اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کسان مارچ|| آفتاب احمد گورائیہ

کسانوں کو بھی چاہئیے کہ پیپلزپارٹی کے کسان مارچ میں بھرپور طاقت کے ساتھ شریک ہوں اور اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں پیپلزپارٹی کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلیں تاکہ حکومت کو زراعت کے معاملے پر خواب غفلت سے جگایا جا سکے۔

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھرپور محنت کرنے اور اپنی کُل جمع پونجی اپنی فصل کی کاشت پر لگا دینے کے بعد پیداوار کے حصول کے لئے اللہ کی رحمت پر کامل بھروسہ کر کے سب کچھ اللہ پر چھوڑ کر کسان جس توکل کا مظاہرہ کرتا ہے اس کی مثال کسی اور پیشے میں ملنی مشکل ہے۔ کوئی بھی کاروبار ہو یا اس میں جتنا بھی سرمایہ لگایا گیا ہو اس کی حفاظت کے لئے سو جتن کئے جاتے ہیں لیکن کسان اپنی ساری محنت اور سرمایہ کھلے آسمان تلے اپنی فصل پر لگا کر اللہ پر توکل کرتا ہے کہ وقت پر بارش ہو، موسم فصل کے لئے موافق رہے تاکہ وہ اپنی محنت کا پھل اپنے گھر لے کر جا سکے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کا زرعی رقبہ اس کے کل رقبے کا تقریباً 30 فیصد ہے جبکہ پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 45 فیصد حصہ زراعت سے وابستہ ہے۔ پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اس لئے قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ بھی دوسرے تمام شعبوں سے زیادہ ہے، اس وقت قومی پیداوار میں زراعت 24 فیصد حصے کے ساتھ مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان اپنی زرخیز زمین، بہترین نہری نظام اور فصلوں کے لئے سازگار موسم کی وجہ سے ہر قسم کی غذائی اجناس کی پیداواری صلاحیت رکھتا ہے۔ زراعت کے لئے ان تمام تر موافق حالات کے باوجود تکلیف دہ امر یہ ہے کہ عالمی منڈیوں میں زرِکثیر کمانے والی ہماری اجناس کپاس، گندم اور چاول کی پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں ہمارا کسان دن بدن معاشی بدحالی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔

ہمارے کسان کی معاشی بدحالی میں بہت سارے دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ ایک بڑا عنصر موجودہ حکومت کی عدم توجہ اور زراعت دشمن پالیسیاں بھی ہیں۔ ویسے تو ہر شعبے میں ہی حکومتی نااہلی اور ناکامی عیاں ہے لیکن زراعت کے شعبے کو تو حکومت نے جیسے خاص طور پر اپنی ترجیحات میں بالکل آخری نمبر پر رکھا ہوا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں معیشت کو جو ریورس گئیر لگاہوا ہے اس میں بھی ایک بڑا حصہ زرعی معیشت کی تباہی کا ہے۔ زراعت ہماری معیشت کا ایک بنیادی جزو ہے، ہماری سونا اگلنے والی زمینوں میں پیدا ہونے والی اجناس جن میں گندم، چاول، کپاس اور مختلف اقسام کے پھل شامل ہیں، عالمی منڈیوں میں اپنی بہترین کوالٹی کی وجہ سے بہت مشہور ہیں اور پاکستان ان اجناس کی برآمد سے قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں حکومتی عدم توجہی، غیر معیاری بیج، ناقص زرعی ادویات اور ملاوٹ شدہ کھاد کی وجہ سے ہماری فی ایکڑ پیداوار میں کمی کے باعث زرعی برآمدات میں بھی مسلسل کمی ہو رہی ہے جبکہ گندم کی پیداوار کا ہدف حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں گندم درآمد کرنا پڑتی ہے جس سے ہماری کمزور معیشت پر دباو مزید بڑھ جاتا ہے۔

لمحہ فکریہ ہے کہ ایک زرعی ملک اور گندم کی پیداوار میں آٹھواں بڑا ملک ہونے کے باوجود پچھلے دو تین سالوں سے ہمیں گندم درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے ساتھ کسانوں کا سب سے بڑا شکوہ زرعی اجناس کے کم ریٹ کا رہا ہے۔ کسان بھائیوں کا کہنا ہے کہ کھاد، ڈیزل اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے فصل کی پیداواری لاگت میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے جبکہ فصل کی جو سرکاری قیمت مقرر کی جاتی ہے اس سے کسان کی پیداواری لاگت ہی پوری نہیں ہوتی جس کے نتیجے میں کسان بتدریج معاشی بدحالی کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دو سال پہلے حکومت نے کسانوں سے زبردستی چودہ سو روپے فی من گندم خریدی جو بعد میں منڈیوں میں پچیس سو سے ستائیس سو روپے من تک فروخت ہوتی رہی۔ پچھلے سال پنجاب کے کسان کئی روز تک گندم کی قیمت دو ہزار روپے فی من مقرر کرنے کے لئے لاہور میں احتجاج کرتے رہے لیکن حکومت کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی البتہ سندھ حکومت نے گندم کی سرکاری قیمت بہرحال دو ہزار روپے فی من مقرر کردی لیکن پنجاب حکومت نے فی من گندم کا ریٹ اٹھارہ سو روپے ہی رکھا۔ سال رواں میں سندھ حکومت نے گندم کا فی من ریٹ دو ہزار سے بڑھا کر بائیس سو روپے کردیا ہے لیکن پنجاب حکومت ابھی بھی ساڑھے انیس سو سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

گندم کی سرکاری قیمت تو ایک طرف رہی اس سال گندم کے کاشتکار کو ڈی اے پی اور یوریا کھاد کی قلت کا بھی سامنا ہے۔ یہ دونوں کھادیں گندم کی کاشت کے لئے نہایت ضروری سمجھی جاتی ہیں۔ گندم کی کاشت کے فورا بعد جب ڈی اے پی کی ضرورت تھی تو مارکیٹ سے ڈی اے پی کھاد غائب ہو گئی اور بلیک میں ملنے والی ڈی اے پی کی قیمت کسان کی استطاعت سے باہر ہو گئی۔ تبدیلی سرکار سے پہلے ڈی اے پی کھاد کی ایک بوری کی قیمت چونتیس سو روپے تھی اور اس پر پانچ سو روپے فی بوری سبسڈی دی جاتی تھی۔ اب ڈی اے پی کی موجودہ قیمت دس ہزار روپے فی بوری ہے اور ایک ہزار روپے فی بوری سبسڈی کا وعدہ کیا گیا لیکن دو سال میں چند لوگوں کو ہی یہ سبسڈی مل سکی ہے۔ سبسڈی کا ٹوکن سسٹم بہت مشکل ہے جو کہ عام کسان کی سمجھ سے ویسے ہی باہر ہے۔ ڈی اے پی مہنگی ہونے کی وجہ سے اس سال بہت سے کسانوں نے ڈی اے پی کے بغیر ہی گندم کاشت کی ہے جس سے ظاہر ہے پیداوار پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ یہی حال یوریا کا ہے، پیپلز پارٹی کے پچھلے دور میں یوریا کھاد کی فی بوری قیمت سات سو روپے تھی لیکن اب اس کا سرکاری ریٹ ساڑھے سترہ سو روپے ہے لیکن اس ریٹ پر یوریا کھاد کہیں بھی دستیاب نہیں ہے۔ چند ٹرالر آتے ہیں اور لائنوں میں لگا کر ایک شخص کو ایک بوری یوریا کھاد دی جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس کسان کی ضرورت بیس بوری ہے وہ ایک بوری کا کیا کرے گا۔ اگلے دو ہفتے ہیں جن میں یوریا کا استعمال گندم کے لئے بہت ضروری ہے۔ ان دو ہفتوں کے گزر جانے کے بعد یوریا کھاد اگر میسر بھی ہو گئی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ تب حکومت دعوی کرے گی کہ وافر مقدار میں یوریا دستیاب ہے لیکن اس وقت اس کے استعمال کا وقت گزر چکا ہو گا اور گندم کا نقصان بھی ہو چکا ہو گا کیونکہ آج کل گندم میں یوریا کھاد کا استعمال بہت ضروری ہے اگر یوریا کھاد نہ ڈالی جائے تو گندم پیلی ہو کر پودا کمزور ہوجاتا ہے۔ گندم کی کاشت کے سلسلے میں کسان کو درپیش ان مشکلات کے تناظر میں جائز طور پر توقع کی جا سکتی ہے کہ اس سال بھی گندم کا پیداواری ہدف حاصل ہونا ناممکن نظر آ رہا ہے۔

کسان بھائیوں کی انہی مشکلات اور مسائل کا ادراک کرتے ہوئے پیپلزپارٹی چوبیس جنوری کو ملک گیر کسان مارچ کر رہی ہے۔ اس سے پہلے اکیس جنوری کو پیپلزپارٹی لاڑکانہ اور اوکاڑہ میں ٹریکٹر ٹرالی مارچ بھی کر چکی ہے جس میں کسانوں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ پیپلزپارٹی کا کسانوں کے حق میں کھڑے ہونا ثابت کرتا ہے کہ پیپلزپارٹی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو کسانوں کےحقوق کی بات کرتی ہے۔ باقی جماعتیں ابھی تک تو کسانوں کو درپیش مسائل پر لمبی تان کر سو رہی ہیں۔ صرف پیپلزپارٹی ہے جو کسان اور زراعت کو درپیش مسائل کے حل کے لئے کسانوں کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے اس لئے کسانوں کو بھی چاہئیے کہ پیپلزپارٹی کے کسان مارچ میں بھرپور طاقت کے ساتھ شریک ہوں اور اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں پیپلزپارٹی کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلیں تاکہ حکومت کو زراعت کے معاملے پر خواب غفلت سے جگایا جا سکے۔

حکومت کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ ایک زرعی ملک کا اگر کسان ہی معاشی بدحالی کا شکار ہو گا تو اس ملک کی زراعت کیسے ترقی کرے گی؟ حکومت کو چاہئیے کہ فوری طور پر کسانوں کے نمائندوں سے مشاورت کرے تاکہ ہر فصل کے پیداواری اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے فصل کی سرکاری قیمت کا تعین کیا جا سکے اور کسان کو اس کی محنت کا پھل مل سکے۔ اس کے علاوہ کسانوں کو بلا سود قرضے فراہم کئے جائیں اور چھوٹے کاشتکاروں کو مالی اامداد دی جائے۰ دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی زرعی آلات پرٹیکس ختم کیا جائے۰ غیر معیاری بیجوں اور ناقص زرعی ادویات کی سپلائی کو کنٹرول کیا جائے اور کھاد کا بروقت حصول کسان کے لئے ممکن بنایا جائے۔ کسان خوشحال ہو گا تو ملک خوشحال ہو گا۔ اگر کسان کے گھر ہی اناج نہیں ہو گا تو باقی عوام کو کھانے کے لئے اناج کہاں سے ملے گا۔ حکومت کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ آج اگر کسان کھاد کے حصول کے لائنوں میں لگے نظر آ رہے ہیں تو کل پورے ملک کے عوام آٹے کے حصول کے لئے آٹے ٹرکوں کے پیچھے بھاگتے اور لائنوں میں لگ کر آٹا حاصل کرتے نظر آئیںگے۔

دینے والے میرے دیس کی دھرتی کو خوشحالی دے

باغوں کو پھل پھول عطا کر، کھیتوں کو ہریالی دے

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

آفتاب احمد گورائیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: