نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کسی “بڑے” اعلان کی توقع || نصرت جاوید

عمران خان صاحب کے بااعتماد حلقوں تک میں کسی بھی نوع کی رسائی کا ہرگز حامل نہیں۔ اس کے باوجود یہ اصرار کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ وہ ’’بھولے تو ہیں مگر اتنے بھی نہیں‘‘۔ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو کامل یقین تھا کہ ’’ہمالیہ‘‘ انہیں کھودینے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردے گا۔ایسے ’’جگا‘‘ صحافیوں نے جن کی نمایاں تعداد 2011سے ’’جب آئے گا عمران…‘‘ والا ماحول بنانے میں بھی مصروف رہی گزشتہ برس کے اکتوبر سے حکومت کے بارے میں ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والا ڈھنڈوراپیٹنا شروع کردیا۔’’شیر آیا -شیر آیا‘‘ کا واویلا بالآخر رواں مہینے کے آغاز میں عملی صورت اختیار کرتا نظر آیا۔اپوزیشن جماعتوں نے باہم مل کر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم ا عتماد جمع کروادی۔یہ تحریک اپنے انجام کی جانب بڑھنے لگی تو اپنے تئیں قوم کی رہ نمائی کو مامور ’’صحافی‘‘ تاہم حکومت اور اس کے مخالفین کو ’’معقولیت‘‘ کی راہ اختیار کرنے کے مشورے دینا شروع ہوگئے۔ فریقین کو نہایت درد مندی سے سمجھارہے ہیں کہ وطن عزیز محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بہتر یہی ہوگا کہ سڑکوں پر ایک دوسرے کی سرپھٹول کے بجائے یہ فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور قوم کے وسیع تر مفاد میں ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر کوئی سمجھوتہ کرلیں۔فریقین نے ان کے حکیمانہ مشوروں پر کان نہ دھرے تو دہائی مچانا شروع ہوگئے کہ معاملات شدید سے شدید تر تنائو کی صورت اختیار کرگئے تو اب تک ’’نیوٹرل‘‘ رہی قوتوں کو متحرک ہونا پڑے گا۔ان کے متحرک ہوجانے کے بعد نمودار ہوئے مصالحتی فارمولوں پر عمل نہ ہوا تو ’’سسٹم‘‘ خطرے میں پڑجائے گا۔ میں اگرچہ آج تک سمجھ نہیں پایا کہ جس ’’سسٹم‘‘ کو بچانے کے ڈھونگ رچائے جاتے ہیں اس نے میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو کس نوع کا ’’اختیار‘‘ فراہم کررکھا ہے۔روزمرہّ زندگی کی مشکلات کے ہاتھوں بے بس ہوئے ہم ذلتوں کے مارے عوام کامبینہ ’’سسٹم‘‘ میں کیا اور کتنا حصہ ہے۔ ہم اسے بچانے کی فکر میں مبتلا کیوں ہوں۔اگست 2018سے گزشتہ برس کے اکتوبر تک میڈیا کی محدودات عام آدمی نے بخوبی جان لی ہیں۔عمران حکومت کو مستحکم بنانے کے لئے صحافتی اداروں کو معاشی دبائو کی چھری تلے رکھ کر فقط وہ دکھانے اور شائع کرنے کو مجبور کیا گیا جو ’’سب اچھا‘‘ کی خبردے۔یہ فریضہ سرانجام دینے کے ناقابل صحافی ویسے بھی ’’لفافے‘‘ قرار دے کر پہلے ہی معتوب ٹھہرادئیے گئے تھے۔عمران خان صاحب کا ’’نیا پاکستان‘‘ وجود میں آنے کے بعد وہ صحافتی اداروں پر ’’مالی بوجھ‘‘ بھی بن گئے۔ان دنوں ’’پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘ والی گمنامی اور بے اثری کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔1975سے رزق کے لئے محض صحافت پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی اوقات میں نے 2007ہی میں دریافت کرلی تھی۔اس برس جنرل مشرف نے ’’ایمرجنسی-پلس‘‘ کے ذریعے صحافت کو نیک راہ پر چلانے کا جو عمل متعارف کروایا تھا وہ اگست 2018کے بعد اپنا کمال دکھاتا نظر آیا۔کمال کو بھی تاہم قانون تقلیل افادہ کی زد میں آنا ہوتا ہے۔ان دنوں ویسی ہی صورت حال ہے۔’’صحافت‘‘ کا اگرچہ عرصہ ہوا انتقال پرملال ہوچکا ہے۔میری دانست میں ’’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘ والے پاکستان کے تندوتلخ حقائق کو منیرؔ نیازی نے اپنی شاعری کے ذریعے حیران کن ہنر مندی سے بیان کررکھا ہے۔ ان کی ایک پنجابی نظم جو ’’مینوں مرن دا شوق وی سی‘‘ کے اعتراف پر ختم ہوتی ہے’’ہونی‘‘ کا ذکر بھی کرتی ہے۔اس نظم میں شاعر نے سمجھادیا ہے کہ جب کوئی بات یا گڑبڑ شروع ہوجائے تو اپنے فطری یا منطقی انجام تک پہنچے بغیر ختم نہیں ہوتی۔قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوجانے کے بعد لہٰذا جو بات شروع ہوئی ہے اسے ’’ہونی‘‘ ہی پر ختم ہونا ہے۔اسے ٹالنے کے لئے اب کوئی ’’درمیانی راستہ‘‘ نکالنا ممکن نہیں رہا۔اپنے نورتنوں کے مشوروں سے عمران خان صاحب اگرچہ ’’ہونی‘‘ تک پہنچنے کے سفر کو طویل سے طویل تر بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ہمارے تحریری آئین کا تقاضہ تھا کہ قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوجانے کے بعد عمران حکومت مارچ کی 21تاریخ تک مذکورہ ایوان کا اجلاس ہر صورت طلب کرتی۔اس تقاضے سے ڈھٹائی کے ساتھ گریز ہوا۔اب سپریم کورٹ کے روبرو ایک صدارتی ریفرنس بھی پیش کردیا گیا ہے۔اس کے ذریعے کاوش ہورہی ہے کہ تحریک انصاف سے ناراض ہوئے اراکین قومی اسمبلی کو ’’ان کے گھر میں ڈرا‘‘ دیا جائے۔ ’’تاحیات نااہلی‘‘ کے خوف سے وہ عمران خان صاحب کے خلاف ووٹ ڈالنے سے قبل سو بار سوچیں۔تحریک انصاف سے بغاوت کو آمادہ جو اراکین قومی اسمبلی کیمروں کے روبرو آچکے ہیں اپنی رائے مگر اب کسی صورت نہیں بدلیں گے۔ان کی اکثریت ’’خاندانی‘‘ سیاست دانوں پر مشتمل ہے۔ان کے ڈیرے اور دھڑے ہیں۔کیمروں کے روبرو آجانے کے بعد ان کے خلاف ڈاکٹر شہباز گل صاحب جیسے وزیر اعظم کے مصاحبین نے جو زبان استعمال کی ہے اس کے بعد وہ اپنی رائے بدلنے کے متحمل ہوہی نہیں سکتے۔ان میں سے چند اراکین کے گھروں کے باہر جمع ہوئے لونڈے لپاڑوں نے انہیں ’’بکری‘‘ بنانے کی کوشش بھی کی۔اپنے کارکنوں کی جانب سے اپنائے جارحانہ رویے کے باوجود عمران خان صاحب نے ایک ’’مشفق والد‘‘ کی طرح ناراض اراکین کو ’’معاف‘‘ کردینے کی پیش کش کی۔ایسا کرتے ہوئے مگر بھول گئے کہ ڈیروں اور دھڑوں والے کامل بے عزتی کے بعدمعافی کے طلب گار نہیں ہوتے۔ ’’انج اے تے فیر انج ای سئی‘‘ والا رویہ اختیار کرنے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔اپنے خلاف ہوئی بغاوت پر قابو پانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 63-Aکی سپریم کورٹ کے ذریعے ’’تشریح‘‘ کی طلب گار ہوتے ہوئے عمران حکومت اس حقیقت کو فراموش کرچکی ہے کہ ہمارے ہاں 1993کا برس بھی آیا تھا۔اس برس کے اپریل میں آٹھویں ترمیم کے اختیارات سے مالا مال صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔نواز شریف نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔روزانہ ہوئی سماعت کے بعد ان دنوں کی سپریم کورٹ نے برطرف ہوئی حکومت کو بحال کردیا۔اس ضمن میں جو فیصلہ تحریرہوا اسے ان دنوں کے سپیکر گوہر ایوب نے پارلیمان ہائوس کی دیواروں پر کندہ کرنے کا حکم دیا۔پارلیمان کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے آج بھی وہ ’’تاریخی فیصلہ‘‘ آپ دیواروں پر لکھا ہوا پڑھ سکتے ہیں۔اس کے ہوتے ہوئے بھی لیکن 1996میں جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں برطرفی کو قانونی اور آئینی اعتبار سے واجب ٹھہرایا۔ 12اکتوبر1999کی رات منتخب حکومت کے خلاف جنرل مشرف کے لئے اقدامات بھی سپریم کورٹ ہی کے ہاتھوں ’’حلال‘‘ ٹھہرائے گئے تھے۔سیاسی بحران کا اعلیٰ عدالتوں کے پاس’’حل‘‘ میسر ہی نہیں ہوتا۔ فرض کرلیتے ہیں کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ یہ طے کردیتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے دوران تحریک انصاف کا کوئی رکن قومی اسمبلی وزیر اعظم کے خلاف ووٹ ڈالے گا تو تاحیات اسمبلی کی رکنیت کا اہل نہیں رہے گا۔ ایسا فیصلہ اگر آیا تب بھی عمران حکومت کو استحکام فراہم نہیں کرپائے گا۔تحریک عدم اعتماد پر گنتی سے قبل قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے افراد ’’تاحیات نااہلی‘‘ کے دام کو جل دے سکتے ہیں۔اس کی بدولت اپوزیشن جماعتیں اپنی تحریک کی حمایت میں 172اراکین دکھانے میں شاید ناکام رہیں۔ اس کے بعد مگر عمران خان صاحب بھی 342کے ایوان میں اکثریت سے محروم ہوجائیں گے۔ناراض ا راکین اگر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگئے تو اپوزیشن جماعتیں مجبور ہوجائیں گی کہ ان کی ’’قربانی‘‘ کو اپنے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے ذریعے ’’خراج‘‘ پیش کریں۔اس کے نتیجے میں 150سے زیادہ نشستوں پر ’’ضمنی انتخاب‘‘ کروانا ہوں گے۔ ’’سیاسی بحران‘‘ اس کی بدولت گھمبیر سے گھمبیر تر ہوجائے گا۔ ’’درمیانی راستہ‘‘ نکالنے کے مشورے دیتے’’مفکرین‘‘ مگر سیاسی حرکیات کی ایسی مبادیات سے کاملاََ غافل نظر آرہے ہیں۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

27مارچ 2022ء کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ عمران خان صاحب نے اپنے چاہنے والوں کو حکم دے رکھا ہے کہ وہ ملک کے ہر شہر اور گائوں سے باہر نکل کرقافلوں کی صورت اسلام آباد پہنچیں۔ انہیں کامل یقین ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں کم از کم ’’دس لاکھ‘‘افراد وفاقی دارالحکومت کے ایک وسیع وعریض میدان میںجمع ہوکر ان کے ساتھ بھرپور یگانگت کا اظہار کریں گے۔

اسلام آباد میں ’’دس لاکھ‘‘ افراد جمع کرنا بے پناہ مالی وسائل اور انتظامی توانائیوں کا تقاضہ کرتا ہے۔تحریک انصاف نے اس ضمن میں اپنی قوت 2014ء کے برس میں 126دنوں تک پھیلائے ’’دھرنے‘‘ کی بدولت ثابت کردی تھی۔وہ دھرنا مگر اپنے ہدف کے حصول میں ناکام رہا تھا۔ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کروانے کے لئے 2016ء میں پھوٹے ’’پانامہ پیپرز‘‘ کا انتظار کرناپڑا۔27مارچ کے دن جو اجتماع ہورہا ہے اس کاہدف اگرچہ میں اب تک سمجھ نہیں پایا ہوں۔

عرصہ ہوا گھر میں گوشہ نشین ہوا محض یہ کالم لکھنے تک محدود ہوچکا ہوں۔دورِ حاضر میں ویسے بھی ’’صحافی‘‘ وہ شخص تصور ہوتاہے جو ٹی وی سکرینوں پر براجمان ہوکر قوم کو نیک راہ پر چلانے کی جدوجہد میں مصروف ہو۔ ان میں سے مقبول ترین صحافیوں کو سیاسی جماعتوں کے رہ نمائوں کے علاوہ مقتدر حلقے بھی ’’اندر کی بات‘‘ بتادیتے ہیں۔طاقت ور حلقوں تک رسائی سے محروم ہوا مجھ ایسا قلم گھسیٹ رپورٹنگ سے ریٹائرہوجانے کے بعد کالم نگاری کے ذریعے محض ٹیوے ہی لگاسکتاہے۔سیاسی گہماگہمی سے کٹ کر سوچے ٹیوے اکثر اوقات غلط ثابت ہوتے ہیں۔

نظر بظاہر عمران خان صاحب اسلام آباد میں دس لاکھ افراد کا ہجوم اپنی جماعت میں گھسے ان اراکین قومی اسمبلی کو خوفزدہ کرنے کے لئے جمع کرناچاہ رہے ہیں جو ان کی دانست میں اپوزیشن کے ہاتھوں ’’بک‘‘ چکے ہیں۔عمران خان صاحب اور ان کے حامیوں کو کامل یقین ہے کہ اقتدار میں باریاں لیتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے ’’حرام کی جو دولت‘‘ جمع کررکھی ہے اس کا خیرہ کن حصہ اب ان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گرانے کے لئے بے دریغ استعمال ہورہا ہے۔ دس لاکھ افراد کا ہجوم ’’بکائو‘‘ اراکین قومی اسمبلی کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کو مجبور کردے گا۔وہ اپنے حلقوں میں جانے سے خوف محسوس کریں گے۔ ان کے سکولوں میں پڑھتے بچوں کو اپنے ہم جماعتوں کے طعنوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان کی اولاد کو شادی کے لئے مناسب رشتے آنے کے امکان محدود سے محدود تر ہوجائیں گے۔

سیاسی جماعت مگر ’’سماج سدھار تحریک‘‘ نہیں ہوتی۔اس کے قیام کا واحد مقصد اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ اقتدار کا کھیل فقط ’’عوامی اجتماعات‘‘ ہی پر اکتفا نہیں کرتا۔ اسے انتخابی عمل سے بھی گزرنا ہوتا ہے۔اس کے بعد اقتدار مل جانے کے بعد وطن عزیز کی اشرافیہ اور ریاست کے دائمی اداروں سے بھی ’’بناکر‘ ‘رکھنا پڑتا ہے۔

عمران خان صاحب کے ڈاکٹر شہباز گل صاحب جیسے مداحین نے جس زبان اور لب ولہجے میں تحریک انصا ف سے ناراض ہوئے اراکین کی تذلیل کی ہے اس کے بعد ان اراکین کے لئے سرجھکاکراپنی جماعت میں لوٹ آنا ’’عزت وغیرت‘‘ کے نام پر قتل کے عادی پاکستان ایسے معاشرے میں ممکن ہی نہیں۔ناراض اراکین کو اب شاید ایک کروڑ کا اجتماع بھی ’’خوفزدہ‘‘ نہ کرسکے گا۔ ’’غیرت مند پٹھان‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھنے والے عمران خان صاحب اس حوالے سے مجھ سے کہیں زیادہ باعلم ہوں گے۔

مذکورہ بالا تناظر لہٰذا مجھے یہ سوچنے کو مجبور کررہا ہے کہ اسلام آباد میں اتوار کے دن ’’دس لاکھ‘‘ افرادناراض اراکین کو ’’گھروں میں ڈرانے‘‘ کے لئے نہیں بلکہ کسی اور مقصد کی خاطر جمع کیا جارہا ہے۔کلیدی مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسلام آباد کا پرجوش اجتماع’’نیکی اور بدی‘‘ کے مابین عمران خان صاحب کی جانب سے برپاکی حتمی جنگ میں اب ’’نیوٹرل‘‘رہی قوتوں کو اپنا رویہ بدلنے کو مجبور کردے ۔ فرض کیا وہ ’’حق‘‘ کی حمایت کو متحرک ہوگئیں تو ’’ڈنڈا‘‘ دکھاتے ہوئے عمران حکومت کے مخالفین کو ’’بندے کا پتر‘‘ بناسکتے ہیں۔اپوزیشن جماعتیں اس کے بعد تحریک عدم اعتماد سے دست بردار ہونے کا اعلان بھی کرسکتی ہیں۔’’اسی تنخواہ‘‘پر کام کرنے کو رضامند۔

عمران خان صاحب مذکورہ بالا توقع باندھتے ہوئے خوش گمانی میں مبتلا نظر  آتے ہیں۔اگست 2018ء سے عمران خان صاحب کو تواتر سے ’’سلیکٹڈ‘‘پکارتے ہوئے اگرچہ اپوزیشن جماعتوں نے متعدد بار ان کی حکومت کی جانب سے ہوئی برق رفتار قانون سازی میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا ہے۔ ایسی تابعداری بھی تاہم ان کے کام نہیں آئی۔شہباز شریف بلکہ اس کے باوجود ’’مقصود چپڑاسی‘ کے طعنوں کی زد میں آگئے۔آصف علی زرداری صاحب کوبھی عمران خان صاحب جارحانہ انداز میں رگیدتے رہتے ہیں اور مولانا فضل الرحمن کو انہوں نے ریاست کے طاقت ور ترین نمائندے کے مشورے کے باوجود بھی نہیں بخشا۔ فرماں برادری کی بھی تاہم ایک حد ہوتی ہے۔ میری دانست میں اگر اب اپوزیشن نے حکومت سے کوئی ٹھوس شے حاصل کئے بغیر تحریک عدم اعتماد سے دست برداری کا اعلان کیا تو اس کی سیاست ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گی۔میڈیا اور عوام کے لئے وہ ایک پھسپھسا لطیفہ بن جائیں گے۔

عمران خان کے جنونی مداحین کو توقع تھی کہ اتوار کے دن دس لاکھ کے پرجوش اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ان کے قائد تاریخ ساز اعلان کریں گے۔ اس ضمن میں ایک اہم ریاستی عہدے سے بڑے صاحب کی فراغت اور نئی تعیناتی کی امید بھی باندھی گئی ۔ اپنے بااعتماد صحافیوں کے ایک گروہ سے تفصیلی مگر آف دی ریکارڈ گفتگو کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے گزرے جمعہ کے دن ایسی توقعات کو شدت سے مسترد کردیا ہے۔

جنونی مداحین مگر اب بھی عمران خان صاحب کی جانب سے کچھ ’’بڑے‘‘ اعلان کی توقع باندھے ہوئے ہیں۔ ان کے ہمدرد صحافیوں کی اکثریت نے جمعہ کے روز پارلیمان کی راہداریوں میں سرگوشیوں کی بدولت مجھے عندیہ دیا کہ اتوار کے دن عمران خان صاحب اپنے عہدے ہی نہیں قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان بھی کرسکتے ہیں۔ایسے حیران کن اعلان کے بعد وہ نئے انتخاب کے ذریعے ہمارے ’’گلے سڑے‘‘ عدالتی اور انتظامی نظام سے نجات کے لئے عوام سے دو تہائی اکثریت طلب کرنے کی مہم پر روانہ ہوجائیں گے۔ افواہیں یہ بھی گردش کررہی ہیں کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلی کی تحلیل پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔

عمران خان صاحب کے بااعتماد حلقوں تک میں کسی بھی نوع کی رسائی کا ہرگز حامل نہیں۔ اس کے باوجود یہ اصرار کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ وہ ’’بھولے تو ہیں مگر اتنے بھی نہیں‘‘۔ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو کامل یقین تھا کہ ’’ہمالیہ‘‘ انہیں کھودینے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردے گا۔ وہ مگر 4اپریل 1979ء کے دن پھانسی پر چڑھادئیے گئے۔ حالیہ تاریخ میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی دہائی مچانے کے باوجود نوازشریف صاحب کے نام سے منسوب جماعت 2018ء کے انتخاب میں اپنا جلوہ دکھانے کے ناقابل رہی۔گزشتہ دو برسوں سے وہ اب لندن میں مقیم ہیں۔ان کی جگہ پاکستان مسلم لیگ (نون)کے صدر ہوئے شہباز شریف جو ان کے چھوٹے بھائی بھی ہیں اب عمران خان صاحب اور ان کے حامیوں سے ’’بوٹ پالش‘‘ کے طعنے سن رہے ہیں۔

اقتدار کی مقناطیس سے کہیں بڑھ کر ’’کشش‘‘ ہوتی ہے۔عمران خان صاحب سلطان راہی والی ’’دلاوری‘‘ دکھاتے ہوئے اس سے محروم نہیں ہونا چاہیں گے۔ہم ویسے بھی ’’جہیڑاجتے‘‘ اس کے ساتھ چلنے والی قوم ہیں۔ کئی ’’جابر سلطان‘‘ ہمارے اجتماعی حافظے کے ہیرو ہیں۔ طاقت ور قوتوں کو للکارنے کے بعد ذلت آمیز انداز میں ناکام رہنے والوں کی بابت اگرچہ مرثیہ لکھنے کی بھی ہمیں عادت ہے۔ عمران خان صاحب مستقبل میں لکھے مرثیوں کے لئے جبلی اعتبار پر آمادہ نہیں ہوں گے۔اس ضمن میں قطعی رائے بنانے کے لئے اگرچہ اتوار کا دن گزرجانے کا انتظار کرنا ہوگا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author