نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تحریکِ عدم اعتماد کی بھڑکائی ’’آتش‘‘ کی تپش || نصرت جاوید

تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین میں سے 10سے 15افراد اگر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگئے تو اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں 172افراد دکھانہیں پائے گی۔’’ناکام‘‘ ہوئی تحریک عدم اعتماد کے باوجود مگر تحریک انصاف قطعی اکثریت سے محروم ہوجائے گی۔عمران حکومت کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے ’’اتحادی‘‘ جماعتوں پر کامل انحصار کرنا پڑے گا۔ ایسے ’’جگا‘‘ صحافیوں نے جن کی نمایاں تعداد 2011سے ’’جب آئے گا عمران…‘‘ والا ماحول بنانے میں بھی مصروف رہی گزشتہ برس کے اکتوبر سے حکومت کے بارے میں ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والا ڈھنڈوراپیٹنا شروع کردیا۔’’شیر آیا -شیر آیا‘‘ کا واویلا بالآخر رواں مہینے کے آغاز میں عملی صورت اختیار کرتا نظر آیا۔اپوزیشن جماعتوں نے باہم مل کر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم ا عتماد جمع کروادی۔یہ تحریک اپنے انجام کی جانب بڑھنے لگی تو اپنے تئیں قوم کی رہ نمائی کو مامور ’’صحافی‘‘ تاہم حکومت اور اس کے مخالفین کو ’’معقولیت‘‘ کی راہ اختیار کرنے کے مشورے دینا شروع ہوگئے۔ فریقین کو نہایت درد مندی سے سمجھارہے ہیں کہ وطن عزیز محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بہتر یہی ہوگا کہ سڑکوں پر ایک دوسرے کی سرپھٹول کے بجائے یہ فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور قوم کے وسیع تر مفاد میں ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر کوئی سمجھوتہ کرلیں۔فریقین نے ان کے حکیمانہ مشوروں پر کان نہ دھرے تو دہائی مچانا شروع ہوگئے کہ معاملات شدید سے شدید تر تنائو کی صورت اختیار کرگئے تو اب تک ’’نیوٹرل‘‘ رہی قوتوں کو متحرک ہونا پڑے گا۔ان کے متحرک ہوجانے کے بعد نمودار ہوئے مصالحتی فارمولوں پر عمل نہ ہوا تو ’’سسٹم‘‘ خطرے میں پڑجائے گا۔ میں اگرچہ آج تک سمجھ نہیں پایا کہ جس ’’سسٹم‘‘ کو بچانے کے ڈھونگ رچائے جاتے ہیں اس نے میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو کس نوع کا ’’اختیار‘‘ فراہم کررکھا ہے۔روزمرہّ زندگی کی مشکلات کے ہاتھوں بے بس ہوئے ہم ذلتوں کے مارے عوام کامبینہ ’’سسٹم‘‘ میں کیا اور کتنا حصہ ہے۔ ہم اسے بچانے کی فکر میں مبتلا کیوں ہوں۔اگست 2018سے گزشتہ برس کے اکتوبر تک میڈیا کی محدودات عام آدمی نے بخوبی جان لی ہیں۔عمران حکومت کو مستحکم بنانے کے لئے صحافتی اداروں کو معاشی دبائو کی چھری تلے رکھ کر فقط وہ دکھانے اور شائع کرنے کو مجبور کیا گیا جو ’’سب اچھا‘‘ کی خبردے۔یہ فریضہ سرانجام دینے کے ناقابل صحافی ویسے بھی ’’لفافے‘‘ قرار دے کر پہلے ہی معتوب ٹھہرادئیے گئے تھے۔عمران خان صاحب کا ’’نیا پاکستان‘‘ وجود میں آنے کے بعد وہ صحافتی اداروں پر ’’مالی بوجھ‘‘ بھی بن گئے۔ان دنوں ’’پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘ والی گمنامی اور بے اثری کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔1975سے رزق کے لئے محض صحافت پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی اوقات میں نے 2007ہی میں دریافت کرلی تھی۔اس برس جنرل مشرف نے ’’ایمرجنسی-پلس‘‘ کے ذریعے صحافت کو نیک راہ پر چلانے کا جو عمل متعارف کروایا تھا وہ اگست 2018کے بعد اپنا کمال دکھاتا نظر آیا۔کمال کو بھی تاہم قانون تقلیل افادہ کی زد میں آنا ہوتا ہے۔ان دنوں ویسی ہی صورت حال ہے۔’’صحافت‘‘ کا اگرچہ عرصہ ہوا انتقال پرملال ہوچکا ہے۔میری دانست میں ’’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘ والے پاکستان کے تندوتلخ حقائق کو منیرؔ نیازی نے اپنی شاعری کے ذریعے حیران کن ہنر مندی سے بیان کررکھا ہے۔ ان کی ایک پنجابی نظم جو ’’مینوں مرن دا شوق وی سی‘‘ کے اعتراف پر ختم ہوتی ہے’’ہونی‘‘ کا ذکر بھی کرتی ہے۔اس نظم میں شاعر نے سمجھادیا ہے کہ جب کوئی بات یا گڑبڑ شروع ہوجائے تو اپنے فطری یا منطقی انجام تک پہنچے بغیر ختم نہیں ہوتی۔قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوجانے کے بعد لہٰذا جو بات شروع ہوئی ہے اسے ’’ہونی‘‘ ہی پر ختم ہونا ہے۔اسے ٹالنے کے لئے اب کوئی ’’درمیانی راستہ‘‘ نکالنا ممکن نہیں رہا۔اپنے نورتنوں کے مشوروں سے عمران خان صاحب اگرچہ ’’ہونی‘‘ تک پہنچنے کے سفر کو طویل سے طویل تر بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ہمارے تحریری آئین کا تقاضہ تھا کہ قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوجانے کے بعد عمران حکومت مارچ کی 21تاریخ تک مذکورہ ایوان کا اجلاس ہر صورت طلب کرتی۔اس تقاضے سے ڈھٹائی کے ساتھ گریز ہوا۔اب سپریم کورٹ کے روبرو ایک صدارتی ریفرنس بھی پیش کردیا گیا ہے۔اس کے ذریعے کاوش ہورہی ہے کہ تحریک انصاف سے ناراض ہوئے اراکین قومی اسمبلی کو ’’ان کے گھر میں ڈرا‘‘ دیا جائے۔ ’’تاحیات نااہلی‘‘ کے خوف سے وہ عمران خان صاحب کے خلاف ووٹ ڈالنے سے قبل سو بار سوچیں۔تحریک انصاف سے بغاوت کو آمادہ جو اراکین قومی اسمبلی کیمروں کے روبرو آچکے ہیں اپنی رائے مگر اب کسی صورت نہیں بدلیں گے۔ان کی اکثریت ’’خاندانی‘‘ سیاست دانوں پر مشتمل ہے۔ان کے ڈیرے اور دھڑے ہیں۔کیمروں کے روبرو آجانے کے بعد ان کے خلاف ڈاکٹر شہباز گل صاحب جیسے وزیر اعظم کے مصاحبین نے جو زبان استعمال کی ہے اس کے بعد وہ اپنی رائے بدلنے کے متحمل ہوہی نہیں سکتے۔ان میں سے چند اراکین کے گھروں کے باہر جمع ہوئے لونڈے لپاڑوں نے انہیں ’’بکری‘‘ بنانے کی کوشش بھی کی۔اپنے کارکنوں کی جانب سے اپنائے جارحانہ رویے کے باوجود عمران خان صاحب نے ایک ’’مشفق والد‘‘ کی طرح ناراض اراکین کو ’’معاف‘‘ کردینے کی پیش کش کی۔ایسا کرتے ہوئے مگر بھول گئے کہ ڈیروں اور دھڑوں والے کامل بے عزتی کے بعدمعافی کے طلب گار نہیں ہوتے۔ ’’انج اے تے فیر انج ای سئی‘‘ والا رویہ اختیار کرنے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔اپنے خلاف ہوئی بغاوت پر قابو پانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 63-Aکی سپریم کورٹ کے ذریعے ’’تشریح‘‘ کی طلب گار ہوتے ہوئے عمران حکومت اس حقیقت کو فراموش کرچکی ہے کہ ہمارے ہاں 1993کا برس بھی آیا تھا۔اس برس کے اپریل میں آٹھویں ترمیم کے اختیارات سے مالا مال صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔نواز شریف نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔روزانہ ہوئی سماعت کے بعد ان دنوں کی سپریم کورٹ نے برطرف ہوئی حکومت کو بحال کردیا۔اس ضمن میں جو فیصلہ تحریرہوا اسے ان دنوں کے سپیکر گوہر ایوب نے پارلیمان ہائوس کی دیواروں پر کندہ کرنے کا حکم دیا۔پارلیمان کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے آج بھی وہ ’’تاریخی فیصلہ‘‘ آپ دیواروں پر لکھا ہوا پڑھ سکتے ہیں۔اس کے ہوتے ہوئے بھی لیکن 1996میں جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں برطرفی کو قانونی اور آئینی اعتبار سے واجب ٹھہرایا۔ 12اکتوبر1999کی رات منتخب حکومت کے خلاف جنرل مشرف کے لئے اقدامات بھی سپریم کورٹ ہی کے ہاتھوں ’’حلال‘‘ ٹھہرائے گئے تھے۔سیاسی بحران کا اعلیٰ عدالتوں کے پاس’’حل‘‘ میسر ہی نہیں ہوتا۔ فرض کرلیتے ہیں کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ یہ طے کردیتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے دوران تحریک انصاف کا کوئی رکن قومی اسمبلی وزیر اعظم کے خلاف ووٹ ڈالے گا تو تاحیات اسمبلی کی رکنیت کا اہل نہیں رہے گا۔ ایسا فیصلہ اگر آیا تب بھی عمران حکومت کو استحکام فراہم نہیں کرپائے گا۔تحریک عدم اعتماد پر گنتی سے قبل قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے افراد ’’تاحیات نااہلی‘‘ کے دام کو جل دے سکتے ہیں۔اس کی بدولت اپوزیشن جماعتیں اپنی تحریک کی حمایت میں 172اراکین دکھانے میں شاید ناکام رہیں۔ اس کے بعد مگر عمران خان صاحب بھی 342کے ایوان میں اکثریت سے محروم ہوجائیں گے۔ناراض ا راکین اگر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگئے تو اپوزیشن جماعتیں مجبور ہوجائیں گی کہ ان کی ’’قربانی‘‘ کو اپنے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے ذریعے ’’خراج‘‘ پیش کریں۔اس کے نتیجے میں 150سے زیادہ نشستوں پر ’’ضمنی انتخاب‘‘ کروانا ہوں گے۔ ’’سیاسی بحران‘‘ اس کی بدولت گھمبیر سے گھمبیر تر ہوجائے گا۔ ’’درمیانی راستہ‘‘ نکالنے کے مشورے دیتے’’مفکرین‘‘ مگر سیاسی حرکیات کی ایسی مبادیات سے کاملاََ غافل نظر آرہے ہیں۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے تحریری آئین میں کسی وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس کے منصب سے ہٹانے کا جو طریقہ کار طے کردیا گیا ہے اس پر ہوبہو عمل ہوا ہوتا تو عمران خان صاحب کے مقدر کے بارے میں ہمارے ذہن اب تک صاف ہوچکے ہوتے۔ سپیکر اسد قیصر نے تاہم کامل ڈھٹائی سے قومی اسمبلی کا اجلاس 21مارچ کے دن طلب کرنے کے بجائے اسے جمعہ 25مارچ کی صبح بلایا ہے۔پارلیمانی روایات کے مطابق اگر کوئی رکن قومی اسمبلی ایوان کے اجلاسوں کے دوران آئے وقفوں میں فوت ہوجائے تو اس کی وفات کے بعد بلائے سیشن کے پہلے دن کوئی دفتری کارروائی نہیں ہوتی۔ پہلے دن کا اجلاس مرحوم کو ایصال ثواب پہنچانے کے بعد مؤخر کردیا جاتا ہے۔

جمعہ کی صبح اسد قیصر مذکورہ روایت پر ہر صورت کاربند رہنے کو ڈٹے رہیں گے۔ اپوزیشن جماعتیں اگرچہ بضد رہیں گی کہ اجلاس مؤخر کرنے سے قبل ایوان میں وزیر اعظم کے خلاف جمع ہوئی تحریک عدم اعتماد کو کم از کم باقاعدہ پیش کرنے کی اجازت فراہم کی جائے۔اسد قیصر کا انکار بھرپور احتجاج کو اُکسائے گا۔وہ ہنگامے سے بے نیاز بیٹھے اجلاس مؤخر کرنے کے اعلان کے بعد اپنی نشست چھوڑ کر چلے جائیں گے۔

جمعہ کی صبح ہوئے اجلاس کو عموماََ پیر کی شام تک مؤخر کیا جاتا ہے۔ اسد قیصر مگر یہ بھی طے کرسکتے ہیں کہ وزیر اعظم کے خلاف قومی اسمبلی کے دفتر میں جمع ہوئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی سے قبل سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرلیا جائے۔آپ کو علم ہے کہ صدارتی ریفرنس کے ذریعے عمران حکومت عدالت عظمیٰ سے یہ معلوم کرنا چاہ رہی ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف ووٹ ڈالنے والے حکومتی اراکین فلور کراسنگ کے خلاف تیار ہوئی آئین کی شق 63-Aکے مطابق محض موجودہ اسمبلی کی نشست سے محروم ہوجائیں گے یا وہ کسی بھی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لئے تاحیات نااہل ہوں گے۔مذکورہ استدعا کا واضح جواب آنا ضروری ہے۔تحریک انصاف سے ناراض ہوئے اراکین قومی اسمبلی موجودہ ایوان میں اپنی نشست سے محروم ہونے کو دل وجان سے آمادہ ہیں۔تاحیات نااہلی کا خوف مگر انہیں کوئی اور راستہ اختیار کرنے کو مجبور کرے گا۔نظر بظاہر سب سے آسان اور فطری راہ محض یہ نظر آتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ہوئی گنتی میں حصہ لینے کے بجائے وہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں۔

تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین میں سے 10سے 15افراد اگر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگئے تو اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں 172افراد دکھانہیں پائے گی۔’’ناکام‘‘ ہوئی تحریک عدم اعتماد کے باوجود مگر تحریک انصاف قطعی اکثریت سے محروم ہوجائے گی۔عمران حکومت کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے ’’اتحادی‘‘ جماعتوں پر کامل انحصار کرنا پڑے گا۔

اپوزیشن جماعتیں پُراعتماد تھیں کہ گجرات کے چودھریوں سے منسوب مسلم لیگ (ق) 24مارچ کی شام تک عمران حکومت سے علیحدہ ہونے کا اعلان کردے گی۔یہ کالم لکھنے سے چند لمحے قبل مگر انتہائی بااعتماد ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ چودھریوں نے بدھ کی شام آصف علی زرداری سے رابطہ کیا۔ اپنے خاندان کے کسی جوان فرد کی بیماری کا تذکرہ کیا جو ہنگامی آپریشن کی متقاضی ہے۔ ہنگامی صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لئے دو دن کی مہلت مانگی گئی ہے۔ جو اعلان متوقع تھا غالباََ 26مارچ کی شام تک ملتوی کردیا گیا ہے۔

تحریک عدم اعتماد پر حتمی گنتی ٹالنے کے لئے عمران حکومت نے حیران کن ڈھٹائی سے مناسب وقت حاصل کرلیا ہے۔اس وقت کو جنونی لگن کے ساتھ عمران خان صاحب اپنے دیرینہ حامیوں کو یہ پیغام دینے میں صرف کررہے ہیں کہ اقتدار میں ’’باریاں لینے والے چور اور لٹیرے‘‘ ان کی حکومت گرانے کے لئے یکسواور یکجا ہوگئے ہیں۔تحریک انصاف کی صفوں میں سے انہوں نے ’’غدار‘‘ بھی ’’خرید‘‘ لئے ہیں۔’’غداروں‘‘ کے خلاف نفرت اُکسانے کے علاوہ وہ 27مارچ کے دن اسلام آباد میں ’’دس لاکھ‘‘ حامیوں کا ہجوم بھی جمع کرنا چاہ رہے ہیں۔
ٹی وی سٹوڈیوز میں سرخی پائوڈر لگاکر ہماری ذہن سازی میں مصروف اینکر خواتین وحضرات اس امر کی جانب توجہ ہی نہیں دے رہے کہ اسلام آباد میں ’’دس لاکھ‘‘ افراد جمع کرنے کے لئے کس نوعیت کی تگ ودو ہورہی ہے۔عملی صحافت سے ریٹائر ہونے کے باوجود میں اگرچہ مختلف شہروں میں موجود ذرائع سے ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کے بعد یہ محسوس کررہا ہوں کہ اسلام آباد کے اجتماع کو ’’تاریخ ساز‘‘ بنانے کے لئے ویسے ہی حربے اختیار کئے جارہے ہیں جو اکتوبر2011ء میں لاہور کے مینارِ پاکستان تلے عمران خان صاحب کو بھرپور انداز میں لانچ کرنے کے لئے استعمال ہوئے تھے۔ اس برس تحریک انصاف کو ریاستی وسائل میسر نہیں تھے۔ان دنوں مگر وہ وفاق ہی نہیں پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں بھی برسراقتدار ہے۔ جماعتی اور ریاستی وسائل باہم مل کر اسلام آباد کے 27مارچ والے اجتماع کو یقینا بہت پرجوش اور پررونق بنادیں گے۔
اپوزیشن جماعتوں کا ارادہ تھا کہ مذکورہ اجتماع سے دو دن قبل ہی اسلام آباد کو اپنے حامیوں سے ’’بھر‘‘دیا جائے۔مولانا فضل الرحمن اس ضمن میں بہت بے تاب تھے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ (نون) مگر اس ضمن میں لیت و لعل سے کام لیتی نظر آتی رہی۔غالباََ اسے امید تھی کہ شہباز شریف صاحب کی ’’فراست‘‘ اور ’’رابطے‘‘ 25مارچ سے قبل ہی عمران خان صاحب کی فراغت کا بندوبست کردیں گے۔ ایسا ہوتا مگر اب نظر نہیں آرہا۔مسلم لیگ (نون) کو بھی اپنے حامی سڑکوں پر لانا ہی پڑیں گے۔

لاہور سے اسلام آباد تک ’’مہنگائی مارچ‘‘کی تیاری مگر نیم دلی سے ہوتی نظر آرہی ہے۔توقع محض یہ باندھی جارہی ہے کہ نواز شریف کی دُختر محترمہ مریم نواز صاحبہ جب جاتی امراء سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوں گی تو ’’لگ پتہ جائے گا‘‘۔مریم نواز صاحبہ اپنی ذات سے مختص انگریزی والی Crowd Pullingقوت عرصہ ہوا ثابت کرچکی ہیں۔ تحریک انصاف کے 27مارچ والے اجتماع کا اثرزائل کرنے کے لئے مگر صرف ان کی ذاتی کشش پر جنونی لگن سے ہوئی تیاری کے بغیر تکیہ کرنا سیاسی اعتبار سے قطعاََ خوش گمانی اور خام خیالی ہے۔ مریم نواز صاحبہ اپنے ساتھ چلتے جلوس کو تعداد اور جذبے کے حوالے سے تحریک انصاف کے اسلام آباد میں 27مارچ کے روز منعقد ہوئے اجتماع سے زیادہ بڑا اور گرم جوش ثابت نہ کرپائیں تو ان کی Crowd Pullingوالی ساکھ کو بھی شدید دھچکہ لگے گا۔اپوزیشن اسلام آباد میں جو ’’میلہ‘‘ لگائے گی بالآخر مولانا فضل الرحمن ہی اپنے منظم حامیوں کی وجہ سے ’’لوٹ‘‘ لیں گے۔

دریں اثناء آنے والے کئی دنوں تک ہماری توجہ سپریم کورٹ پر بھی مرکوزرہے گی۔ فریقین کی جانب سے وہاں پیش ہوئے دلائل اور عزت مآب ججوں کے استفسارات پر مبنی ریمارکس ٹی وی سکرینوں پر رونق لگاتے رہیں گے۔ عمران خان صاحب کو اس دوران ’’ترپ‘‘ کے ایک نہیں بلکہ کئی پتے کھیلنے کی سہولت میسر رہے گی۔ جو تحریک عدم اعتماد وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوچکی ہے اس سے مفر تاہم ممکن ہی نہیں۔ اس نے جو’’آتش‘‘ بھڑکائی ہے وہ حکومت ہی نہیں اپوزیشن جماعتوں کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہوگی۔ہمارے کئی ادارے بھی اس کی ’’تپش‘‘ سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author