اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

” کوہ خیسور تیرے ویران قلعے ” ( دوسری قسط )||رمیض حبیب

بل اوٹ قلعے کا پنڈت اس وقت ہندوستان کا سب سے بڑا سامری ہوتا تھا وہ اپنے جادو سے لوگوں کو براہمن دھرم پر قائم رکھنے کے لیے بڑے بڑے جادو دیکھایا کرتا اور لوگ پنڈت کو دیوتا سمجھ کر اسکی پوجا کیا کرتے تھے ۔

 رمیض حبیب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلی قسط میں آپ کو جنوبی اور شمالی کافر کوٹ بارے میں تاریخی معلومات فراہم کی گئی؟ کہ یہ کہاں واقع ہیں انکو کن راجاؤں نے تعمیر کرایا, اور کس مقصد کے لئے؟

دوسری قسط :میں آپ اس قلعے کے مندروں اور تالابوں کے بار جان سکیں گے ۔

مندر !
یہاں پر کتاب تاریخ ہند کا چھوٹا سا واقعہ بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ہندوستان میں ہندو مذہب کا سب سے بڑا بت خانہ بلوٹ شریف میں تھا۔جہاں پر ہندوستان سے بڑے بڑے برہمن اور ہندو مذہب کے پیروکار اپنی شکتی کو کورام بخشنے کیلئے یہاں پوجا پاٹ کیا کرتے تھے۔

اس قلعے کے اندر بہت بڑے مندر تعمیر کیے گئے یہاں پر ہندوستان کے تمام راجپوت ہندو راجہ آکر پرستش کرتے تھے اور اس جگہ کو ایشور کا دیدار کرنے کا مقام سمجھتے تھے۔

بل اوٹ قلعے کا پنڈت اس وقت ہندوستان کا سب سے بڑا سامری ہوتا تھا وہ اپنے جادو سے لوگوں کو براہمن دھرم پر قائم رکھنے کے لیے بڑے بڑے جادو دیکھایا کرتا اور لوگ پنڈت کو دیوتا سمجھ کر اسکی پوجا کیا کرتے تھے ۔

قلعہ بل اوٹ میں ہر سال موسم برسات میں ایک بڑا میلہ لگا کرتا ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے ہندو یہاں آیا کرتے اُن دنوں دریائے سندھ میں طغیانی کا عالم بھی ہوتا تھا اور قلعہ بل اوٹ کے مندروں کا پنڈت باہر نکل کر دریائے سندھ کے پانی پر چلنا شروع کر دیتا تھا اور دریا کے پانی پر آگ لگا دیا کرتا ۔ لوگ اس کو دیکھ کر سجدے میں گر جاتے تھے۔

اس قلعے کے اندر 7 مندر آج بھی اپنی خستہ حالت میں موجود ہیں قلعے کے جنوبی سمت میں دو مندر بلکل آمنے سامنے تعمیر کئے گئے ہیں ان میں سے مشرقی سمت کے مندر کے دائیں طرف ایک سیڑھی اوپر جاتی نظر آتی ہے۔ سیڑھی پر ایک آدمی بھی بمشکل چڑھ سکتا ہے اسکے اوپر والے حصے پر بھی تقریباً ڈھائی فٹ لمبا اور ڈھائی فٹ چوڑا ایک مورچہ نما کمرہ بنا ہوا ہے اور سامنے کا مندر بغیر سیڑھی کے ہے۔ ان مندروں کی اونچائی تقریباً 40 فٹ کے قریب ہے ۔

قلعے کی شمالی سمت میں ایک الگ مندر تعمیر کیا گیا اس مندر تک رسائی کیلئے بائیں پہلو میں 3×3 فٹ کے دو کوٹھڑیاں نما مندر ہیں یہ مندر اندر سے 9×9 فٹ کے ہیں۔
مگر اسکی چھت موجود نہیں ہے اس بڑے مندر کے بائیں پہلو میں ایک چھوٹی طاقیمہ نما کوٹھڑی بنی ہوئی ہے جس میں شائد بت رکھے جاتے , یا چراغ جلائے جاتے تھے ۔

ٹی ۔ ڈبلیو ۔ ایچ ۔ ٹوبورٹ انیسویں صدی کے بہت بڑے تاریخ دان گزرے ہیں جنہوں نے آثار قدیمہ اور
قدرتی پیداوار پر مبنی ایک کتاب District Dera Ismail Khan (Trans Indus) تحریر کی, جسے 1871 میں ایشیاء ٹک سوسائٹی آف بنگال کے والیم 40 حصہ اول میں چھاپہ گیا ۔

ٹی ۔ ڈبلیو ۔ ایچ ۔ ٹوبورٹ لکھتے ہیں کہ اس ضلع میں آثار قدیمہ کے کھنڈرات ٹیلوں اور قلعوں کی شکل میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں جنہیں مقامی لوگ کافر کوٹ کے نام سے پکارتے ہیں۔

اس بات کا امکان ہے کہ آثار قدیمہ مختلف تاریخوں میں اور مختلف اسٹائیلوں سے تعمیر کئے گئے ہیں ان میں سے کچھ آثار ہندومت سے مشابہہ ہیں تو کچھ اس خطے میں مسلمانوں کی آمد کے بعد شاید تعمیر کئے گئے تھے قلعہ نما یہ آثار اینٹوں کی بجائے نرم پتھروں سے تراش کر بنائے گئے ہیں۔

اور جنوبی طرف کے کھنڈرات بل اوٹ نامی قصبے کے قریب ہیں جنہیں دریائے سندھ کے کنارے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ جنوبی کافر کوٹ کے کھنڈرات کا مستطیل نما باقاعدہ چار دیواری نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے چاردیواری کے اوپر ہر پندرہ سے بیس گز کے فاصلے پر برجیاں تعمیر کی گئی ہیں ۔

ٹی ۔ ڈبلیو ۔ ایچ ۔ ٹوبورٹ اپنی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ پہلے پہل جب مجھے ان قلعوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو میں اس کے اندر لگے مواد کو اینٹیں اور سیمنٹ کا مرکب سمجھا لیکن میرا نظریہ غلط تھا۔

کیونکہ یہ ساری عمارتیں سیمنٹ اینٹوں یا پہاڑ کے اوپر بکھرے سخت پتھروں کے بجائے شہد کے چھتوں جیسے رنگ والے نرم پتھروں سے تعمیر کئیں گئے ہیں جنہیں تراش کے بعد بڑے قرینے سے مندروں میں فٹ کیا گیا ہے.

چونکہ یہ پتھر کوہ خیسور کی پہاڑی کے معلوم نہیں ہوتے اس لئے قیاس غالب ہے کہ انہیں کسی قریب پہاڑی علاقے سے لا کر یہاں تک پہنچایا گیا ہے ۔

مگر کب, کہاں, کسے, کیسے لایا گیا ؟ اس کا کوئی جواب نہیں تاریخ خاموش ہے ۔

تالاب :

یہاں قلعہ بل اوٹ کے اندر کئی تالابوں کے آثار ملتے ہیں قلعے کے اندر پینے کے لئے پانی دریائے سندھ سے لا کر تالابوں کے ذریعے اوپر پہنچایا جاتا تھا ۔ جن میں سے اس وقت کا مشہور تالاب ” سورج کنڈ ”
نمایاں تھا جس پر راجہ بل صبح کی پوجا کے لئے اشنان کرنے آیا کرتے تھے ۔

روایت ہے کہ بل اوٹ کا قلعہ محمود غزنوی نے اپنے سترہویں حملے کے دوران تاراج کر دیا تھا
بل اوٹ کافر کوٹ سے 1996 میں دوسری اور تیسری صدی کے نوادرات برآمد ہوئے جو لنڈن کے برٹش میوزیم میں آج بھی موجود ہیں ۔ اُن نوادرات کو آپ تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں ۔

یہاں پر قلعہ بل اوٹ ( جنوبی
کافر کوٹ) کی تاریخی معلوماتی داستان اختتام پذیر ہوتی ہے اب آپ اگلے سنڈے تیسری قسط میں قلعہ ٹل اوٹ (شمالی کافر کوٹ) کی تاریخی کہانی جان سکیں گے ۔

 

رمیض حبیب کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: