اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست پھر یرغمال؟||سارہ شمشاد

اگرچہ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم کے نوازشریف کی کرپشن کی سزا کے بیان کےبعد ڈیل اور ڈھیل کا معاملہ چوپٹ ہوگیاہے لیکن یہ بات تو طے ہے کہ کوئی تو بات تھی جس کی بنا پر عمران خان شدید غصے میں نظر آرہے ہیں۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آجکل میڈیا میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کی وطن واپسی کے بڑے چرچے ہورہے ہیں حالانکہ بات بڑی سیدھی سی ہے کہ انگلینڈ میں ان کی ویزہ توسیع کی درخواست کی اپیل مسترد ہونے کا امکان اوران کےپاسپورٹ کی میعاد بھی ختم ہوچکی ہے اس لئے انکے پاس وطن واپسی کے سوا دوسرا کوئی اور راستہ نہیں لیکن مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے ڈیل اور ڈھیل کے بیانات بڑی شدومد کے ساتھ دیئے جارہے ہیں، اب ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر ڈیل یا ڈھیل ہے تو پھر طاقت کے اصل مراکز اس بارے کوئی بیان دینا ضروری کیونکر نہیں سمجھ رہے کیونکہ ان کی خاموشی بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ مسلم لیگ (ن) بالخصوص مریم نواز کی جارحانہ پالیسی کی بنا پر ادارے کسی حد تک دبائو میں آچکے ہیں۔تاہم وزیراعظم عمران خان کی جانب سے یہ بیان کہ اگر نوازشریف کی سزا ختم کرنی ہے تو بہتر ہوگا تمام جیلوں کے دروازے کھول دیئے جائیں جس سے ڈیل یا ڈھیل کے تاثر کوتقویت ملتی ہے۔آخر نوازشریف کی نااہلی ختم کروانے کے لئے راستے تلاش کرنے والے کون ہیں۔ اگر خان صاحب ان کے نام بھی بتادیتے تو صورتحال یکسر مختلف ہوجاتی ہے۔ عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ اگر نوازشریف کی نااہلی کرپشن پر نہیں ہوئی تو کرپشن کیا ہوتی ہے۔ دوسری طرف شیخ رشید بھی بڑے بین بین بیانات داغ رہے ہیں کہ قوم نے عمران خان کو کرپٹ لوگوں کے احتساب کے لئے ووٹ دیا مگر ہم ناکام رہے ہیں۔ اس ملک کا وزیر داخلہ بڑے کھلے الفاظ میں اپنی شکست تسلیم کررہا ہے۔ اگرچہ شیخ رشید کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ اپنی حکومت کے خلاف بیان دینا شروع کردیں تو سمجھ جائیں کہ حکومت جانے والی ہے اور وہ کسی اور پارٹی میں جانے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کو عوام نے کرپشن کے خاتمے کے لئے ووٹ دیئے تھے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ وہ اس مقصد میں بری طرح ناکام رہے ہیں بلکہ ان کے تو اپنے وزراء کے کرپشن کے ایسے ایسے سکینڈلز منظرعام پر آرہے ہیں کہ دماغ مائوف ہوجاتا ہے۔ یہ تحریک انصاف کی ناقص کارکردگی ہی ہے کہ وہ کے پی کے کے بلدیاتی الیکشن میں حکومت میں ہونے کے باوجود بری طرح سے ناکام رہی ہے جبکہ پنجاب میں تو پہلے ہی تحریک انصاف کا حال بڑا پتلا ہے اس لئے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو تحریک انصاف کے لئے اگلا الیکشن تو بڑی دور،نچلی سطح پر اقتدار اس کے ہاتھ سے ابھی نکل جائے گا۔
تاہم جہاں تک نوازشریف کی سزا معطلی کا تعلق ہے تو اس بارے قانونی ماہرین ہی بہترین رائے دے سکتے ہیں لیکن اگر دیکھاج ائے تو نوازشریف کی سزا معطلی سے کس کس کو فائدہ ہوگا تو بڑا صاف سیدھا جواب ہے کہ میاں نوازشریف کے علاوہ اس کا بڑا فائدہ تحریک انصاف کو ہی ہوگا کیونکہ اس کیس کی بنیاد پر وہ جہانگیر ترین کی سزا معطلی کے لئے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔ ایسے میں اگر یہ کہا جائے کہ جہانگیر ترین نوازشریف کی سزا معطلی کیس کو بڑی باریک بینی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہمارے وطن میں کب تک یہ ڈیل اور ڈھیل کے معاملات چلتے رہیں گے ایک این آر او پرویزمشرف نے کیا تھا اور اس کے بعد تو جیسے این آر اوز کی لائنیں ہی لگ گئیں جس کا جب اور جہاں دل چاہتا ہے بڑے آرام سے این آراو لے لے گا۔ دراصل یہی وہ ’’مجبوریاں‘‘ ہیں جن کی بنا پر ہمارے ہاں قانون کو موم کی گڑیا سمجھا جاتا ہے کہ جب جس کا دل چاہتا ہے اس کو اپنی ضرورت ہے مطابق موڑ لیتا ہے تو بہتر یہی ہوگا کہ قانون کی کتاب کو جلادیا جائے کیونکہ یہ قانون نامی چیز ہے تو غریبوں کے لئے ہی اور غریب تو امیروں کے لئے کمی کمین ہیں۔ بااثر اور امیر طبقے کا جب اور جہاں دل چاہتا ہے غریب کی لترپریڈ کردیتے ہیں اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ قانون کی دکان کو بند کردیا جائے تاکہ چوروں اچکوں کا جو دل کرے وہ کرتے پھریں ان کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔
ادھر دنیا 20ویں صدی میں کائنات کو تسخیر کررہی ہے جبکہ پاکستان میں کرپشن پر سزائوں کو ختم کروانے کیلئے نایاب نسخے ڈھونڈے جارہے ہیں اسی لئے تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر عمل کیا جارہا ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب ملکی معیشت کی چولیں ہل کر رہ گئی ہیں کیا ہمارے ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اس میں بہتری کے لئے حکومت کا ساتھ نہیں دینا چاہیے کیا اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ نوازشریف کی وطن واپسی اور ڈیل ہے، کیا نوازشریف 22کروڑ عوام سے زیادہ اہم ہیں۔ وہ غریب جو صبح شام غربت کے زہر آلود کلہاڑے کھارہے ہیں کیا کبھی عدالتیں ، ادارے اور سیاسی جماعتیں عوام کی زندگیاں بہتر بنانے کیلئے کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے پر توجہ دیں گی یا نہیں۔کب تک اس ملک کو ڈیلوں اور ڈھیلوں کے ذریعے ہی چلایا جاتا رہے گا۔ قائداعظم نے یہ ملک قانون کی حکمرانی کے لئے حاصل کرکے دیا تھا لیکن افسوس ہمارے ہاں تو جنگل کا قانون ہے۔
اگرچہ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم کے نوازشریف کی کرپشن کی سزا کے بیان کےبعد ڈیل اور ڈھیل کا معاملہ چوپٹ ہوگیاہے لیکن یہ بات تو طے ہے کہ کوئی تو بات تھی جس کی بنا پر عمران خان شدید غصے میں نظر آرہے ہیں۔ قومیں صرف وہی ترقی کرتی ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور ہر کوئی قانون کے تابع ہو لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی بھی قانون کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ آخر کب تک اس ملک کو انہی بنیادوں پر چلایا جائے گا۔ ابھی کچھ عرصہ قبل انٹرنیشنل ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ میں عدلیہ کی کارکردگی پر سوال اٹھایا گیا تھا اور اب اگر نوازشریف کی سزا کسی بھی وجہ سے معطل ہوجاتی ہے تو اس سے دنیا میں کیا پیغام جائے گا کہ پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں جس کا جب اور جیسے دل چاہتاہے قانون کو اپنی سہولت کے مطابق موڑ لیاجاتاہے۔
تحریک انصاف میں فصلی بٹیروں کے بھی اڑنے کا وقت ہوا چاہتاہے خاص طور پر شاہ محمود قریشی کے بارے میں کہا جارہاہے کہ وہ حکومت سے کچھ کھچے کھچے نظر آتے ہیں اور اگر نوازشریف کی سزا معطلی کو بنیاد بناکر جہانگیر ترین کی نااہلی کی سزا بھی ختم ہوجاتی ہے تو خان ترین کو ویلکم کریں گے۔ کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ترین کو پہلے سے بھی بڑی اہم ذمہ داری پارٹی اور حکومت میں مل سکتی ہے۔ اطلاعات تو کچھ ایسی بھی سامنے آرہی ہیں کہ ترین اور خان کے رابطے بحال ہورہے ہیں اور جن میں کچھ ہی عرصے میں مزید گرم جوشی دیکھنے کو ملے گی۔ آنے والے الیکشن میں تحریک انصاف کا کیا مستقبل ہوگا اس بارے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اس اہم موقع پر ہمارے سیاسی منظرنامے میں جو دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی ناک سے آگے نہ دیکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ان کی بلا سے عوام جائے بھاڑ میں۔ اسی لئے تو مسلم لیگ (ن) ہو یا پی پی، دونوں کے اراکین بڑے خوش نظر آرہے ہیں کہ جیسے سب کو یقین دہانیاں کروادی گئی ہیں کہ آئندہ الیکشن کے بعد کے پی کے میں مولانا، پنجاب میں (ن) لیگ اور سندھ پی پی کے پاس ہوگا۔ کچھ روز قبل تک مرکزمیں پی پی یا (ن) لیگ میں سے کس کی حکومت ہوگی بارے کشمکش کی سی صورتحال پائی جاتی تھی لیکن پچھلے چند روز سے آصف زرداری جو فرنٹ فٹ پر آکر بیانات دے رہے ہیں اس کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مرکز میں آئندہ حکومت پی پی کی ہوسکتی ہے۔ اگر یہ تجزیہ درست ہوجاتاہے تو اس سے نوجوان نسل میں جو تشویش، مایوسی اور بے چینی پھیلے گی اس کو صفحہ قرطاس پر لانا بہت مشکل ہے۔ ان حالات میں جب عمران خان جن سے اس قوم کی نوجوان نسل کو بے پناہ امیدیں وابستہ ہیں ان سے دست بدستہ ہی درخواست ہے کہ وہ اپنی شخصیت پرستی کے زعم سے باہر نکلیں اور صحیح معنوں میں عوام کو ڈلیور کریں وگرنہ اپنے بیانات سے تو دنیا کو اپنا مخالف بنا ہی چکے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنے عوام کے بھی مجرم ٹھہریں اس لئے اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ نوازشریف کی واپسی کسی ڈیل کا نتیجہ ہے تو اسے اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے مستعفی ہوجائیں اور عوام سے دوبارہ رجوع کریں، یہی تحریک انصاف کی بقا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: