نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہزاد اکبر مرزا صاحب کی جانب سے استعفیٰ دینے کی خبر آئی تو کئی مہربان قارئین نے بہت مان سے یاد کیا کہ موصوف کی تعیناتی کے چند روز بعد ہی اس کالم میں انہیں ’’منجن فروش‘‘ پکارا گیا تھا۔آپ سے التجا کی تھی کہ بالآخر وہ ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا‘‘ والا پیغام ہی دیں گے۔قارئین کی محبت کا خلوص سے شکریہ ادا کرتے ہوئے دیانت دارانہ عاجزی سے اصرار یہ بھی کرنا ہے کہ مرزا صا حب کی محدودات دریافت کرنے کے لئے غیر معمولی ذہانت ہرگز درکار نہیں تھی۔
پنجابی کا ایک محاورہ ہے جو ’’لالچی‘‘ اور ’’جھوٹے‘‘ کے مابین تعلق کو حیران کن سادگی سے بیان کردیتا ہے۔یہ متنبہ کرتے ہوئے کہ ان دونوں کے تعلق کا حتمی فائدہ لالچی نہیں ہمیشہ دوسرا شخص ہی اٹھاتا ہے۔اس محاورے کو ذہن میں رکھتے ہوئے پھکڑپن بھلاتے ہوئے تھوڑی دیر کو سنجیدہ ہوجاتے ہیں۔
عمران خان صاحب گزشتہ کئی دہائیوں سے لاہور کے شریف خاندان کو وطن عزیز کا مہا ’’چور اور لٹیرا‘‘ ثابت کرنے کو تلے بیٹھے ہیں۔ اگست 2018ء میں وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے اس الزام کو ٹھوس حوالوں کے ساتھ ثابت کرنا ان کی حکومتی ذمہ داری بن گئی۔اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے انہیں ذہین وفطین مصاحبین کی معاونت درکار تھی اور شہزاد اکبر صاحب نے وزیر اعظم کے روبرو خود کو دورِ حاضر کا حتمی تفتیش کار بناکر پیش کردیا۔
مرزا صاحب کا دل لبھادینے والا منجن کابنیادی طورپر یہ دعویٰ تھا کہ برطانیہ بھی اپنے ملک میں دیگر ممالک کی کرپٹ اشرافیہ کی منی لانڈرنگ کے ذریعے خریدی جائیدادوں کا سراغ لگانے کو تلا بیٹھا ہے۔ حکومت پاکستان اگر شریف خاندان کے خلاف بدعنوانی کے ثبوت برطانوی حکومت کو باقاعدہ انداز میں فراہم کردے تو وہاں کی تفتیشی ایجنسیوں کا کام آسان ہوجائے گا۔انہوں نے شریف خاندان کے خلاف ٹھوس شواہد جمع کرلئے تو برطانوی عدالتیں ’’انصاف‘‘ فراہم کردیں گی۔اس کی بدولت عمران خان صاحب اور ان کی جماعت کے لئے یہ بیانیہ فروغ دینا آسان ہوجائے گا کہ شریف خاندان کو پاکستان ہی نہیں برطانیہ جیسے ملک کی قطعی آزاد عدلیہ نے بھی بدعنوان قرار دیا ہے۔وہ عمران حکومت کو ’’انتقامی کارروائی‘‘ کا دوش نہیں دے سکیں گے۔
سچی بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ نوعیت کا ’’چورن‘‘ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کے سامنے بھی رکھا جاتاتو ہم اس کی افادیت فی الفور تسلیم کرلیتے۔عمران خان صاحب نے لہٰذا بہت اخلاص سے مرزا صاحب کو قدم بڑھانے والی تھپکی لگادی۔مرزا صاحب کی خوش بختی یہ بھی ہوئی کہ عمران خان صاحب کے اقتدار سنبھالتے ہی برطانیہ کا ایک سابق وزیر داخلہ پاکستان بھی آیا۔وہ پاکستانی نژاد تھا۔ اس کے ساتھ ہمارے وزیر اعظم کی ملاقات بھی ہوئی۔ہم سادہ لوح پاکستانیوں کی اکثریت اس گماں میں مبتلا ہوگئی کہ شریف خاندان اب بچ نہیں پائے گا۔عمران خان صاحب برطانیہ کی حکمران اشرافیہ میں بھی بہت مقبول ہیں۔ ان کی خواہش پر ہوئی تحقیقات تیز رفتاری سے شریف خاندان کو بے نقاب کردیں گی۔
دریں اثناء برطانوی حکومت کو تحقیقات پر اُکسانے اور ان کی جانب سے ہوئی تفتیش کو تیز تر بنانے کے لئے شہزاد اکبر مرزا صاحب اس ملک کے پھیرے لگانا شروع ہوگئے۔میڈیا کی کامل آزادی کے موجودہ موسم میں میرے اور آپ جیسے پاکستانیوں کو خبر ہی نہیں کہ بدعنوانی کے حتمی محاسب ہوتے ہوئے شہزاد اکبر مرزا صاحب نے برطانیہ کے کتنے دورے کئے ہیں۔ ہمارے دئیے ٹیکسوں سے اس مشقت میں کتنی رقم خرچ ہوئی۔ہماری پارلیمان میں براجمان اپوزیشن والے بھی وقفہ سوالات کی بدولت اس ضمن میں کماحقہ جوابات حاصل کرنے پر توجہ نہیں دے پائے۔شہزاد اکبر مرزا صاحب کی ’’آنیاں جانیاں‘‘ برطانیہ ہی نہیں دیگر کئی ممالک میں بھی جاری رہیں۔ انہوں نے شاندار ’’سیزن‘‘ لگایا۔ ’’وہ جس کا وعدہ تھا‘‘مگر ڈیلیور نہ کرپائے۔
شہری حقوق سے قطعاََ محروم ہم بے وقار پاکستانیوں کی اکثریت کو یہ بھی خبر نہیں کہ شہزاد اکبر مرزا صاحب کی ’’آنیوں جانیوں‘‘سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب بھی اکتائے بیٹھے تھے۔وہ لاہور جاتے تو پولیس اور دیگر تفتیشی اداروں کے سربراہان کو اپنے حضور براہ راست طلب کرتے۔ان اداروں کے افسران طے ہی نہ کرپاتے کہ وہ عثمان بزدار یا شہزاد اکبر صاحب میں سے کس کو اپنی پنجابی محاورے والی ’’ماسی‘‘ تصور کریں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی شکایتوں کو تاہم وزیر اعظم کئی ماہ تک نظرانداز کرتے رہے۔
عملی رپورٹنگ سے میں عرصہ ہوا ریٹائر ہوچکا ہوں۔ وہ ذرائع جن پر آنکھ بند کئے اب بھی اعتبار کرسکتا ہوں مجھے بتارہے ہیں کہ گزشتہ دنوں ہوئے کابینہ کے ایک اجلاس میں وزیر اعظم صاحب نے شہزاد اکبر صاحب سے شریف خاندان کی مبینہ بدعنوانی کے حوالے سے برطانوی حکومت کے ساتھ روابط کے بارے میں تندوتیز سوالات کئے۔وہ ان کا تسلی بخش جواب فراہم نہ کر پائے۔تاثر بلکہ یہ دیا کہ جیسے برطانوی حکومت بھی شریف خاندان کو عبرت کا نشان بنانے کو آمادہ نہیں۔مبینہ اعتراف کے بعد وزیر اعظم صاحب کو ان کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ بالآخر دکھی دل سے استعفیٰ دینے کو مجبور ہوئے۔
شہبازشریف کے گرد شکنجہ کسنے کو اب ہماری ایف آئی اے ہی کو متحرک ہونا پڑے گا۔اس کی رہ نمائی کے لئے اگرچہ شہزاد اکبر صاحب جیسے ایک اور ’’ماہر قانون‘‘ کو وزیر اعظم کا مشیر برائے احتساب لگانے کی بات بھی چل رہی ہے۔لاہور کے ایک وکیل کا نام اس ضمن میں گردش کررہا ہے۔موصوف ’’وطن دشمن صحافیوں‘‘ کے خلاف عدالتوں کو متحرک کرنے والی عرضیاں ڈالنے کی وجہ سے بھی کافی مشہور ہیں۔ ان کی شہزاد اکبر صاحب کی جگہ تعیناتی بھی لیکن وہ حاصل نہیں کر پائے گی جس کی شہزاد اکبر صاحب سے توقع تھی۔ ایک اور ’’ماہر قانون‘‘ کا بھی ’’اچھا سیزن‘‘ مگر لگ سکتا ہے۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر