اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لغت گالیوں کی بھی تو ہونی چاہیے!۔۔۔عفت حسن رضوی

زبانی غلاظت کے ساتھ تکرار صدیوں سے رائج ہے۔ کوٹھوں ،چکلوں، منڈیوں، بازاروں میں جس زبان سے سبقت لی جاتی تھی اب اسے سیاسی ٹرولنگ یا ٹرول آرمی کہا جاتا ہے۔ لغت گالیوں کی بھی تو ہونی چاہیے!

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اٹھارویں صدی کے وسط میں سمیوئیل جانسن نے انگریزی کی ڈکشنری جاری کی۔ ادبی لکھائی، مذہبی صحیفوں، سماجی مصنفین اورسائنسی مضامین سے چُن چُن کر انگریزی الفاظ اور ان کے معنی لکھے گئے۔ بہت واہ واہ سمیٹی، خوب داد لی۔ جانسن  ڈکشنری آنے کے ٹھیک 30 سال بعد فرانسز گروز نامی مصنف نے ’کلاسکیکل ڈکشنری آف ولگر ٹنگ‘ تشکیل دے دی۔ یہ انگریزی زبان میں گھٹیا اور غلیظ الفاظ کی لغت تھی۔

فرانسز گروز بازاری زبان  سمجھنے کے لیے رات کے وقت نکلتا۔ یہ ڈکیتوں کے علاقے میں جاتا تو ڈاکہ زنی، چوری اور جرائم کی دنیا میں مستعمل الفاظ کا خزانہ سمیٹ لاتا۔  یہ شام سے رات گئے تک برطانیہ کے ڈوبے ہوئے گئے گزرے علاقوں کے شراب خانوں میں جا بیٹھتا۔  یہ نشے میں دھت افراد کی گالیاں سنتا، گندے محاورے، ضرب المثل سنتا اور لکھتا جاتا۔

جسموں کی بازار گروز کو فحش الفاظ  سکھاتے۔ یہ ذومعنی جملے ریکارڈ کرتا، رکیک فقرے اور ان کے مطلب لکھتا جاتا۔  گروز نے بازار میں بیٹھی طوائفوں کے ساتھ ساتھ دلال مردوں سے دوستی کی، غلاظت کے اندھیروں میں بولی جانے والی زبان  کا ہر لفظ جمع کرتا رہا۔ یہ باکسنگ، مرغے لڑانے والوں، سٹاک کے تاجروں، سبزی اور مچھلی منڈی ہر جگہ سے بیہودہ الفاظ ڈھونڈتا رہا۔

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

گالیاں، مغلظات اور فحش زبان جمع کرتے کرتے فرانسز گروز پہ وہ وقت بھی آیا کہ اپنی ڈکشنری میں اس نے بعض غلیظ الفاظ یہ لکھ کر بے معنی ہی رہنے دیئے کہ ان گالیوں کی وضاحت اس کے بس کی بات نہیں۔ سوچتی ہوں فرانسز گروز کی ڈکشنری کا اب نیا دیسی ایڈیشن چھپنا چاہیے، یہ کارِخیر ہمارے  ملک کا 100صد مصروف اور صاحب روزگار طبقہ یعنی سوشل میڈیا سولجرز بخوبی کرسکتے ہیں۔ یہ ایسی ایسی گالیوں کا اضافہ فرمائیں گے کہ  گروز کی بیہودہ ڈکشنری بھی منہ چھپائے گی۔

بخدا اچھی اچھی باتیں لکھنے والی تھی۔ دل پہ چوٹ کرتی حکایتیں ہی سنانی تھیں آپ کو۔ کچھ سبق آموز نصیحتیں لکھنے کو ہی تھی کہ پاکستانی سوشل میڈیا پر نظر پڑ گئی۔ شدید کثیف سیاسی ماحول میں وزیر اعظم عمران خان کی بیگم کو ان کے علاقے پاک پتن، مریم نواز کو رائے ونڈ، اور مسلح افواج کو راولپنڈی کے نام کے ساتھ غلیظ الفاظ کے سابقے اور لاحقے لگا لگا کر گالیاں دی جا رہی ہیں۔

تو پھر یہ طے ہوا کہ قوم کے نوجوانوں کی اکثریت کو سوشل میڈیا پر گالم گفتار کی زبان سمجھ آتی ہے۔ یہ بھی واضح ہوا کہ حکومت ہو یا اپوزیشن، سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی گروپ، ایک دوسرے کی عزت کو گندے لفظوں کی نوک پہ اچھالنا سب کا اجتماعی پسندیدہ مشغلہ ہے۔ خصوصاً خواتین اور ان کے رشتوں پہ مبنی گالیاں دینا سب سے سہل ہے، کیونکہ جواب میں کسی کا خون جوش نہیں مارتا بلکہ وہ پہلے والے سے ایک درجہ اونچی اور تگڑی گالی دیتا ہے۔

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

گالی بکنے کے اس مقابلے کا قانون یہ ہے کہ جو سب سے بھاری بھر کم اور گھٹیا ترین گالی بکے گا زیادہ مذمت بھی اسی کی ہوگی، مذمت ہوگی توسوشل میڈیا پر نمبر ون وہی گالی بنے گی۔ لوگ گالی پہ توبہ کرنے کے لیے بھی  پہلے گالی بکیں گے پھر استغفار پڑھیں گے۔  گالی جتنی وزنی ہوگی زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے جواب میں ہلکی پھلکی گالی نکالیں گے یوں چراغ سے چراغ جلتے رہیں گے اور ایک نئی گالی کے ساتھ اگلا دن شروع ہو جائے گا۔

سوشل میڈیا  ہمیں یقین کی منزل پہ لے آیا ہے کہ کسی اور کام دھندے میں ہوں نہ ہوں لیکن زبان کی گند میں ہم  یکتاو یگانہ ہیں۔ آئے دن گالیوں کے مقابلوں میں جوان اپنی صلاحیتیں آزما رہے ہیں، اپنے کی بورڈز اور جعلی ناموں کے پیچھے چُھپے قوم کے اس سرمائے کو اب سامنے آنے کی ضرورت ہے۔ قوم بھی دیکھنا چاہتی ہے کہ یہ کن ماوں کے بچے ہیں، کس باپ کے سپوت ہیں۔

زبانی غلاظت کے ساتھ تکرار صدیوں سے رائج ہے۔ کوٹھوں ،چکلوں، منڈیوں، بازاروں میں جس زبان سے سبقت لی جاتی تھی اب اسے سیاسی ٹرولنگ یا ٹرول آرمی کہا جاتا ہے۔ اسے میڈیا سیل کی کارکردگی کہا جاتا ہے، اسے منہ توڑ جواب دینے والے کارکنوں کی محبت کا نام دیا جاتا ہے۔

وہ اٹھارویں صدی تھی جب غلیظ زبان کی کلاسک ڈکشنری مرتب کرنے کے لیے گروز بیچارے کو گالیاں بکنے والے بے روزگار نوجوانوں سے ملنے تنگ گلیوں کی خاک چھاننا پڑتی تھی اب تو گالی بریگیڈ خود ایک روزگار ہے۔ اسے طوائفوں کے کوٹھوں، شراب خانوں اور ڈاکووں کی کمین گاہوں میں جاکر گند کے تارکول سے پہلے اپنا منہ کالا کرنا پڑتا تھا پھر کہیں جاکر چار گالیاں، چار مغلظات اور چار فحش جملے ہاتھ آتے تھے۔

وہ دُکھیا فرانسز گروز آج زندہ ہوتا تو اتنی مشقت سے بچ جاتا۔ سارے گرہ کٹ، اُچکے، بے روزگار، اٹھائی گیرے، فحش گو، بدزبان اور بے اخلاق  افراد کا ایک جمگھٹا سوشل میڈیا پر جمع ہے، انہوں نے سیاسی  گالیوں سے وہی شور اٹھا رکھا ہے جیسے غلاظت پہ مکھیاں بھنبھناتی ہیں۔

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

%d bloggers like this: