اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حکومت کو میڈیا سٹریٹجی کی ضرورت ہے!!||سارہ شمشاد

اگر اقتدار کے بقیہ ماندہ عرصے میں بھی حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موجود نے اپنی ڈگر نہ بدلی تو پھر حکومت کسی کو دوش نہیں دے پائے گی اس لئے ضروری ہے کہ حکومت اپنے کارناموں کی مناسب تشہیر کے ساتھ میڈیا سٹریٹجی کی اہمیت کو بھی سمجھے، یہی وقت کی پکار ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سارہ شمشاد
تحریک انصاف کی ساڑھے 3سال کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو اس میں بے پناہ سقم اور خامیاں نظر آئیں گی۔تحریک انصاف کی حکومت سے عوام کو جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں اور نتیجہ یہ نکلا کہ اب تو اس کے اچھے اور مثبت کام بھی اس بری کارکردگی میں دھندلاسے گئے ہیں جبکہ ادھر عالمی ادارے اور ماہرین معیشت حکومتی کارکردگی بہتر ہونے کی مسلسل بات کررہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر تحریک انصاف کی اس عمدہ کارکردگی سے عوام کیونکر مستفید نہیں ہورہے تو اس کی ایک بڑی اور صاف سیدھی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی میڈیا مینجمنٹ سٹریٹجی انتہائی ناقص ہے اور اس کا خمیازہ اسے آنے والے الیکشن میں ضرور بھگتنا پڑے گا۔ اب اس کو حکومت کی سادگی سمجھئے یا پھر میڈیا سٹریٹجی کی اہمیت بارے لاعلمی کہ اس نے ساڑھے 3برس گزرنے کے باوجود بھی اس اہم ترین معاملے کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ الٹا وہ میڈیا جس نے پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ support کیا اس پر ہی زمین تنگ کردی گئی۔ اگرچہ سوشل میڈیا کے ذریعے پی ٹی آئی کی کارکردگی کو ہائی لائٹ کیا گیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ آج بھی بہت سارے عوام سوشل میڈیا تک رسائی نہیں رکھتے اس لئے حکومتی کارکردگی بارے انہیں کچھ زیادہ علم نہیں ہے جبکہ اخبارات میں حکومتی کارناموں اور منصوبوں کے اشتہارات نہ ہونے کے باعث بھی وہ عوام کو اس طرح سے اپنی کارکردگی بارے نہیں بتاسکے جس کی آج digitalization کے دور میں توقع تھی۔ تاہم اگر ہم یہاں بات حکومتی وزراء کی بھی کریں تو ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں حکومتی کارکردگی کے ڈونگرے بجاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو صورتحال اس قدر مضحکہ خیز ہوجاتی ہے کہ ایک وزیر دوسرے وزیر کے بیان کی تردید کرتا ہے اور یوں عوام اس چکر میں ایسے پھنس جاتے ہیں کہ اسے سمجھ ہی نہیں آتی کہ کون کیا کہہ رہا ہے یہی نہیں بلکہ کو صحیح ہے اور کون غلط۔ اگر ہم ادھر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے دور حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہ جاتا کہ ان کی میڈیا سٹریٹجی اچھی تھی لیکن پی ٹی آئی کے پاس اس کی شدید قلت ہے۔ یہ درست ہے کہ سابقہ حکومتوں نے بعض میڈیا ہائوسز کو بے پناہ اشتہارات دیئے تاکہ وہ اس کی حکومت کی ہر وقت جے جے کار کرتے رہیں۔ آج اگر میاں نوازشریف عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود دو برس گزرنے sy لندن میں زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں تو اس کا کریڈٹ اس کی میڈیا سٹریٹجی کو جاتا ہے کہ اس نے بالخصوص مریم نواز اور ان کے میڈیا سیل نے اس حد تک واویلا کیا کہ ایک وقت میں تو institution دبائو میں محسوس ہوئے۔ آج جو غلط کو صحیح مسلم لیگ ن قرار دیتی ہے تو یہ ان کی میڈیا پالیسی ہے کہ وہ ایک بیان جاری کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مسلم لیگ ن مریم نواز اور شہباز شریف دو گروپوں میں اب بٹے نظر آتے ہیں خاص طور پر جب سے مسلم لیگ (ن) کے 4وزیراعظم کے مبینہ نام سامنے آنے کی خبر منظرعام پر آئی ہے۔ میاں صاحب بھی کچھ خفا خفا سے ہیں جبکہ رانا شمیم پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد سے معاملات کسی اور طرف بھی جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے احساس پروگرام، یوتھ لونگ سکیم کو دنیا کے بہترین منصوبے قرار دیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ یہ منصوبے اپنی تمام تر افادیت اور اہمیت کے باوجود بھی عوام کو اس طرح ڈلیور نہیں کرپائے ہیں جس کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کیونکہ احساس پروگرام کو تو کہا جارہا ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دوسرا نام ہے اسی طرح ر یاست مدینہ کے لئے لنگرخانوں میں جو قیام و طعام کا سلسلہ شروع کیا گیا وہ بلاشبہ قابل ستائش ہے لیکن دوسطری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے اور خودانحصاری کے اصول کو فروغ دے اس کے لئے یوتھ لون سکیم کو زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک شخص جو محض چند لاکھ لے کر کاروبار شرع کرنے کا خواہاں ہے اس کے لئے اس قدر زیادہ رکاوٹیں ہیں کہ وہ اس سے کتراتا ہے۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر کوئی شخص حکومت سے قرضے کے حصول کے لئے درخواست دیتا ہے تو اس درخواست کو ہفتے بھر میں نمٹایا جانا چاہیے اور رقم براہ راست متعلقہ شخص کے اکائونٹ میں آنی چاہیے جبکہ اس رقم کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے اس کے کاروبار کی رجسٹریشن کے کاغذات اپنے پاس رکھ لئے جائیں تو اس سے عوام کا روزگار سکیم پر اعتماد بحال ہوگا۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر حکومت بیروزگاری ختم کرنا چاہتی ہے تو چھوٹے چھوٹے کاروبار کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی کھپت ہو یقیناً وہ اپنے بزنس کے لئے ایک دو لڑکے بھی بطور ہیلپر ضرور رکھیں گے تو اس سے نہ صرف بیروزگاری میں کمی واقع ہوگی بلکہ لوگوں کا معیار زندگی بھی بہتر ہوگا اس لئے ضروری ہے کہ حکومت قرض سکیم کی شرائط کو عوام کے لئے مزید سہل بنائے۔ اسی طرح اپنا گھر سکیم کی شرائط میں بھی نرمی لائی جانی چاہیے جبکہ بینکوں کی جانب سے درخواستوں کو غیرضروری التوا کا شکار کر کے عوام کو ذہنی کوفت کا شکار کیا جارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے شخص سے بار بار سیلری سلپ کے علاوہ دیگر دستاویزات بھی منگوائی جاتی ہیں کہ عوام ان جھمیلوں میں ہی پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ اس لئے بہتر ہے کہ حکومت اپنا گھر سکیم ہو یا یوتھ لون ان کو مزید بہتر بنانے کی ترکیب کرے۔
بلاشبہ یہ دونوں پراجیکٹس کوئی آسان نہیں ہیں لیکن ان پراجیکٹس کی کامیابی میں ہی حکومت کی کامیابی پنہاں ہے۔ دوسری طرف بعض ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر حکومت احساس پروگرام کی بجائے عوام کو 12ارب روپے کی براہ راست سبسڈی دے دیتی تو آج مہنگائی میں یکسر 50فیصد کمی یکدم ہوجاتی جس سے عوام کا معیار زندگی بھی بہتر ہوتا اس لئے حکومت لانگ ٹرم پلاننگ کی بجائے شارٹ ٹرم منصوبوں کیاہمیت اور افادیت کو سمجھے۔ حکومت پہلی قومی سکیورٹی پالیسی بنانے کا کریڈٹ لے رہی ہے کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس بارے عوام کو بھی آگاہی دی جاتی۔ اسی طرح صحت کارڈ سکیم اگر پورے پاکستان میں شروع کردی جاتی ہے تو یہ اس حکومت کا عوام پر احسان عظیم ہوگا اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے شروع کئے جانے والے پراجیکٹس میں نہ صرف تیزی لائے بلکہ اس کی مناسب تشہیر بھی کرے اور اس کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو استعمال کیا جائے لیکن دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ سوشل میڈیا پر آنے والی تمام خبروں پر عوام چونکہ کوئی خاص یقین نہیں رکھتے اس لئے کوشش کی جانی چاہیے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے حکومت اپنی پالیسیوں اور پراجیکٹس کو عوام تک پہنچائے اور ایسا تبھی ہوگا جب حکومت عوام کی بہتری کیلئے سنجیدگی سے کوششیں کرے گی۔ میں ان سطور کے ذریعے تحریک انصاف بالخصوص وزیراعظم imran Khan سے درخواست کروں گی کہ انہوں نے ترجمانوں کو جو اکٹھا کررکھا ہے ان کو پہلی ہی فرصت میں ایک بریفنگ دیں کہ سب ایک ہی بیان دیں گے اور بیان دینے سے قبل کم از کم ایک دوسرے سے مشورہ ضرور کرلیا کرلیں تاکہ بعد میں کسی قسم کی پریشانی اور شرمندگی سے بچا جاسکے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت اپنی میڈیا سٹریٹجی کو بہتر بنائے کیونکہ آج کے اس جدید دور میں ضروری ہے کہ عوام کو وقتاً فوقتاً حکومتی کارکردگی کے بارےمیں آگاہ کیا جاتا رہے۔ اگر اقتدار کے بقیہ ماندہ عرصے میں بھی حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موجود نے اپنی ڈگر نہ بدلی تو پھر حکومت کسی کو دوش نہیں دے پائے گی اس لئے ضروری ہے کہ حکومت اپنے کارناموں کی مناسب تشہیر کے ساتھ میڈیا سٹریٹجی کی اہمیت کو بھی سمجھے، یہی وقت کی پکار ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: