اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستانی معاشرے کے لیے طلبہ یونین کی بحالی کیوں ضروری ہے؟||اسد جوتہ

9 فروری کو ملک بھر کے طلبا سیاہ دن کے طور منا رہے ہیں اور طلبہ یونین کی بحالی کے بنیادی مطالبہ کے ساتھ دوسرے مطالبات پر تمام ترقی پسند طلبہ تنظیمیں ملک گیر پر امن احتجاج کر نے جا رہی ہیں۔
اسدجوتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنرل ضیاء کی طرف سے 9 فروری 1984 میں طلباء مزاحمت کے خوف سے طلباء یونین پر پابندی لگائے 38 سال ہونے کو ہیں۔ مختلف طلبہ گروہوں کے درمیان تشدد و لڑائی جھگڑے کی بنیاد پر پوری طلبہ سیاست پر لگی اس پابندی کا اگر جائزہ لیا جائے تو کیا طلبہ سیاست پر پابندی اور ایفیڈیوٹ دستخط کروانے کے باوجود ان 36 سالوں میں کوئی تشدد کے واقعات نہیں ہوئے؟

ضیاء کی یونینز پر پابندی لگانے کے بعد پیپلز پارٹی حکومت نے ایک ایکٹ کے ذریعے 1989 میں یونینز کو بحال کر دیا۔ چار سال بعد 1993، سپریم کورٹ میں اسماعیل قریشی بنام محمد اویس قاسم (سیکٹری جنرل اسلامی جمیعت طلبہ) کیس کے فیصلہ میں جسٹس افضل نے فیصلہ دیا جس میں صاف یونین پر پابندی تو نہیں لگائی گئی لیکن اس کے تحت ہر تعلیمی ادارہ طالب علم سے حلف نامہ لے گا کہ وہ اگر سیاست میں ملوث ہوا تو ادارہ اسے نکالنے کا حق رکھتا ہے ساتھ ہی والدین سے بھی دستخط کا کہا گیا۔

اس سب کا فیصلہ بھی مختلف طلبہ تنظیموں میں لڑائی جھگڑوں کی بنیاد پر کیا گیا اور باقاعدہ اداروں کے سربراہان اور کچھ طلبہ سے آرا بھی لی گئیں۔ پھر بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد خان رئیسانی کے متعارف کروائے گئے اس معاہدہ خط (undertaking) کو دیکھتے ہوئے حلف نامے کا پابند کیا گیا۔ فیصلہ میں ”indulge in Politics“ کی اصطلاح استعمال کی گئی اور اس کا تمام اختیار متعلقہ ادارہ کو دیا گیا کہ وہ اس کو اپنے علاقہ، کلچر و اکثریتی طلبہ کو دیکھتے ہوئے اس کی تعریف کرے۔

کیس کی کاروائی بڑی دلچسپ ہے جج صاحب فرماتے ہیں ہم مکمل طور پر مطمئن ہیں کہ یونین کے اقلیتی نمائندے اکثریتی طلبہ کا آزادی اظہار اور آزادی کا حق مارتے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ یونین کے جو نمائندگان تعلیمی ادارے کی پالیسی ساز باڈی کا حصہ ہیں یہ نا صرف اساتذہ کے وقار پر سوال ہے بلکہ پورے ادارہ کے وقار پر سوال ہے آگے سے یہ نمائندگان ایسی کسی باڈی کا حصہ نہیں رہیں گے اور اپنے جو مطالبات ہوں وہ درخواست دیں گے سٹوڈنٹ افئیرز کے سربراہ یا ادارہ کے سربراہ کو اور اگر کوئی ایسے معاملہ ہوا تو سپریم کورٹ سے بھی اس کے لئے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کا اثر یہ ہوا کہ کاغذی طور پر تو یونین پر پابندی نہیں لگی پر یونین کے وجود اور اس کی کام کے طریقہ کار پر قدغن لگا دی گئی۔

اسلامی جمیعت طلبہ نے اس فیصلہ کی بھر پور حمایت کی اور عدالت میں اپنے نوٹس بھی جمع کرائے اور کہا اداروں میں نظریہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع بہت ضروری ہے اور طلبہ کی فکری و نظریاتی تربیت کے لئے ایسی تنظیمیں ضرور ہونی چاہیں۔ سپریم کورٹ نے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے قرار داد مقاصد کا حوالہ بھی دیا کہ کیسے نظریہ پاکستان کا دفاع ضروری ہے اور اداروں کو تاکید کی کہ وہ نظریہ پاکستان کا پرچار کریں نہیں تو انہیں حق نہیں پہنچتا کہ وہ بطور ادارہ ادھر کام کریں۔

سپریم کورٹ نے کیس کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے کہا کہ اس فیصلہ پر وقتاً فوقتاً ریویو بھی کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے طلبہ یونین کو صرف تشدد کے ساتھ جوڑ دیا اور اسی فیصلہ کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں غیر سیاسی کلچر پروان چڑھا۔

جہاں تک violence کا سوال ہے کہ طلبہ یونین پر تشدد ہوتی ہیں تو یونین تو پارلیمنٹ کی طرح کا ایک ادارہ جہاں مختلف تنظیموں سے طلبہ، مسائل کی نمائندگی اور ان پر بات کرنے کے لئے جمہوری طور پر ایلیکٹ ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں طلبہ یونین بغیر کسی رکاوٹ کے ایک سود مند ادارہ ہے۔

اس دلیل اور کیمپس میں مسلح تشدد و لڑائی جھگڑوں کی اگر تاریخ کو دیکھا جائے یہ بطور خود ریاستی پراجیکٹ تھا۔ 1979 میں ضیائی آمریت نے افغانستان جنگ کے لئے ہتھیار لہرائے اور پاکستانی یونیورسٹیز میں ترقی پسند طلبہ و آوازوں کو نشانہ بنانے کے اسلامی جمیعت طلبہ کے تھنڈر سکواڈ جیسے جتھوں کو اسلحہ سے لیس کیا۔ پھر ریاست نے اسی تشدد جس کو اس نے جلا دی تھی کو بنیاد بنا کر طلبہ سیاست پر پابندی عائد کر دی۔

اگر اس سب کا بغور جائزہ لیا جائے تو ضیاء کے طلبہ یونین پر پابندی کے بعد کیمپس میں تشدد کے واقعات بڑھے۔ دائیں بازو کے جتھوں نے ریاستی سرپرستی میں تعلیمی اداروں میں طلبہ پر اثر و رسوخ اور کنٹرول قائم کرنے کے لئے جسمانی طور پر طلبہ نشانہ بنایا۔ طلبہ سیاست ساٹھ اور ستر کی دہائی کے نظریاتی اور انتخابی مقابلوں سے منتقل ہو کر کر ان لوگوں مسابقتی جاگیر کا ذاتی میدان بن گئی جو پیسہ اور طاقت کے بل بوتے پر حکمرانی کرتے ہیں۔

ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان کے خلاف تحریک میں عروج والی طلبہ سیاست کمزور اور قدامت پسند شکل اختیار کر گئی جس کا اجتماعی مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ طلبہ کی مزید ذہن بندی کا کام تعلیمی پالیسیوں اور نصاب سے لیا گیا جس سے ان کے اندر تنقیدی سوچ پروان نا چڑھے اور وہ حکومت، اس کی نظریاتی شناخت اور سپرا سٹرکچر کے وفادار رہیں۔ نظریاتی موافقت پیدا کرنے کے لئے بائیں بازو کے اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا، ان کی جگہ قدامتی سخت گیر اساتذہ کو لگایا گیا اور نصاب میں رجعتی سوچ کے عکاس مواد کو ڈالا گیا۔

بتدریج کیمپس کی بحثیں جو کبھی تعلیمی نظام، سیاست، معیشت، حکومت پر ہوتی تھیں کی جگہ اخلاقیات اور کلچر کے سوالات نے لے لی، جن کو تہذیبوں کے تصادم کے بیانیہ، عسکریت پسندی و مذہبی قومیت سے نصاب میں جلا بخشی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی اداروں کی بے ڈھنگی بڑھوتری ہوئی اور تعلیم ایک کموڈیٹی بنتی رہی جس کو طلبہ پیسہ دے کر لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے خاص کر سندھ اور بلوچستان کے ذرائع سے محروم طبقات کا لاوا ابل پڑا اور کسی بھی قسم کی طلبہ مزاحمت کو دبانے کے لئے تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی فورسز کو گھسایا گیا۔

حکام نے وہ سب پا لیا جو وہ چاہتے تھے طلبہ کی نرم و شائستہ کھیپ اور کنٹرولڈ غیر سیاسی کیمپس کلچر جس پر وہ بار بار زور دے رہے تھے کہ طلبہ بغیر کسی خلفشار کے تعلیم جاری رکھیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ پابندی اور طلبہ یونین کی عدم موجودگی کے اتنے سالوں کے باوجود پاکستان کا تعلیمی نظام صرف گرا ہے۔ 2018 میں ایک ادارہ نے پاکستانی کے اعلیٰ تعلیم نظام کو تمام سروے کیے گئے ممالک سے بد ترین قرار دیا۔ کوئی بھی پاکستانی یونیورسٹی دنیا کی 200 بہترین یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں نہیں آتی۔

تشدد اور عدم برداشت تو کیمپس میں پھر بھی مستقل رہے کہیں جمیعت کی اجارہ داری کی صورت میں یا سیکورٹی فورسز کی مسلسل موجودگی یا مداخلت کی شکل میں جس کا نتیجہ دہشت گردی کے پرچوں اور جبری گمشدگیوں کی شکل میں نکلا۔ پچھلی ایک دہائی میں تعلیمی اداروں میں سکالرز پر کئی حملے ہوئے جس کے نتیجہ میں سو سے زائد چل دیے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔

تعلیمی نظام جو کبھی ماہر دانشور و سائنسدان پیدا کرتا تھا اب ان اداروں کی وجہ سے مشہور ہے کہ جہاں مشال پر توہین کا الزام لگا کر جتھا اسے بے دردی سے مار دیتا ہے، جہاں جنید حفیظ جیسے سکالرز سلاخوں کے پیچھے اپنی شومی قسمت کو رو رہے ہیں کہ جہاں آوازوں پر قدغن اور پابندی ہے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس پابندی نے کوئی امن اور اچھی تعلیم نہیں دی جس کی بنیاد پر یہ سب کیا گیا تھا۔

آج اس تعلیمی نظام میں اداروں میں احتساب کا صاف فقدان ہے۔ طلبہ یونین کی غیر موجودگی نے حکام کو اس بات سے بے نیاز کر دیا ہے کہ کوئی نیچے سے ان سے کارکردگی اور اصلاح کے لئے دباؤ ڈال سکے۔ جس کی وجہ سے اقربا پروری اور کرپشن کلچر پروان چڑھا ہے۔

یہ انتظامی نا اہلی اس وقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے جب پریس میں یونیورسٹیز کی مالی کرپشن، دور دراز علاقوں سے آئے ہزاروں فیس دیتے طلبہ کو رہائش کی عدم فراہمی، یونیورسٹی انتظامیہ اور سیکورٹی حکام کی جانب سے ہراسمنٹ اور بلیک میلنگ کی رپورٹس آتی ہیں۔

اس احتسابی فقدان کی بدولت ان سالوں میں HEC بجٹ کا جی ڈی پی میں بہت سارا حصہ نظر انداز کیا۔ موجودگی حکومت نے HEC کے متعدد فنڈز روک دیے جس سے طلبہ مستفید ہو رہے تھے۔

یونینز طلبہ کی ایک اجتماعی طاقت ہوتی ہیں جو طلبہ کے فیس سے لے کر ہاسٹل و پالیسیز کے معاملات پر حکام سے بات چیت کرتی ہیں۔ آج جو بھی طالبعلم انتظامی بے رخی، نا اہلی یا کرپشن پر بات کرتا ہے تو اسے یونیورسٹی سے نکال دینے کا خوف اور یہاں تک کے دہشتگردی کے پرچوں سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔

کیمپس پر جمہوری روایات کے دوبارہ آنے سے، طلبہ کو انتظامیہ اور حکومت کو احتساب کے دائرے میں لانے کے لئے قانونی تحفظ حاصل ہو گا اور اس استثناء کا خاتمہ ہو گا۔ اس سے تعلیمی مشکلات اور بجٹ، پالیسیز اور ریگولیشن پر تجزیہ کہ آیا یہ طلبہ کے حق میں بہتر ہیں کہ نہیں اور مکالمہ کا کلچر پروان چڑھے گا۔ یہ صرف طلبہ کی ضرورت نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام کے لئے صحت بخش ہے۔

پاکستان میں یہ جملہ بار بار دہرایا جاتا ہے کہ طلبہ کو سیاست کے بجائے تعلیم پر توجہ دینی چاہیے کہ سیاسی سرگرمی، تعلیمی کارکردگی کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس بات کا حقیقت سے بہت کم تعلق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا کی اچھی یونیورسٹیاں آکسفورڈ سے لے کر ہارورڈ تک سب میں طلبہ یونینز تنظیمیں ہیں۔ جب کہ پتہ نہیں کیوں پھر ہمارے غیر سیاسی اور کنٹرولڈ ادارے دنیا میں بدترین شمار ہوتے ہیں۔

طلبہ سیاست اور تعلیمی نتائج پر تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ طلبہ سیاسی لیڈرشپ بہت سے سیکھنے سمجھنے کے نتائج کے معاملات جیسے علمی پیچیدگیوں، علم کا حصول و اطلاق، باہمی اور دوسروں سے تعلقات میں قابلیت کے اعتبار سے مثبت ترقی سے جڑی ہوتی ہے۔ محقق یہ کہتے ہیں کیوں کہ طلبہ کی سیاسی سرگرمیاں انہیں حالات اور لوگوں کا سامنا کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں جو اپنے بارے میں سیکھنے، اپنے سے مختلف لوگوں کے ساتھ کام کرنے، شہری ذمہ داری کے تصورات اور اپنی برادری اور معاشرے میں مسائل کے حل کے لیے حوصلہ افزا ہیں۔

اس قدر تعلیمی اداروں کو غیر سیاسی کیا گیا ہے کہ آج ہر دوسرا طالبعلم سی ایس ایس کر کے سرکار کا نوکر بننا چاہتا ہے۔ طلبہ یونینز کی بحالی پاکستان میں جمہوری توسیع کے لیے ایک بہت بڑا قدم ہو گا۔ طلبہ یونینز نوجوان، تعلیم یافتہ متوسط ​​اور محنت کش طبقے کے مردوں اور خواتین کے لیے سیاست میں آنے کے لیے پلیٹ فارم کا کام کریں گی، یہ سیاسی جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کریں گی اور نوجوانوں کو نمائندگی فراہم کرنے کے لیے جماعتوں پر دباؤ بڑھائیں گی۔

طلبہ یونینز کیمپس میں جمہوری مباحثے اور غیر متشدد انتخابی مقابلے کے لیے ایک تسلیم شدہ جگہ کی اجازت دیتی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف نسلی، لسانی اور مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلبہ مشترکہ نظریات کے گرد اتحاد بنا سکتے ہیں۔ ماضی میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ یہاں تک کہ مختلف آزاد تنظیموں کے درمیان، کبھی کبھار تصادم کے باوجود، ایک دوسرے کے وجود کی عمومی قبولیت اور رواداری تھی۔ جب یہ جگہ چھین لی گئی تو وہ رشتے بھی ختم ہو گئے جو اس نے نسلی اور مذہبی خطوط پر طلباء کے لیے آسان بنائے تھے۔

آج کی غیر رسمی طلبہ سیاست (جیسے کہ کچھ یونیورسٹیوں میں یونینوں کے متبادل کے طور پر غیر سیاسی لسانی کونسل کے ڈھانچے ) کو نسلی یا مذہبی خطوط پر سختی سے تقسیم کیا گیا ہے۔ کونسلوں کا لسانی اور نسلیں بنیادوں پر الگ کیا گیا ڈھانچہ اکثر طلباء کے درمیان سیاسی اور نظریاتی تعاون کو کم کرنے کا کام کرتا ہے، کونسل کے رہنما ثقافتی اختلافات کو اجاگر کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنی شناخت پر مبنی اختیارات کے دائروں کی حفاظت کریں۔ اس کے نتیجے میں وقتاً فوقتاً نسلی جھڑپیں بھی ہوتی ہیں، جو انتظامیہ کو طلباء کو تقسیم کرنے کے لیے شناخت کے موجودہ خطوط کا شکار کرنے کے قابل بناتی ہے۔

ایسوسی ایشن کے حق کے ساتھ یونینوں کو دوبارہ متعارف کرانا مختلف ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لیے اپنے اختلافات کو پرامن طریقے سے بحث و مباحثہ کے ذریعے، تعاون کے لیے مشترکہ بنیاد تلاش کرنے اور صرف شناخت پر مبنی سوالات کے بجائے اپنی توانائیاں ایک بار پھر اجتماعی طلبہ کے مسائل پر مرکوز کرنے کے لیے ایک جگہ دوبارہ تخلیق کرے گی۔ جب کہ طلباء اب بھی اپنی شناخت کے ارد گرد آرگنائزیشن بنانے کے لیے آزاد ہوں گے، لیکن اب یہ ان کے لیے دستیاب واحد آپشن نہیں رہے گا۔ اس سے نسلی اور مذہب کے گرد تشدد کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

طلبہ یونینوں پر پابندی اور طلبہ کے ذہن اور آزادی اظہار کو کنٹرول کرنے کی اس سے متعلقہ کوششیں، ایک بہت بڑی تاریخی غلطی تھی جو پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس نے پاکستانی معاشرے کو بنیادی طور پر متاثر کیا ہے، جس سے پوری نسلوں کو نتیجہ خیز، شعوری اور تعمیری طریقوں سے سوچنے اور عمل کرنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اس نے ہماری یونیورسٹیوں کو دم گھٹنے والی بیرکوں میں تبدیل کر دیا ہے جو تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہیں جہاں طلباء کو قابل خرچ اشیاء کے طور پر سمجھا جاتا ہے اور کسی تنقیدی سوچ یا بحث کی اجازت نہیں ہے۔

9 فروری کو ملک بھر کے طلبا سیاہ دن کے طور منا رہے ہیں اور طلبہ یونین کی بحالی کے بنیادی مطالبہ کے ساتھ دوسرے مطالبات پر تمام ترقی پسند طلبہ تنظیمیں ملک گیر پر امن احتجاج کر نے جا رہی ہیں۔

_

یہ بھی پڑھیے:

جویریہ اسلم  کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: