مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلاں دے سودے ۔۔۔||گلزار احمد

دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دِیاں جانے ھو۔۔۔۔ کیونکہ سمندروں اور دریاؤں کی گہرائی و وسعت کی پیمائش تو ممکن ہے مگر دل وہ سمندر ہےجس کی گہرائی و پہنائی کو ماپنا ناممکن ہے کیونکہ انسان کے دل میں تو اللہ تعالی کی ذات بستی ہے۔۔ بابا بلھے شاہ نے کہا تھا ؎ مندر ڈھادےمسجد ڈھادے۔۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج میں کسی فلم ۔۔دلاں دے سودے ۔۔۔ کی بات نہیں کر رہا اور نہ
اس شعر کی تفصیل بیان کر رہا ہوں ؎
اسّاں سودے کیتے دلاں دے۔۔۔
اسّاں کیتے نین وکیل ۔۔۔
بلکہ میں بات کر رہا ہوں ۔۔
دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دِیاں جانے ھو۔۔۔۔ کیونکہ سمندروں اور دریاؤں کی گہرائی و وسعت کی پیمائش تو ممکن ہے مگر دل وہ سمندر ہےجس کی گہرائی و پہنائی کو ماپنا ناممکن ہے کیونکہ انسان کے دل میں تو اللہ تعالی کی ذات بستی ہے۔۔ بابا بلھے شاہ نے کہا تھا ؎ مندر ڈھادےمسجد ڈھادے۔۔
ڈھادےجو کجھ ڈھیندہ۔۔
اک بندہ دا دل نہ ڈھاویں۔۔
رب دلاں وچ ریندہ۔۔
ڈیرہ اسماعیل کی دیہی زندگی جہاں میں پلا بڑھا اپنے اندر ایک نور رکھتی تھی۔اب تو شھر بن گیا لیکن دور دراز ایسے گاٶں موجود ہیں۔ اس گاٶں کی خاص بات یہ تھی کہ سب لوگ ایک status کے غریب محنت کش تھے۔ہمارے پاس کوئ وڈیرا جاگیردار نہیں تھا ۔غریب لوگوں میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کرنے اور بانٹ کے کھانے کے عادی ہوتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی جب بچہ تھا تو اس کی ماں اسے دو آنے دیتی اور کہتی ایک آنے کی چیز لینا ایک دوسروں میں بانٹ دینا۔ ہم گاٶں کے لوگ کچھ اس طرح وقت گزارتے اور اب ہمارے اوپر بھی لالچ ہوس کا رنگ چڑھ چکا ہے۔
خیر جب ریڈیو پاکستان پشاور میری پوسٹنگ ہوئی تو گلبرگ میں مکان لے کر رہائش اختیار کی۔اس وقت میری بیٹے بیٹیاں کالج لیول تک پہنچ چکے تھے۔جس گلی میں رہتا تھا سب لوگ اجنبی تھے تو پڑوس کی ایک دو چھوٹی بچیاں کبھی کبھی ہوم ورک میں کسی سوال میں مشکل ہوتی تو میری بیٹیوں سے آ کے پوچھ لیتں۔ ہم لوگ گھر میں قران کے سارے سیپارے اپنے پاس رکھتے تھے اور سب ملکر کچھ وقت قران پڑھ لیتے۔جب محلے کی بچیوں کو پتہ چلا تو وہ ماٶں کو لے کر آ گئیں کہ ہماری بیٹیوں کو قران پڑھائیں اور پھر چھوٹی بچیوں کی ایک کلاس بن گئی۔مہینے کے آخر چھوٹی بچیاں ہاتھوں میں کچھ رقم لے کر آئیں کہ یہ ٹیوشن فیس ہے قران پڑھانے کی۔ اب جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا ہم تو گاٶں میں ایک دوسرے کی بغیر معاوضہ مدد کے عادی تھے تو رقم واپس کر دی کہ ہمارے پاس بچے مفت پڑھینگے چاہے قران ہو یا سکول کی کتابیں۔
لو جی اس معمولی عمل سے سارا محلہ ہمارا یوں سمجھیں مرید بن گیا اور سب لوگوں سے ایسا تعلق بنا جیسے خون کے رشتوں کا۔ اور پھر جب میں اسلام آباد ٹرانسفر ہوا اور رخت سفر باندھ کے ہم گھر چھوڑ رہے تھے اس وقت بارش ہو رہی تھی اور سب محلے کی عورتیں اور بچیاں آنکھوں میں آنسو لیے میرے بچوں کو رخصت کر رہی تھیں۔ یہ ہے انمول محبت جس کے متعلق میں کہتا ہوں
اس کائنات میں محبت سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔۔سب کچھ محبت ہے انسان سے انسان پھر انسان سے کائنات اور پھر کائنات سے خدا تک کا
سفر ۔۔۔

%d bloggers like this: