اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پی ڈی ایم کا عدم اعتماد لانے کا اعلان||سارہ شمشاد

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اختلافات کے باوجود اپوزیشن عمران خان کے جانے پر متفق ہے یعنی ایک ہی شخص ہے جو اپوزیشن کو بری طرح کھٹک رہا ہے اور وہ اس ملک کا وزیراعظم عمران خان ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ فضل الرحمن نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا ہے جبکہ حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ کسی میں جرات نہیں۔ اطلاعات ہیں کہ پی ڈی ایم 2سے 3ہفتوں میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی خواہاں ہے اور اس حوالے سے بھرپور تیاری بھی کرتے ہوئے دعویٰ کررہی ہے کہ اس مرتبہ ان کے نمبرز پورے ہیں جبکہ وہ 10سے 15 پی ٹی آئی کے مرمبران بھی ساتھ ہونے کا دعویٰ بڑے دھڑلے سے کررہے ہیں اور فلور کراسنگ کی بھی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں یعنی اگلے آنے والے 2سے چندہفتوں میں پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت بڑھنے کا امکان ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ پی ڈی ایم کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں اور ’’بڑوں‘‘ کا ہاتھ حکومت کے سر سے چونکہ اٹھ چکا ہے اور فصلی بٹیرے بھی اگلے الیکشن کی آمد کے ساتھ ہی دوسری جماعتوں میں اڑان بھرنے کو تیار ہیں جبکہ ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی ملاقات اس تاثر کو مزید تقویت دے رہی ہے کہ حکومت بے آسرا ہوچکی ہے اب اپوزیشن کی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا ناکام، اس بارے کچھ بھی بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
تاہم یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس مرتبہ صورتحال ماضی کی نسبت خاصی مختلف اس لئے ہے کہ آج عام آدمی جس قدر مسائل کا شکار ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بدترین مہنگائی، غربت، بیروزگاری نے عوام کا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا ہے جبکہ حکومت سب اچھا کی رٹ لگائے ہوئے ہے تاہم جب سے وزیراعظم نے اپنے وزراء کو ایوارڈ سے نوازا ہے اس کے بعد سے وزراء بھی اپنی حکومت سے نالاں اور کھنچے کھنچے نظر آتے ہیں بالخصوص شاہ محمود قریشی تو برملا اس ناراضی کا اظہار بھی کرچکے ہیں اور اس سلسلے میں معاون خصوصی برائے اسٹیبلشمنٹ کو خط بھی لکھ دیا ہے کہ ان کے کپتان اپنے ہی وائس کپتان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ یاد رہے کہ ٹاپ 10 وزراء کو ایوارڈ دینے سے وفاقی کابینہ میں دراڑیں پڑنے کی خبر کوئی نئی بات نہیں تاہم شاہ محمود قریشی، حماد اظہر، فواد چودھری، پرویز خٹک اور ملک امین اسلم ایوارڈز سے محروم ہیں۔ اسی طرح خسرو بختیار، شیریں مزاری کی کارکردگی بھی انتہائی مایوس کن ہے۔ ٹاپ 10کو ایوارڈز سے نوازنے کا صاف سیدھا مطلب تو یہی لیا جارہا ہے کہ وزیراعظم اپنی 50سے زائد کابینہ میں سے 40 وزراء کی کارکردگی سے مطمئن نہیں جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوگی لیکن کوئی یہ پوچھنے کی کوشش نجانے کیوں نہیں کرنا چاہتا کہ اس قسم کے مقابلوں کا مقصد مثبت مقابلے کی فضا کو جنم دینا ہے۔
اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ منتخب نمائندوں کے لئے سب سے بڑا ایوارڈ عوامی مقبولیت ہے اس لئے اگر عام آدمی کے مسائل حل نہ ہوں تو ایسے تمام ایوارڈز بے حیثیت رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف حکومتی کارکردگی کو جانچنے کیلئے عوام آئندہ الیکشن میں اپنے ووٹ کی طاقت سے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔ ادھر وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر تسلیم کیا ہے کہ وہ کمزور نظام کی بنا پر بڑی تبدیلی نہیں کرسکے تو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن اصلاحات کا وہ 2018ء کے الیکشن سے قبل رونا روتے تھے ان کو لاگو کروانا بھی تو انہی کی حکومت کی ذمہ داری تھی مگر افسوس کہ ہمارے پیارے وزیراعظم آج بھی خود کو اپوزیشن موڈ میں ہی سمجھتے ہیں اسی لئے تو ہر وقت سسٹم کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں اب کون خان صاحب کو یہ بتائے کہ بھئی اگر سسٹم ڈلیور نہیں کرپارہا تو آپ کے پاس اختیار ہے اس کے متبادل نظام اسمبلیوں سے پاس کرواکر سامنے لایا جائے تاکہ عوام کے مسائل کوان کی دہلیز پر حل کیا جاسکے کیونکہ 3برس سے زائد گزرنے کے باوجود ایک وزیراعظم کی جانب سے کمزور نظام کو اپنی ناکامی کی بڑی وجہ قرار دینا کوئی زیب نہیں دیتا اس لئے وزیراعظم عمران خان کو اپنے اتحادی اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ چودھری شجاعت کے اس مشورے پر ضرور عمل کرنا چاہیے کہ حکومت اشیائے ضروریہ سے جی ایس ٹی واپس لے کیونکہ اگر حکومت آئندہ بھی اقتدار کا ہما سجانے کی خواہاں ہے تو اسے عوام کو صحیح معنوں میں ڈلیور کرنا ہوگا۔ اگرچہ وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ کیا ہے اور صوبائی حکومتوں کو اس کی سفارش کی ہے جس کی ایک بڑی وجہ تو اس کے مہنگائی کا بے حد بڑھ جانے کا ازخود اعتراف ہے جو کسی حد تک خوش آئند ہے۔ اسی طرح وزیراعظم تاجروں اور بزنس مینوں سے ملاقاتیں کرکے انہیں بھی اپنے ورکرز کی تنخواہیں بڑھانے کی درخواست کرکے اپنے تئیں ایک اچھا کام کررہے ہیں لیکن دوسری طرف اس حقیقت سے بھی منہ موڑا نہیں جاسکتا کہ پرائیویٹ سیکٹر جس طرح سے اپنے ملازمین کا خون چوس رہا ہے اور جو اجرتیں انہیں دے رہا ہے وہ کسی طور بھی سرکاری ملازمین کے مطابق نہیں ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اختلافات کے باوجود اپوزیشن عمران خان کے جانے پر متفق ہے یعنی ایک ہی شخص ہے جو اپوزیشن کو بری طرح کھٹک رہا ہے اور وہ اس ملک کا وزیراعظم عمران خان ہے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے لگ بھگ ایک سال قبل ہی ایوان سے ووٹ آف کانفیڈینس لیا تھا۔ اب اگر اپوزیشن اس قدر پراعتماد ہے تو بہت ممکن ہے کہ اس کی نمبر گیم پوری ہو اور کسی طرف سے اسے بھی تھپکی مل گئی ہو۔ تاہم اس مرحلے پر ترین فیکٹر انتہائی اہم کردار حسب روایت ادا کرے گا۔ یاد رہے کہ پچھلی مرتبہ تو جہانگیر ترین نے ایک بار پھر سچی یاری سب پر بھاری کا ثبوت دیا تھا لیکن اس مرتبہ معاملہ کچھ مختلف ہو بھی سکتا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی جہانگیر ترین کو متعدد بار پی ٹی آئی سے باہر قرار دے چکے ہیں۔ ویسے قریشی اور ترین کی سیاسی چپقلیش بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے تاہم سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی بھلے یہ کہتے رہیں کہ جہانگیر ترین تحریک انصاف کی طرف سے رخ موڑ چکے ہیں اور اپنا جہاز پی پی اور (ن) لیگ کی طرف موڑنے کا اشارہ بھی دے چکے کی بات کرتے ہیں۔ تاہم خان اور ترین کی یاری کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور اس مرتبہ بھی وہ اپوزیشن کوایک بڑا سرپرائز دیں گے۔ ادھر اگر مسلم لیگ (ن) میں پھیلے انتشار کی بات کی جائے تو واقعی ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن نے اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مارنے کا تہیہ کیا ہوا ہے اور معاملہ ’’عزت سادات بھی گئی‘‘والا بھی ہوسکتا ہے۔ اگر ایک لمحے کے لئے یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اپوزیشن حکومت یا وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں ناکام ہوجاتی ہے تو اس کے بعد اپوزیشن کا کیا مستقبل ہوگا، کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ۔
ٹکڑوں میں بٹی پی ڈی ایم شاید اپنی زندگی کا یہ سب سے بڑا جواء کھیل رہی ہے کہ چلو ابھی تو حکومت کو لتاڑنے کے لئے اس کے پاس کوئی جواز تو ہے لیکن سوچئے وہ اس تحریک میں ناکام ہوگئی تو پھر مسلم لیگ (ن)، پی پی یا مولانا سب بیروزگار ہوجائیں گے اور عمران خان کو کھل کر کھیلنے کا موقع میسر آجائے گا لیکن انہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بغضِ عمران میں وہ کہیں اس قدر اندھے نہ ہوجائیں کہ واپسی کا کوئی راستہ نہ بچے اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ جذبات میں بہنے کی بجائے زمینی حقائق کو بھی مدنظر رکھا جائے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت تو تحریک عدم اعتماد پر ازخود تقسیم ہے اور پارٹی بیانیہ انتشار کا شکار نظر آتا ہے۔ اسی طرح مولانا صاحب بھی سیاسی بیروزگاری ایک عرصے سے کاٹ رہے ہیں جبکہ پی پی کے پاس اسمبلی میں اتنی سیٹیں نہیں کہ وہ حکومت کے لئے اکیلی مشکلات پیدا کرسکے خاص طور سے جب سے سینیٹ میں گیلانی والا معاملہ ہوا ہے۔ رہی ایم کیو ایم تو وہ تو صرف ایک وزارت کی مار ہے اسے حکومت میں کون ہے کون نہیں اس سے کوئی غرض نہیں اسے تو صرف اپنے آپ سے ہی دلچسپی ہے اس لئے اپوزیشن کو چاہیے کریز سے نکل کر چوکے چھکے لگانے کی بجائے حالات کی نزاکت کو سمجھے اور حکومت کو اس کی مدت مکمل کرنے کا موقع فراہم کرے اور جمہوریت کے سفر کو مزید مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اور ایوان میں عوام کی بھرپور نمائندگی کرے مگر شاید پی ڈی ایم کے پاس زندہ رہنے کے لئے اس کے سوا کوئی دوسری چوائس نہیں تو شاید وہ اب ترپ کا یہ پتہ کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرے گی تاکہ اس کی کچھ عزت باقی رہ جائے کیونکہ ماضی میں جس طرح پی ڈی ایم خزاں کے پتوں کی طرح بکھری اس سے حکومت کو مضبوط ہونے کا موقع ملا اس لئے ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سیاست کی بجائے عوامی ایشوز کو حل کرنے پر اپنی توجہ صرف کریں، یہی وقت کی پکار ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: