مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دیکھیں تماشا ہوتا ہے یا نہیں||رسول بخش رئیس

کپتان کو بھی تبدیلی کا سودا مہنگا پڑے گا۔ ہم تو کبھی نظام کے اندر نہیں رہے‘ مگر جو کچھ دیکھتے آئے ہیں‘ اور عمر ہی گزار دی ہے کہ نوکر شاہی‘ پارلیمان اور عدالتیں کیسے کام کرتی ہیں‘

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فکر کی بات نہیں ”وہی ہو گا جو منظورِ خدا ہو گا‘‘۔ حکمران گھرانوں اور ٹولوں نے شور مچا رکھا ہے‘ ایسا کہ کان پڑا سنائی نہیں دے پا رہا۔ ہنگامہ برپا ہے اور ہنگامی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں متحرک ہیں۔ سوچتا ہوں‘ جب سے کپتان نے اقتدار سنبھالا ہے‘ یہ ٹولے کب چین سے بیٹھے ہیں۔ کچھ کا تو سکون برباد ہو چکا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہوا کہ تیسری طاقت ابھر کر سامنے آ گئی‘ اور خاندانی سیاست کے بلند و بالا ایوانوں کے در و دیوار ہلا ڈالے۔ تیری باری‘ اب کے میری باری‘ اور باری باری کا تماشا چالیس سال تک لگا رہے تو جمود توڑنے کے لئے تیسری طاقت کا پیدا ہونا فطری سی بات ہے۔ سب نے دیکھا ہے کہ ساون میں جونہی حبس کی کیفیت کچھ دن رہتی ہے تو پھر آندھی‘ طوفان اور بادوباراں ‘خلا کو کیسے پُر کرتے ہیں۔ سیاست سماجی حالات کے تابع رہتی ہے اور اس کا کمال یہ ہے کہ معاشرتی دھاروں کا تعین بھی کرتی ہے‘ اگر یہ بامقصد اور بامعنی ہو۔ سیاست برائے سیاست کی بات اور ہے۔ اگرچہ کرپشن اور بد عنوانی کا بیانیہ مسلم لیگ نون کا پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے خلاف شروع ہوا‘ اور احتساب بیورو کی تحقیقات اور مقدمات کی بھرمار میں اپنے عروج کو پہنچا۔ شریف خاندان کے گماشتے چونکہ ان کے دفاع میں موثر کردار ادا کرتے رہے‘ تو ان کی کرپشن قانونی جائزیت کے تنگ دائرے میں گردش کرتی رہی۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے دوران اور اس کے بعد عمران خان نے دو بڑے سیاسی خاندانوں کی کرپشن کو ایک قومی بیانیے کا پکا رنگ دے دیا۔ سوائے ذاتی زندگی پر حملوں کے ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ ابھی تک شواہد تلاش کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب اقتدار کے گھوڑے سے اترے گا تو سب کو معلوم ہو جائے گا۔ کپتان اقتدار میں رہے یا نہ رہے‘ لاڑکانہ‘ لاہور اور ڈیرہ کے شاہی خاندانوں کو داغ دھونے کے لئے کئی عمریں درکار ہوں گی۔
مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ سیاست سے ہمیشہ کے لئے باہر ہو گئے ہیں یا ہو بھی سکتے ہیں۔ گلے سڑے معاشروں میں کرپٹ لوگو ں کے لئے زیادہ گنجائش رہتی ہے۔ وہی حکمران بنتے ہیں اور عوام بھی ان کے پیچھے جھنڈے لے کر بھاگتے ہیں جن کے پاس اقتدار ہو۔ شاہی خاندانوں کا زمانۂ قدیم سے طرزِ حکمرانی پُر زور رہا ہے کہ کیسے معاشرے میں غلبہ قائم رکھا جائے۔ آج کل سنا ہے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز اور ہرکاروں پر زیادہ زور ہے۔ بنیادی نکتہ اس طرزِ حکمرانی کا یہ ہے کہ با اثر سیاسی خاندانوں کو اپنے حلقے میں جوڑا جائے۔ پُرانے زمانوں میں خوف اور لالچ سے کام چلایا جاتا تھا۔ اب اقتدار میں شراکت داری‘ حصہ داری اور سیاسی سرمایہ کاری پر منافع خوری کے مواقع ضروری ہیں۔ جب تک پارلیمانی نظام ہے‘ سب سیاسی خاندانوں کی باریاں لگی رہیں گی۔ ملک کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک تین سو سے زیادہ خاندان نہیں‘ جو اس ملک کی سیاست پر غالب ہیں اور غالب رہے ہیں۔ اقتدار کا مبارک پرندہ انہی کے سر پر بیٹھتا ہے تو گھبرانے کی بات نہیں‘ یہ خاندان ضرور رہیں گے‘ اور سیاسی کاروبار بھی مگر باریوں سے تنگ عوام تیسری طاقتوں کو بھی میدان میں اتارتے رہیں گے۔
گزشتہ تین سالوں سے بہت کچھ کر کے دیکھ لیا۔ پہلا لانگ مارچ چھ ماہ کے اندر ہی ہوا۔ کئی دن پڑائو ڈالنے کے بعد لمبی تقریروں کی گھن گرج میں الٹے پائوں واپس ہو گئے۔ پھر سوچا‘ سب اکٹھے ہو جائیں تو کپتان اس طوفان کے سامنے کھڑا نہ ہو سکے گا۔ اب تو نام بھی بھول رہے ہیں‘ وہی ”جمہوری اتحاد‘‘۔ مناسب تو یہ ہو گا کہ اسے سابق حکمرانوں کا اتحاد کہا جائے۔ اس کے بنانے‘ بگاڑنے اور چلانے میں بھلا عوام اور جمہوریت کہاں سے آ گئے۔ بہت سے جلسے ہوئے کراچی‘ لاہور‘ پشاور اور پتا نہیں کون سا شہر تھا کہ اتحاد کے چمکتے ستاروں سے روشن نہ ہوا تھا‘ مگر وہ روشنی بھی ماند پڑ گئی‘ اور سب تھک ہار کر غیر اتحادی سیاست میں مصروف ہو گئے۔ داد دینا پڑے گی کہ آرام سے کبھی نہیں بیٹھے کہ کپتان کی حکومت میں ملک کو ”برباد‘‘ ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ اب پیپلز پارٹی والوں کو بھی خیال آیا ہے کہ ”جمہوری اتحاد‘‘ سے نکلنے کا کتنا ملک کو نقصان ہو گیا‘ اور اب ان کا اتحادیوں سے قدم سے قدم ملا کر چلنا ہی ملک کو بے روزگاری‘ غربت اور مہنگائی کی دلدل سے نکال سکتا ہے۔ عوام شعور کی جس سطح پر زندگی گزار رہے ہیں‘ ان کے لئے جو کچھ ماضی میں کرپشن ہوئی‘ ادارے تباہ ہوئے‘ اسی ارب ڈالرز کے قرضے لئے گئے اور جو بجلی اور گیس کی خریداری کے معاہدے کئے گئے‘ ان کے معیشت پر دور رس نتائج کا ذکر کرنا وقت کا ضیاع کرنے کے مترادف ہے۔ یہ حکومت ہو یا کوئی اور چالیس سالوں کا کوڑا کرکٹ اٹھانے کے لئے بہت ہمت‘ وقت اور صبر کی ضرورت ہے۔ نظام کے اندر‘ میں عدالتی کی بات ہرگز نہیں کر رہا‘ کیا کیا الجھنیں ہیں کہ کوئی کرنا بھی چاہے تو کچھ نہیں کر سکتا۔
کپتان کو بھی تبدیلی کا سودا مہنگا پڑے گا۔ ہم تو کبھی نظام کے اندر نہیں رہے‘ مگر جو کچھ دیکھتے آئے ہیں‘ اور عمر ہی گزار دی ہے کہ نوکر شاہی‘ پارلیمان اور عدالتیں کیسے کام کرتی ہیں‘ اور مفاد پرست ٹولوں نے یونین بازی سے ریاستی اداروں کو کیسے مفلوج کر رکھا ہے۔ کپتان کو بھی کچھ تو ادراک ہونا چاہئے تھا۔ تبدیلی کے ایسے سہانے خواب دکھائے کہ نوجوان سب سے آگے اور متوسط طبقوں کے سب مرد و خواتین تبدیلی فوج کے رضا کاروں میں صف بندیاں کرنے لگے۔ اچھا ہے کہ جو اب کہہ رہے ہیں کہ ”میں کچھ نہیں کر سکا‘‘۔ یہ مشکلات‘ جہاں جہاں اور جب جب رکاوٹیں پیش آئیں‘ یہ سچ کہہ دینا زیادہ مناسب تھا۔ ہمارا پیارا پارلیمانی نظام حکمرانوں کا نظام ہے‘ عوام کا نہیں۔ ہم نے دو تین خاندانی جماعتوں کے نمائندوں میں سے ہی کسی کو چننا ہوتا ہے۔ ان کے لئے سیاست کھیل تماشا ہے۔ آج کل اس کھیل کا رخ عدم اعتماد کی طرف ہے۔ سیاسی گھرانے اور گروہ برملا اور خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ آج ایک گروہ تو کل دوسرا۔ اس میں کیا نیا پن ہے‘ وہی پُرانا گھوڑے خریدنے اور بیچنے والا سیاسی کاروبار۔ اندر باتیں جس رازداری سے بھی ہوں‘ ان کا اندازہ باہر بیٹھے ہم درویشوں کو بہ آسانی ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ ہم یہ سب کچھ کئی دہائیوں سے کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ بات یہ ہوتی ہے کہ اگر آپ ہمارا ساتھ دیں‘ وہ ہمارے ساتھ مل جائیں تو ہم حکومت کو آسانی سے ”گھر بھیج‘‘ سکتے ہیں۔ بالکل درست‘ ہمیں کیا ملے گا‘ اور اگر ناکام ہو گئے تو؟ اور اگر وقت آنے پر کچھ پرندے اڑ کر کہیں چلے گئے تو؟ ہمیں زیادہ غورکرنے اور دوستوں سے مشورے کے لئے وقت دیں۔ ہماری قسمت میں یہی جمہوری سیاست‘ اور ہمارے نصیب میں یہی سیاسی گھرانے ہیں۔ بالکل کپتان کی حکومت گرا سکتے ہیں‘ اگر سب مل جائیں‘ بالکل ممکن ہے‘ مگر کپتان گھر نہیں جائے گا‘ میدان میں رہے گا‘ اور ایک اورکھیل شروع ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: