نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان صاحب نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے جو جارحانہ حکمت عملی اختیار کررکھی ہے وہ ان کے جنونی مداحین کو یقینا بہت بھائی ہے۔سوال مگر یہ اُٹھتا ہے کہ اس کے بعد کیا کرنا ہے۔دھرنے اور مظاہرے 2014ء کے برس بھی تحریک انصاف کے کام نہیں آئے تھے۔’’پانامہ پیپرز‘‘ کے منکشف ہونے کا انتظار کرنا پڑا۔وہ دھماکے کی صورت منظر عام پر آئے تو ریاستی ادارے بھی متحرک ہوگئے۔سپریم کورٹ کے ہاتھوں نواز شریف صاحب کو عمر بھر کے لئے کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نااہل کروانا پڑا۔ مذکور ہ نااہلی کے باوجود 2013ء میں قائم ہوئی قومی اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ اس کے بعد جو انتخاب ہوئے انہوں نے عمران خان صاحب کی جماعت کو سادہ اکثریت بھی فراہم نہ کی۔’’آزاد‘‘ حیثیت میں کامیاب ہوئے اراکین کو جہانگیر ترین کے طیارے میں لاد کر بنی گالہ پہنچانا پڑا۔ حکومت سازی کے لئے ان کی تعداد بھی تاہم کافی نہیں تھی۔ ’’اتحادی‘‘ جماعتوں سے رجوع کرنا پڑا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو
راجدھانی دی کہانی:پی ٹی آئی دے کتنے دھڑےتے کیڑھا عمران خان کو جیل توں باہر نی آون ڈیندا؟