘۔ بہاول پور سے تقریباً تیس میل کے فاصلے پر ریت کے ٹیلوں کے درمیان چاردیواری سے ڈھکا ہوا ایک ٹیلہ نمایاں دکھائی دیتا ہے جو چولستانوںکے الفاظ میں ’’دلیل پیر‘‘ کا مزار ہے ۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہار رُت جب شروع ہوتی ہے تو صحرائے چولستان کے علاقہ تحصیل یزمان میں چنن پیر ؒ کا عرس شروع ہو جاتا ہے جس طرف نظر دوڑائیں اونٹوں کے قافلے چنن پیرؒ کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں، اب تو کچھ سڑکیں بھی بن گئی ہیں ، ٹریکٹر ٹرالیوں کا رواج بھی ہے ، کار موٹر سائیکل اور بسوں پر بھی لوگ پہنچتے ہیں مگر چولستان کا اصل حسن اونٹ ہے، اونٹ کو چولستان میں صحرائی جہاز بھی کہا جاتا ہے ، اونٹوں کے قافلے جس طرح رواں دواں ہوتے ہیں تو خواجہ فریدؒ نے ان قافلوں کی تعریف بھی کی ہے اور دعا بھی دی ہے۔
 آپ فرماتے ہیں نازو جمل جمیل وطن دے ، راہی راہندے راہ سجن دے ہوون شالا نال امن دے ، گوشے ساڈے ہاں دے ہن عرس کے موقع پر اونٹوں کو سنوارا اور سنگھارا جاتا ہے، ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں ، پیروں میں گھنگھرو اور گلے میں گھنٹیاں باندھی جاتی ہیں۔ اونٹ کے گھٹنوں پر ایک کپڑا لٹکایا جاتا ہے اسے ’’بہونٹے ‘‘ کہتے ہیں، کمر پر ڈالے جانیوالے کپڑے کو ’’پڑچھی‘‘ کہا جاتا ہے، اونٹ کے گلے میں چاندنی کی پٹڑیاں ڈالی جاتی ہیں اسے ’’تختی ‘‘کہتے ہیں ، پائوں میں جھانجھریں ڈالی جاتی ہیں، اونٹ پر ڈالے جانیوالے کپڑے کو ’’جھل‘‘ بھی کہا جاتا ہے،
 اونٹ کے دیگر زیورات میں کڑے ، گور بند، گانا، گانی، مالہا، مالھنی، رمجھول وغیرہ شامل ہیں۔ اونٹ کے مالک کو جت کہا جاتا ہے اور شتر سوار بھی، چولستان میں قطار میں آگے چلنے والے اونٹ کو مہاری کہتے ہیں جبکہ اونٹ کے بچے کو توڈا اور بچی کو توڈی ۔چولستان میں اونٹوں کی جو مختلف نسلیں ہیں ان میں مڑیچہ بھی ہے۔ اونٹوں کے علاوہ میلے پر جانے والی ہر سواری کا اپنا اپنا رنگ ہوتا ہے ، میلے میں آنے والے لوگ ثقافتی لباس زیب تن کرتے ہیں۔ سرمہ، کجل ، مساگ ، عطر اور مختلف خوشبولگا کر آتے ہیں ۔ میلہ پر فنکار اور گلوکار بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں ، چنن پیر کے مزار کے ساتھ ایک جال کا درخت ہے جہاں لوگ منت مانگنے کی نشانی ’’تھگڑیاں‘‘ باندھ جاتے ہیں ، مراد پوری ہو جائے تو وہ انہیں کھول جاتے ہیں، میلے کے مختلف ثقافتی رنگ ہیں ۔
خلیق ملتانی نے لکھا تھا ’’چنن پیر دا میلہ ڈٹھا، ہک ہک جٹ البیلا ڈٹھا‘‘۔ بہاول پور سے تقریباً تیس میل کے فاصلے پر ریت کے ٹیلوں کے درمیان چاردیواری سے ڈھکا ہوا ایک ٹیلہ نمایاں دکھائی دیتا ہے جو چولستانوںکے الفاظ میں ’’دلیل پیر‘‘ کا مزار ہے ۔ دلیل پیر، ’’چنن پیر ‘‘کے نام پر زیادہ مشہور ہے، آپ کا اصل نام حضرت عماد الدین ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ساتویں صدی ہجری میں حضرت مخدوم جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ کا گزر جیسلمیر کے علاقے سے ہوا تو حضرت ؒ نے فرمایا یہاں کوئی مسلمان بھی رہتا ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ملا، مگر ساتھ ہی جب حضرتؒ کے علم میں یہ آیا کہ ہندو راجہ کے گھر بچے کی ولادت ہونے والی ہے تو آپ نے پیشین گوئی کی کہ یہ بچہ مسلمان ہو جائے گا ۔
حضرت مخدوم کی پیشین گوئی کی خبر راجہ تک بھی پہنچی ، چنانچہ جب اس کے گھر میں بچہ پیدا ہوا تو اُس نے اپنے بچے کو ریگستان میں پھینکوانے کا فیصلہ کیا ، ماں کی مامتا اگرچہ راجہ کے ارادے کی راہ میں مزاحمت کی ہمت نہ کر سکی، اُس کی خواہش پر چندن(صندل) کی لکڑی کا پنگوڑا بنوایا اور اس میں اس بچے کو سُلا کر ریگستان کے ایک ٹیلے پر رکھوا دیا گیا۔ راجہ کا خیال تھا کہ اس طرح بچہ ایک دو دن میں خود بخود مر جائے گا اور اس کے مسلمان ہونے کی تہمت سے بچ جائے گا، مگرخدا کا کرنا کیا ہوا ؟
 بچہ اس پنگوڑے میں زندہ رہا اور غیبی طور پر اس کی پرورش کا انتظام ہو گیا۔روایت کے مطابق یہ بچہ بڑا ہو کر حضرت مخدوم جلال الدین سُرخ پوش بخاریؒ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوا اور تا حیات اسی مقام پر اپنے روحانی فیوض و برکات مقیم رہا ۔ آس پاس کے بہت سے لوگوں نے چنن پیر کی روحانی تعلیمات کی بدولت اسلام قبول کیا۔ مٹی کے ڈھیر کی شکل میں جو ٹیلہ نظر آتا ہے وہی چنن پیر کا مزار ہے جس کو لوگ چندن کی لکڑیوں کے پنگوڑے کی نسبت سے چنن پیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ مارچ کے مہینے میں یہاں بہت بڑا میلہ لگتا ہے اور دور دور سے لوگ اس میں شرکت کیلئے آتے ہیں، سرائیکی وسیب میں اس میلے کو روہی کا ثقافتی میلہ کہتے ہیں۔چنن پیر کی وجہ تسمیہ بارے دو روایات ہیں،
ایک روایت یہ ہے کہ بچہ چاند کی مانند خوبصورت تھا اس وجہ سے اسے سرائیکی میں چن اور چنن کہا گیا۔ دوسری روایت یہ ہے کہ بچے کیلئے جو جھولا بنوایا گیا وہ چنن یعنی صندل کی لکڑی کا تھا، سرائیکی زبان میں صندل کو چنن کہا جاتا ہے، سرائیکی زبان میں اکثر نام چنن کے بھی آتے ہیں یعنی صندل۔ جس طرح پیشن گوئی ہوئی تھی کہ راجکمار کے گھر ہونے والا بچہ مسلمان ہو جائے گا اور اللہ کا ولی بنے گا، بالکل ایسا ہوا، وہ بچہ مسلمان بھی ہوا اور اللہ کا ولی ایسا بنا کہ آج بھی اس کا مزار مرجع خلائق ہے۔ چولستان کے صحرا میں ہونے کے باوجود زائرین کی آمد کا سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے اور عرس کے دنوں میں میلہ لگا رہتا ہے، عرس کے موقع پر میلہ سات جمعرات تک جاری رہتا ہے ۔
 پانچویں جمعرات کو بہت بڑا میلہ ہوتا ہے ، بہاولپور ضلع میں سرکاری طور پر مقامی تعطیل ہوتی ہے، میلہ میں لاکھوں لوگ جمع ہوتے ہیں، آج کل تو باڑ لگ گئی ہے اس سے پہلے ہندوستان کے کے علاقہ جیسلمیر اور راجستھان سے سے بڑی تعداد میں لوگ اس میلے میں شریک ہوتے تھے۔ فروری کا آخری ہفتہ اور مارچ کا مہینہ اور اپریل کا پہلا ہفتہ عرس کے ایام ہیں، اسی طرح سرائیکی مہینہ چیت جو کہ بہار کا مہینہ ہے یہی چنن پیر میلہ کے آغاز کا مہینہ ہے۔ چنن پیر میلے کے سات ہفتوں میں ساری روہی اور اس کے رنگ چنن پیر میں سمٹ آتے ہیں، یہ میلہ سرائیکی وسیب میں امن و سلامتی کی علامت اور انسانیت و بھائی چارے کا مرکز ہے۔
یہاں صرف مسلمان ہی نہیں ہندو اور عیسائی مذہب کے پیروکاربھی یکساں عقیدت سے حاضر ہوتے ہیں۔ چنن پیر میلہ روہی کی ثقافتی روح ہے، سال بھر سے بھوک پیاس اور دھوپ کا سیک جھیلتے روہیلے ان سات ہفتوں میں گویا اگلے سال کیلئے پھر چارج ہوجاتے ہیں۔ شہروں میں رہنے والے، جنہوں نے اس صحرا میں ایک دن بھی نہیں گزارا وہ انٹر نیٹ پہ بلاگز پڑھ کر اور دو چار کتابوں سے ماخوذ علم کی بناپر نہ تو روہیلہ ثقافت میں چنن پیر کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں، نہ ہی روہیلوں کی زندگی میں اس میلے سے پیدا ہونے والی خوشیوں اور اس کے مثبت اثرات کو محسوس کر سکتے ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: