اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ سانحہ مری بارے۔۔۔|| مہرین فاطمہ

سیاحوں کے لیے ٹؤرازم ایڈوائزری اینڈ انفارمیشن ایپ تیار کی جانی چاہیے۔ سیاحتی سیزن میں متعلقہ محکموں کو لازمی طور پر سیاحوں کی رجسٹریشن کا نظام شروع کرنا چاہیے تاکہ انتظامیہ سیاحوں کے بارے میں درست ڈیٹا، متوقع قیام کی مدت اور دیگر ضروری تفصیلات حاصل کرسکے۔

مہرین فاطمہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

‏مری اور اس کے اطراف کا ماحول بہت نازک ہے اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسم سے اس کے ماحولیات پر دباؤ بڑھ جاتا ہے ۔ مری کی بلندی، دلفریب موسم ، حسین نظارے اور یہاں تک آسان رسائی اسے سیاحوں کے لیے غیر معمولی کشش کا باعث بنا دیتی ہیں۔ سردیوں کے موسم میں یہاں کی برف باری کو دیکھنا یادگار تجربہ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے سیاح یہاں آ جاتے ہیں۔تاہم محدود داخلی اور خارجی راستوں والے کسی بھی مقام کے لیے زیادہ سیاحوں کا آنا ایک مسئلہ ہے۔
مری، میاں نواز شریف کی جبکہ نتھیاگلی عمران خان کی پسندیدہ جگہ ہے، اس لیے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے اپنے ہر دور میں مری پر اربوں روپے خرچ کئے ۔ مری ایکسپریس وے اس کی ایک مثال ہے ۔سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے 1122کے نظام سے بھی مری کو فائدہ ہوا لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ میاں شہباز شریف اور چوہدری پرویز الٰہی کے ادوار میں وہ پہلے بطور وزیراعلیٰ اجلاس بھی منعقد کرتے رہے ۔ متعلقہ سیل اور اداروں کو متحرک کرتے، برف ہٹانے والی مشینیں اور نمک یا دیگر لوازمات متعلقہ مقامات پر پہنچائے جاتے اور بعض مواقع پر مری کو اضافی نفری بھی دی جاتی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ بنیادی انفراسٹرکچر اور سیاحت فرینڈلی ماحول بنانے میں ناکام رہے۔ جیسے ہی پنجاب سے خیبر پختونخواہ میں داخل ہوتے ہیں تو گلیات کا مکمل رخ اور روپ تبدیل ہوجاتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے وہاں پر ٹورسٹ پولیس , ہر چند کلو میٹر بعد آرام گاہ, ٹک شاپس اور گلیات ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو متحرک کیا۔ مگر پنجاب میں حکومت ملنے کے باوجود وہ یہ سب اقدام یہاں اٹھانے میں ناکام رہے۔ جس کی وجہ سے تمام تر اموات پنجاب کی حدود میں ہوئیں۔ جس وقت ایک اکیلا اسسٹنٹ کمیشنر مری شہر پر توجہ مرکوز کر کے ٹھہرا تھا, گلیات ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور ٹورسٹ پولیس خیبر پختوخواہ کی حدود میں سیاحوں کو گاڑیوں میں چائے پیش کر رہی تھی۔ مزید برآں حکومت لوکل گورنمنٹ نظام کو پنجاب کی حدود میں نافذ کرنے سے ناکام رہی جس کی وجہ سے تمام تر اختیارات افسر شاہی کے پاس رہے جن کی توجہ صرف مری شہر میں مرکوز رہی۔ وہ حکومت جس کے وزیراعظم سے لے کر ایم این اے تک اور وزیراعلیٰ سے لے کر ہر ایم پی اے تک، ہر کوئی وزیراطلاعات ہے اور جس کی تمام تر توجہ ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے پر ہے، اس حکومت نے اس وارننگ سے لوگوں کو آگاہ نہیں کیا۔ محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ پر 5جنوری سے الرٹ موجود تھا ۔ محکمہ موسمیات کے اس الرٹ کی تشہیر کس کی ذمہ داری تھی ؟ اور ہنگامی صورت حال کے لیے اداروں کو الرٹ کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ ظاہر ہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ،جو پوری نہیں کی گئی ۔ تو پھر جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار وفاقی حکومت کے سربراہ عمران خان اور صوبائی حکومتوں کے سربراہان یعنی عثمان بزدار اور محمود خان کے سوا اور کون قرار پاتا ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہوا ، وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی اور بدانتظامی ہی کا نتیجہ ہے اور جو لوگ لقمہ اجل بنے اور تکالیف سے گزرے یا گزر رہے ہیں، ان کے ہاتھ روز قیامت ان حکمرانوں کے گریبانوں میں ہوں گے ۔
اس قسم کا سانحہ کسی بھی وجہ سے کسی بھی جگہ رونما ہوسکتا ہے۔ حکومتی محکموں کو چاہیے کہ ایسے تمام مقامات پر نظر رکھی جائے جہاں بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ ایسے مقامات میں سیاحتی مقامات، مزارات اور مذہبی اجتماع کی جگہیں، عارضی اور مستقل بازار اور تعلیمی ادارے شامل ہیں۔بدقسمتی سے ہماری تاریخ ایسے حادثات سے بھری پڑی ہے جو حکام کی عدم توجہی کی بنا پر پیش آتے ہیں اور جن سے بچنا ممکن ہوتا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ سوات جاتے ہوئے کئی سیاحوں کو مسلح ڈاکوؤں نے لوٹ لیا تھا۔ شمالی علاقہ جات کی سڑکوں پر ٹریفک جام اور حادثات اب عام ہوچکے ہیں۔ کئی مزارات دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔
اس کے علاوہ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت وقت کو چاہیے کہ مختصر فاصلوں پر ایمرجنسی رسپانس سینٹر بنائے جہاں سیاحتی ادارے دیگر حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے گشت کا نظام بھی مرتب کرسکتے ہیں۔
سیاحوں کے لیے ٹؤرازم ایڈوائزری اینڈ انفارمیشن ایپ تیار کی جانی چاہیے۔ سیاحتی سیزن میں متعلقہ محکموں کو لازمی طور پر سیاحوں کی رجسٹریشن کا نظام شروع کرنا چاہیے تاکہ انتظامیہ سیاحوں کے بارے میں درست ڈیٹا، متوقع قیام کی مدت اور دیگر ضروری تفصیلات حاصل کرسکے۔
اس کے علاوہ جن علاقوں میں اوسط سے زیادہ لوگ جاتے ہیں وہاں کیرئنگ کیپیسیٹی [carrying capacity] کے تصور کو لاگو کرنا چاہیے۔ یہ ایک بنیادی تصور ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ایک محدود علاقے میں انسانوں، جانوروں اور نباتات کے برقرار رہنے کے لیے کتنے وسائل درکار ہیں۔ اس کا استعمال ماحولیاتی اثاثوں کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے نازک ماحولیات کو ہونے والے نقصان کی جانچ کے لیے بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سی پیک کے ذریعے طے شدہ مال بردار ٹریفک گلگت بلتستان سے گزرے گا تو اس سے ماحولیات کو نقصان پہنچے۔ اگر صوبائی حکومتیں مری جیسے سانحے سے بچنا چاہتی ہیں تو انہیں سیاحتی سرگرمیوں کا سائنسی بنیاد پر انتظام کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے سیاحوں کا بہتر انتظام کرنا، نجی گاڑیوں کو محدود کرنا، ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کو ریگولیٹ کرنا، موسمی ایڈوائزری پر بروقت ردِعمل دینا، ایک قابلِ اعتماد مواصلاتی نظام وضع کرنا، ہنگامی ردِعمل میں بہتری لانا اور سیاحوں کی آگہی کے لیے پروگرام ترتیب دینا کچھ پیشگی شرائط ہیں۔جہاں ٹورسٹ پولیس اور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ماڈل کو پنجاب کی گلیات اور مری کی حدود میں نافذ کرنا ضروری ہے وہاں لوکل گورنمنٹ کا نظام لا کر اختیارات کو نچلی سطح تک عوامی نمائندوں میں لانا چاہیے تاکہ بروقت اقدامات کے ذریعے اس طرح کے سانحات سے بچا جا سکے۔

%d bloggers like this: