اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حکومت کا سالِ نو کا ’’تحفہ‘‘||سارہ شمشاد

عمران خان جنہوں نے کرپشن کے خاتمے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا وعدہ کرکے 2018ء کے عام انتخابات میں اقتدارحاصل کیا تھا لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ ان میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کرسکے ہیں۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان نے قبضہ مافیا اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ عوامی فلاح کے کاموں میں تیزی لائی جائے، ترقیاتی منصوبوں میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا۔ وزیراعظم کی قبضہ مافیا اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کا حکم خوش آئند ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا اس سے مہنگائی میں کوئی کمی آنے کی توقع ہے یا نہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے نئے سال کا تحفہ پٹرول 4روپے فی لٹر مہنگا کرکے دیا گیا ہے اسی طرح وفاقی حکومت نے موبائل پر ایڈوانس ٹیکس 10سے بڑھاکر 15فیصد کردیا ہے جس کے بعد 100روپے کے موبائل فون کارڈ پر بیلنس 72.80روپے ملے گا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومت کے مہنگائی کنٹرول کرنے کے اقدامات ناکافی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حکومتی اقدامات بھی مہنگائی کوکنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں اسی لئے 17ہزار کمانے والوں کے لئے مہنگائی کی شرح 22فیصد تک پہنچ گئی ہے جس کے بعد اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مہنگائی نے غریبوں کی زندگی مشکل ترین کردی ہے۔
ایک طرف عمران خان عوام کو خاموش فلاحی انقلاب کی خوشخبری دے رہے ہیں تو دوسری جانب زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ حکومت کی طرف سے عوام کی حالت زار بہتر ہونے کے دعوے تو بڑے دھڑلے کے ساتھ کئے جارہے ہیں لیکن تاریخی مہنگائی نے عوام کے کڑاکے نکال کر رکھ دیئے ہیں کیونکہ مہنگائی کوئی دنوں کے حساب سے نہیں بلکہ گھنٹوں اور سیکنڈوں کے حساب سے بڑھ رہی ہے جس کے باعث غریب عوام کے لئے بجٹ بنانا انتہائی مشکل ہوکر رہ گیا ہے مگر افسوس کہ حکومتی رہنمائوں کے نزدیک مہنگائی اس قدر نہیں جتنا واویلا کیا جارہا ہے حالانکہ اب تو وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی چند روز قبل ادویات مہنگی ہونے کا اعتراف کیاہے۔ابھی جو چند روز قبل حکومت نے ضمنی بجٹ پیش کیا ہے اس کے باعث سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے حکومت پر بدترین تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف سانس لینے اور توشہ خان کی گھڑیاں لینے پر ٹیکس نہیں لگایا گیا باقی سب چیزوں پر ٹیکس ہے۔ ایسے میں بہتر یہی ہوگا کہ حکومت معیشت کی بدحالی کا ذمہ دار سابق حکومتوں کو ٹھہرانے کا روزنا نہ روئے بلکہ اپنی ساڑھے 3برس کی کارکردگی کا بھی جواب دے۔ یہ حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ اسے تگڑی اپوزیشن دستیاب نہیں جس کا ثبوت ضمنی بجٹ پیش ہونے کے موقع پر اپوزیشن لیڈر کا ایوان میں موجود نہ ہونا ہے اس لئے جب مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف یہ بیان داغتے ہیں کہ موجودہ حکمران سستے ترین اور عوام مہنگے ترین پاکستان میں رہتے ہیں تو عوام اس کوکچھ خاص سنجیدہ اس لئے نہیں لیتے کہ ان کے نزدیک یہ صرف زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔
پاکستان کے باشعور عوام کو اب مزید بیوقوف بنانا سیاستدانوں کے لئے زیادہ آسان نہیں ہے کہ عوام اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ سیاستدان، ان کا تعلق چاہے حکمران جماعت سے ہو یا اپوزیشن سے، سب کا مقصد عوام کو بیوقوف بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے شہباز شریف کی ایوان میں تقریر کو نوکری کی درخواست دینے سے مشروط کیا ہے۔حکومت نے ڈیل اور ڈھیل کے چکر میں 360ارب روپے کا منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرکے خوشی کے شادیانہ بجانا شروع کردیئے ہیں۔ شوکت ترین تو عوام پر مہنگائی کے کلہاڑے برسانے کے دن کو غریب کے لئے تاریخی قرار دے کر ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے سے بھی باز نہیں آئے۔ادھر قومی اسمبلی میں جمعرات کے روز جو طوفان بدتمیزی برپا ہوا اس پر سوائے افسوس اور شرمندگی کے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ مقدس ایوان جس کی مضبوطی کے لئے سیاسی جماعتوں کی جانب سے بلندبانگ دعوے کئے جاتے ہیں وہاں کا ایوان جو مچھلی منڈی کا منظر پیش کررہا تھا اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ آئین و قانون کے رکھوالوں کو پارلیمانی آداب کی کوئی پروا نہیں کیونکہ قومی مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کی روایت پرعمل پیرا ہیں۔ عمران خان جنہوں نے کرپشن کے خاتمے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا وعدہ کرکے 2018ء کے عام انتخابات میں اقتدارحاصل کیا تھا لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ ان میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کرسکے ہیں۔
پٹرول، بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عوام کی چیخیں نکال کر رکھ ہیں اور اب تو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر عوام کو جس طرح دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے اس کو دیکھ کر عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے کہ ایک طرف عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہاں آج بھی عوام بھوک سے تنگ آکر خودکشیوں پر مجبور ہیں ابھی دو روز قبل جہلم میں ایک ماں نے غربت سے تنگ آکر 3بچوں سمیت خودکشی کرلی۔ حالانکہ حضرت عمرؓ کا فرمان ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو میں جوابدہ ہوں گا لیکن ہمارے ہاں تو حالات کے جبر کے ہاتھوں تنگ آکر لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں لیکن ان کے دکھوں پر کوئی مرہم رکھنے والا نہیں ہے۔
اگرچہ حکومت کی جانب سے پنجاب میں صحت کارڈ منصوبے کا افتتاح ایک احسن اقدام ہے لیکن اس حوالے سے بھی لوٹ مار کا دروازہ کھلنے سے خبردار کررہے ہیں جس کی طرف حکومت کو ابھی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اگر اب بھی حکومت نے عوام کو مہنگائی کے عفریت سے نجات دلوانے کیلئے سنجیدہ اقدامات نہ کئے تو کے پی کے بلدیاتی انتخابات کی طرح جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی کا بوریا بستر گول ہونا دیوار پر لکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: