نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اپوزیشن کی امیدوں پر پانی پھیرتے چودھری پرویز الٰہی || نصرت جاوید

عمران خان صاحب کا فوری ہدف مگر اپنے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانا ہے۔اسے ناکام بنانے کے بعد وہ خود بھی 2023تک وزیر اعظم کے منصب پر برقرار رہنا چاہیں گے۔ سیاسی حرکیات واہداف کے حوالے سے لہٰذا چودھری پرویز الٰہی اور عمران خان ’’ایک پیج‘‘ پر ہیں۔اس ضمن میں فقط باقاعدہ اعلان ہونا تھا جو پیر کی شام ہوگیا ہے۔یہ تحریک اپنے انجام کی جانب بڑھنے لگی تو اپنے تئیں قوم کی رہ نمائی کو مامور ’’صحافی‘‘ تاہم حکومت اور اس کے مخالفین کو ’’معقولیت‘‘ کی راہ اختیار کرنے کے مشورے دینا شروع ہوگئے۔ فریقین کو نہایت درد مندی سے سمجھارہے ہیں کہ وطن عزیز محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بہتر یہی ہوگا کہ سڑکوں پر ایک دوسرے کی سرپھٹول کے بجائے یہ فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور قوم کے وسیع تر مفاد میں ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر کوئی سمجھوتہ کرلیں۔فریقین نے ان کے حکیمانہ مشوروں پر کان نہ دھرے تو دہائی مچانا شروع ہوگئے کہ معاملات شدید سے شدید تر تنائو کی صورت اختیار کرگئے تو اب تک ’’نیوٹرل‘‘ رہی قوتوں کو متحرک ہونا پڑے گا۔ان کے متحرک ہوجانے کے بعد نمودار ہوئے مصالحتی فارمولوں پر عمل نہ ہوا تو ’’سسٹم‘‘ خطرے میں پڑجائے گا۔ میں اگرچہ آج تک سمجھ نہیں پایا کہ جس ’’سسٹم‘‘ کو بچانے کے ڈھونگ رچائے جاتے ہیں اس نے میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو کس نوع کا ’’اختیار‘‘ فراہم کررکھا ہے۔روزمرہّ زندگی کی مشکلات کے ہاتھوں بے بس ہوئے ہم ذلتوں کے مارے عوام کامبینہ ’’سسٹم‘‘ میں کیا اور کتنا حصہ ہے۔ ہم اسے بچانے کی فکر میں مبتلا کیوں ہوں۔اگست 2018سے گزشتہ برس کے اکتوبر تک میڈیا کی محدودات عام آدمی نے بخوبی جان لی ہیں۔عمران حکومت کو مستحکم بنانے کے لئے صحافتی اداروں کو معاشی دبائو کی چھری تلے رکھ کر فقط وہ دکھانے اور شائع کرنے کو مجبور کیا گیا جو ’’سب اچھا‘‘ کی خبردے۔یہ فریضہ سرانجام دینے کے ناقابل صحافی ویسے بھی ’’لفافے‘‘ قرار دے کر پہلے ہی معتوب ٹھہرادئیے گئے تھے۔عمران خان صاحب کا ’’نیا پاکستان‘‘ وجود میں آنے کے بعد وہ صحافتی اداروں پر ’’مالی بوجھ‘‘ بھی بن گئے۔ان دنوں ’’پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘ والی گمنامی اور بے اثری کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔1975سے رزق کے لئے محض صحافت پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی اوقات میں نے 2007ہی میں دریافت کرلی تھی۔اس برس جنرل مشرف نے ’’ایمرجنسی-پلس‘‘ کے ذریعے صحافت کو نیک راہ پر چلانے کا جو عمل متعارف کروایا تھا وہ اگست 2018کے بعد اپنا کمال دکھاتا نظر آیا۔کمال کو بھی تاہم قانون تقلیل افادہ کی زد میں آنا ہوتا ہے۔ان دنوں ویسی ہی صورت حال ہے۔’’صحافت‘‘ کا اگرچہ عرصہ ہوا انتقال پرملال ہوچکا ہے۔میری دانست میں ’’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘ والے پاکستان کے تندوتلخ حقائق کو منیرؔ نیازی نے اپنی شاعری کے ذریعے حیران کن ہنر مندی سے بیان کررکھا ہے۔ ان کی ایک پنجابی نظم جو ’’مینوں مرن دا شوق وی سی‘‘ کے اعتراف پر ختم ہوتی ہے’’ہونی‘‘ کا ذکر بھی کرتی ہے۔اس نظم میں شاعر نے سمجھادیا ہے کہ جب کوئی بات یا گڑبڑ شروع ہوجائے تو اپنے فطری یا منطقی انجام تک پہنچے بغیر ختم نہیں ہوتی۔قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوجانے کے بعد لہٰذا جو بات شروع ہوئی ہے اسے ’’ہونی‘‘ ہی پر ختم ہونا ہے۔اسے ٹالنے کے لئے اب کوئی ’’درمیانی راستہ‘‘ نکالنا ممکن نہیں رہا۔اپنے نورتنوں کے مشوروں سے عمران خان صاحب اگرچہ ’’ہونی‘‘ تک پہنچنے کے سفر کو طویل سے طویل تر بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ہمارے تحریری آئین کا تقاضہ تھا کہ قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوجانے کے بعد عمران حکومت مارچ کی 21تاریخ تک مذکورہ ایوان کا اجلاس ہر صورت طلب کرتی۔اس تقاضے سے ڈھٹائی کے ساتھ گریز ہوا۔اب سپریم کورٹ کے روبرو ایک صدارتی ریفرنس بھی پیش کردیا گیا ہے۔اس کے ذریعے کاوش ہورہی ہے کہ تحریک انصاف سے ناراض ہوئے اراکین قومی اسمبلی کو ’’ان کے گھر میں ڈرا‘‘ دیا جائے۔ ’’تاحیات نااہلی‘‘ کے خوف سے وہ عمران خان صاحب کے خلاف ووٹ ڈالنے سے قبل سو بار سوچیں۔تحریک انصاف سے بغاوت کو آمادہ جو اراکین قومی اسمبلی کیمروں کے روبرو آچکے ہیں اپنی رائے مگر اب کسی صورت نہیں بدلیں گے۔ان کی اکثریت ’’خاندانی‘‘ سیاست دانوں پر مشتمل ہے۔ان کے ڈیرے اور دھڑے ہیں۔کیمروں کے روبرو آجانے کے بعد ان کے خلاف ڈاکٹر شہباز گل صاحب جیسے وزیر اعظم کے مصاحبین نے جو زبان استعمال کی ہے اس کے بعد وہ اپنی رائے بدلنے کے متحمل ہوہی نہیں سکتے۔ان میں سے چند اراکین کے گھروں کے باہر جمع ہوئے لونڈے لپاڑوں نے انہیں ’’بکری‘‘ بنانے کی کوشش بھی کی۔اپنے کارکنوں کی جانب سے اپنائے جارحانہ رویے کے باوجود عمران خان صاحب نے ایک ’’مشفق والد‘‘ کی طرح ناراض اراکین کو ’’معاف‘‘ کردینے کی پیش کش کی۔ایسا کرتے ہوئے مگر بھول گئے کہ ڈیروں اور دھڑوں والے کامل بے عزتی کے بعدمعافی کے طلب گار نہیں ہوتے۔ ’’انج اے تے فیر انج ای سئی‘‘ والا رویہ اختیار کرنے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔اپنے خلاف ہوئی بغاوت پر قابو پانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 63-Aکی سپریم کورٹ کے ذریعے ’’تشریح‘‘ کی طلب گار ہوتے ہوئے عمران حکومت اس حقیقت کو فراموش کرچکی ہے کہ ہمارے ہاں 1993کا برس بھی آیا تھا۔اس برس کے اپریل میں آٹھویں ترمیم کے اختیارات سے مالا مال صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔نواز شریف نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔روزانہ ہوئی سماعت کے بعد ان دنوں کی سپریم کورٹ نے برطرف ہوئی حکومت کو بحال کردیا۔اس ضمن میں جو فیصلہ تحریرہوا اسے ان دنوں کے سپیکر گوہر ایوب نے پارلیمان ہائوس کی دیواروں پر کندہ کرنے کا حکم دیا۔پارلیمان کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے آج بھی وہ ’’تاریخی فیصلہ‘‘ آپ دیواروں پر لکھا ہوا پڑھ سکتے ہیں۔اس کے ہوتے ہوئے بھی لیکن 1996میں جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں برطرفی کو قانونی اور آئینی اعتبار سے واجب ٹھہرایا۔ 12اکتوبر1999کی رات منتخب حکومت کے خلاف جنرل مشرف کے لئے اقدامات بھی سپریم کورٹ ہی کے ہاتھوں ’’حلال‘‘ ٹھہرائے گئے تھے۔سیاسی بحران کا اعلیٰ عدالتوں کے پاس’’حل‘‘ میسر ہی نہیں ہوتا۔ فرض کرلیتے ہیں کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ یہ طے کردیتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے دوران تحریک انصاف کا کوئی رکن قومی اسمبلی وزیر اعظم کے خلاف ووٹ ڈالے گا تو تاحیات اسمبلی کی رکنیت کا اہل نہیں رہے گا۔ ایسا فیصلہ اگر آیا تب بھی عمران حکومت کو استحکام فراہم نہیں کرپائے گا۔تحریک عدم اعتماد پر گنتی سے قبل قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے افراد ’’تاحیات نااہلی‘‘ کے دام کو جل دے سکتے ہیں۔اس کی بدولت اپوزیشن جماعتیں اپنی تحریک کی حمایت میں 172اراکین دکھانے میں شاید ناکام رہیں۔ اس کے بعد مگر عمران خان صاحب بھی 342کے ایوان میں اکثریت سے محروم ہوجائیں گے۔ناراض ا راکین اگر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگئے تو اپوزیشن جماعتیں مجبور ہوجائیں گی کہ ان کی ’’قربانی‘‘ کو اپنے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے ذریعے ’’خراج‘‘ پیش کریں۔اس کے نتیجے میں 150سے زیادہ نشستوں پر ’’ضمنی انتخاب‘‘ کروانا ہوں گے۔ ’’سیاسی بحران‘‘ اس کی بدولت گھمبیر سے گھمبیر تر ہوجائے گا۔ ’’درمیانی راستہ‘‘ نکالنے کے مشورے دیتے’’مفکرین‘‘ مگر سیاسی حرکیات کی ایسی مبادیات سے کاملاََ غافل نظر آرہے ہیں۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے لکھے کالموں کا حوالہ دینا مجھے برا لگتا ہے۔عقل کل ہونے کے دعوے دار ہی اس علت میں مبتلا ہوتے ہیں اور مجھے اپنی محدودات کا بخوبی علم ہے۔اس کے باوجود یاد دلانے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ چند ہفتے قبل جب شہباز شریف صاحب چودھری برادران کے لاہور والے گھر حاضری دینے پہنچے تو میں نے اسے کارزیاں پکارا۔ یہ اضافہ کرنے سے بھی باز نہ رہا کہ مذکورہ حاضری انہیں کوئی سیاسی فائدہ پہنچانے کے بجائے بالآخر ان کی ذات اور جماعت کے لئے شرمندگی کا باعث ثابت ہوگی۔ پیر کی شام میرا اندازہ درست ثابت ہوگیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی سہ پہر چار بجے شروع ہونا تھا۔صحافیوں کو اس کے دوران شدید ہنگامہ آرائی کی توقع تھی۔انہیں گماں تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے قومی اسمبلی کے دفتر میں جمع کروائی تحریک عدم اعتماد کو حکومت ایوان میں باقاعدہ پیش کرنے کا موقعہ فراہم کرنے میں تاخیری حربوں سے کام لے گی۔اپوزیشن کو اطمینان دلانے کے لئے تاہم سپیکر کے دفتر میں ان کے سرکردہ رہ نمائوں کو بلاکر وعدہ ہوا کہ ان کی جانب سے جمع کروائی تحریک پیر کے دن ہی ایوان میں باقاعدہ پیش کرنے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

ایک گھنٹہ کی تاخیر کے بعد چار کے بجائے پانچ بجے اجلاس شروع ہوا تو پریس لائونج میں نصب ٹی وی سکرینوں پر ٹکر چلنا شروع ہوگئے کہ چودھری پرویز الٰہی اپنے اسلام آباد والے گھر سے وزیر اعظم سے ملاقات کی خاطر بنی گالہ روانہ ہوگئے ہیں۔اس خبر سے چند گھنٹے قبل اے آر وائی ٹی وی کے متحرک اور باخبر رپورٹر صابر شاکر ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے ذریعے یہ اطلاع دے چکے تھے کہ عمران خان صاحب نے بالآخر عثمان بزدار کی جگہ پرویز الٰہی صاحب کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔چودھری صاحب کی بنی گالہ روانگی ان کی دی خبر کی تصدیق کرتی محسوس ہوئی۔

چودھری صاحب کی عمران خان صاحب کے ہاتھوں بطور وزیر اعلیٰ پنجاب نامزدگی حکمران جماعت کے اس دعویٰ کا ا ثبات بھی ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے وزیر اعظم صاحب نے اپنے سینے کے ساتھ کئی ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ لگارکھے ہیں۔وہ انہیں کھیلیں گے تو اپوزیشن بوکھلا جائے گی۔ پرویز الٰہی کی بطور وزیر اعلیٰ نامزدگی نے یقینا ا پوزیشن کو پریشان کردیا ہے۔

یہ بات برحق کہ قومی اسمبلی کے لئے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جولائی 2018کے انتخاب کے دوران منتخب ہوئے افراد میں سے کم از کم 25افراد وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوئی تحریک کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کو رضا مند ہوچکے ہیں۔حکومت کا ارادہ تھا کہ ناراض اراکین کی جانب سے عمران خان کے خلاف ووٹ کو قومی اسمبلی کے سپیکر ’’مسترد‘‘ تصور کریں۔ انہیں شمار بھی نہ کیا جا ئے۔ اس کے بعد فلور کراسنگ کے مرتکب اراکین کو نااہل کروانے کے لئے قانونی کارروائی کا آغاز کردیا جائے۔فلور کراسنگ کی وجہ سے ہوئی نااہلی کے حوالے سے عمران حکومت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع بھی کرچکی ہے۔وہ اعلیٰ عدلیہ سے آئین کے آرٹیکل 63-Aکی ایسی تشریح کی خواہاں ہے جو منحرف اراکین کو انتخاب میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل قرار دے۔جس تشریح کی توقع باندھی جارہی ہے اگر فراہم ہوگئی تو تحریک عدم اعتماد پر ہوئی گنتی کے دوران عمران خان صاحب کے خلاف ووٹ ڈالنے والے ’’خودکش ‘‘ ہی تصور ہوں گے۔

حکومتی اراکین کو تاحیات نااہلی کے خوف سے محفوظ رکھنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ رہ نما گزشتہ کئی دنوں سے ’’اتحادی‘‘ جماعتوں سے مسلسل رابطے میں تھے۔ان جماعتوں کے پاس 17ووٹ ہیں۔اپوزیشن پُراعتماد تھی کہ اگر ان میں سے 12اراکین بھی تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کو آمادہ ہوگئے تو حکومت سے ناراض ہوئے اراکین کوقانونی مشکلات کے  بھنور میں پھینکنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ توجہ چودھریوں کی پاکستان مسلم لیگ (ق) پر مرکوز رکھی گئی۔ان پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے یہ تصور بھی ذہن میں رکھا گیا کہ اگر گجرات کے بااثر جاٹ جن کے نام نہاد’’مقتدر حلقوں‘‘ سے تعلقات بھی نہایت دیرینہ اور گہرے ہیں عمران خان سے جدائی پر آمادہ ہوگئے تو عوام کی اکثریت بآسانی سمجھ جائے گی کہ ’’وہ‘‘واقعتا ’’نیوٹرل‘‘ ہوگئے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کی عمران خان کے ساتھ پیر کی شام ہوئی ملاقات نے اس تناظر میں باندھی امیدوں پر بھی پانی پھیردیا ہے۔

چودھری پرویز الٰہی ٹھوس سیاسی وجوہات کی بنا پر خواہش مند تھے کہ عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کے عوض انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کا یقین دلایا جائے۔اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پنجاب جس کا ’’کلہ‘‘ تصور ہوتا ہے ابتداََ اس امر کو رضا مند نہیں تھی۔ آصف علی زردا ری کے اصرار نے بالآخر نواز شریف سے منسوب مسلم لیگ کو اس کے لئے رضا مند کردیا۔ بہت لیت ولعل کے بعد مہیا ہوئی رضا مندی کے باوجود مسلم لیگ (نون)بضد رہی کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے چند ہی روز بعد پرویز الٰہی اس صوبے کی اسمبلی کو تحلیل کروانے کا عمل شروع کریں۔ اس کے نتیجے میں فوری انتخاب یقینی ہوجائیں گے۔

مسلم لیگ(نون) کو خدشہ ہے کہ اگر پرویز الٰہی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے صوبے کی بقیہ آئینی مدت مکمل کرنے کو ڈٹ گئے تو اپنی انتظامی صلاحیتوں اور سیاسی جوڑ توڑ والی مہارت کے ذریعے ان کی جماعت کے بے تحاشہ ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کو اپنا ہمنوا بنالیں گے۔انتخابات اگر 2023تک ٹل گئے تو نواز شریف سے وابستہ ’’ووٹ بینک‘‘ اپنا اثرکھونا شروع ہوجائے گا۔

عمران خان صاحب کا فوری ہدف مگر اپنے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانا ہے۔اسے ناکام بنانے کے بعد وہ خود بھی 2023تک وزیر اعظم کے منصب پر برقرار رہنا چاہیں گے۔ سیاسی حرکیات واہداف کے حوالے سے لہٰذا چودھری پرویز الٰہی اور عمران خان ’’ایک پیج‘‘ پر ہیں۔اس ضمن میں فقط باقاعدہ اعلان ہونا تھا جو پیر کی شام ہوگیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں نے اگرچہ اب بھی ہمت نہیں ہاری ہے۔یہ کالم لکھنے تک ان کے چند سرکردہ رہ نمائوں کو کامل اعتماد تھا کہ اتحادی جماعتوں سے وابستہ اراکین کی اکثریت تحریک عدم اعتماد کی حمایت ہی میں ووٹ ڈالے گی۔وہ یہ بھی اصرار کررہے ہیں کہ پرویز الٰہی صاحب نے مبینہ طورپر ’’سولوفلائٹ‘‘کرتے ہوئے چودھری شجاعت حسین اور ان کے صاحبزادے کو ناراض کردیا ہے۔میں ذاتی طور پر اگرچہ چودھری خاندان میں برسرعام نفاق ہوتا نہیں دیکھ رہا۔ طارق بشیر چیمہ کی ’’بغاوت‘‘ محض ذاتی ہی رہے گی۔

ویسے بھی نگاہیں اب پنجاب کی جانب مبذول ہوچکی ہیں۔دیکھنا ہوگا کہ عمران خان صاحب کے ہاتھوں نامزد ہوجانے کے بعد چودھری پرویز الٰہی خود کو کس انداز میں پنجاب اسمبلی سے وزیر اعلیٰ منتخب کروائیں گے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author