مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماں کے ہاتھ کی روٹی||ڈاکٹر مجاہد مرزا

کوئی اور ماں ہوتی تو ناراض ہو جاتی اور ممکن تھا رونے بھی لگ جاتی مگر وہ تو میری اماں تھیں، بولیں ذائقہ تو ایک سا ہی رہنا تھا کیا فرق ہو سکتا تھا۔ یوں مجھے معلوم ہوا کہ اصل میں جو ماں کے ہاتھ سے بنی روٹی کے سواد کا ذکر کرتے تھے، ایک تو ان کے گھروں میں یقینا" ماں ہی روٹی بناتی ہوگی دوسرے وہ ماں کی محبت کا تقابل ایک انجان باورچی کے پیشے سے کر رہے ہوتے تھے۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اور چھوٹا بھائی اپنے والدین کی آخری اولاد تھے۔ بہنیں بڑی ہو چکی تھیں۔ باورچی خانے کا سارا کام انہوں نے سنبھالا ہوا تھا۔ گھر کے دوسرے کاموں میں ان کی معاونت کے لیے والدہ کی شاگرداؤں کا ایک ہجوم ہوتا تھا جو ان سے قرآن اور بہشتی زیور پڑھتی تھیں۔ والدہ کا کام یا تو حکم چلانا ہوتا تھا یا رسالہ خدام الدین پڑھنا۔ حکم بھی ایسا کہ سالن بنانے کی خاطر مصالحہ کے اجزاء ان کو دکھانے ہوتے تھے۔ کیا مجال جو مقدار میں کوئی کمی بیشی کر سکے۔ خط خود نہیں لکھا کرتی تھیں کیونکہ ان کو گھر میں پڑھایا گیا تھا، لکھنا سکھایا گیا مگر مشق نہیں کرائی گئی، اس لیے ان کا خط اچھا نہیں تھا چنانچہ وہ خط لکھوایا کرتی تھیں اور ہر فقرہ لکھوانے کے بعد سنتی تھیں کہ کسی لفظ کی ردوبدل تو نہیں کی گئی۔ میں خود کو ادیب صفت جان کے کوئی تبدیلی کرتا تو وہ بھنا جاتی تھیں۔ ایک دو خط لکھوانے کے بعد میری اس بے ایمانی کے سبب مجھ سے خط لکھونا چھوڑ دیا تھا۔
یوں میری ماں کھانا بنواتی تھیں اور روٹی لگتا تھا انہوں نے شاید کبھی بنائی ہی نہ ہو۔ علی پور کے سکول میں تو کسی سے ماں کے ہاتھ کی روٹی کے "سواد” کا ذکر نہیں سنا تھا۔ شاید اس کی وجہ سکول میں معدودے چند پنجابیوں کا ہونا تھا۔ طالبعلم زیادہ تر مقامی تھے جنہیں ہم انصار کہتے تھے اور متعصب مہاجر ” گھنسو” کہتے کیونکہ وہ لوگ لینے کو "گھنسوں” بولتے تھے یا پھر مہاجرین کے بچے تھے جیسے میں۔ سرائیکیوں اور مہاجروں کا ماں کے بارے میں رویہ لگتا تھا کچھ عاقلانہ تھا اور غالبا”پنجابیوں کا جذبات پر مبنی۔ البتہ جب پڑھنے کے لیے لاہور گیا اور اقامت گاہ میں مقیم ہوا تو ” ماں دے ہتھ دی روٹی” کے سواد کا اتنا ذکر سنا کہ مجھے اپنا آپ ایک نعمت سے محروم شخص لگنے لگا تھا۔
ہمارے گھر میں روٹی بنانے کی ذمہ داری بڑی، جو بیاہی گئی تھیں کے بعد والی بہن کی تھی اور روٹیاں آج بھی وہی بناتی ہیں۔ بہن ضمیرہ کے علاوہ اگر روٹی کو کوئی ہاتھ بھی لگا دیتا تو میں نہیں کھاتا تھا۔ ضمیرہ کا ہاتھ لگنا بھی اس لیے برداشت تھا کہ روٹی پک کر پاک صاف ہو جاتی تھی۔ ایسا مزاج رکھنے میں جہاں میرا گھر بھر کا لاڈلا ہونا شامل تھا وہاں بچپن سے ہی حفظان صحت سے متعلق باشعور ہونا بھی تھا۔ خیر ایک بار جب چھٹیوں میں گھر آیا تو میں نے ضد کر ڈالی کہ مجھے اور نہیں تو کم سے کم ایک روٹی اماں اپنے ہاتھ سے بنا اور پکا کر دیں گی۔ ماں نے بڑا کہا کہ میں بھول چکی ہوں مگر میں کہی بات سے رکنے والا تھا نہیں اوپر سے لاڈلا تو ماں نے بڑی شاندار گول، معتدل سینکی گئی روٹی بنا کے اور دیسی گھی سے چپڑ کر میرے آگے رکھی۔ ذائقے کی تخصیص کرنے کی خاطر میں نے بہت متوجہ ہو کر کچھ سالن کے ساتھ اور کچھ بغیر سالن کے روٹی کھا کے دیکھی۔ اماں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ سچ کہہ دیا کہ اماں کے ہاتھ سے بنی اور ضمیرہ کی بنائی روٹیوں کے ذائقے میں ہبہ بھر بھی فرق نہیں۔ وہی گندم کے پکے ہوئے آٹے کا ذائقہ ہے۔
کوئی اور ماں ہوتی تو ناراض ہو جاتی اور ممکن تھا رونے بھی لگ جاتی مگر وہ تو میری اماں تھیں، بولیں ذائقہ تو ایک سا ہی رہنا تھا کیا فرق ہو سکتا تھا۔ یوں مجھے معلوم ہوا کہ اصل میں جو ماں کے ہاتھ سے بنی روٹی کے سواد کا ذکر کرتے تھے، ایک تو ان کے گھروں میں یقینا” ماں ہی روٹی بناتی ہوگی دوسرے وہ ماں کی محبت کا تقابل ایک انجان باورچی کے پیشے سے کر رہے ہوتے تھے۔
اس کے علاوہ، ان کے اس ناستلجیا سے ایک اور بات جو سمجھ آئی وہ یہ تھی کہ ہم گفتگو میں مستعمل فقروں کے استعمال کے رواج کے کتنے اسیر ہو جاتے ہیں کہ نہ صرف عام استعمال ہونے والا فقرہ بولتے ہیں بلکہ اس کے حقیقت ہونے پر بھی شدت سے یقین کرنے لگ جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو کہہ کہہ کر واقعی ماں کے ہاتھ سے بنی روٹی ” سواد ” لگنے لگ جاتی ہے اور اکثر اوقات سواد نہ بھی لگے تو اپنی کہی بات پر ڈٹے رہنے کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں۔
مائینڈ سیٹ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ایک مائنڈ سیٹ اس بات پر یقین کر لیتا ہے کہ "ادھر ہم ادھر تم ” کا فقرہ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا مگر دوسرا مائنڈ سیٹ اطہر عباس کی کہی اس بات کو مانتا ہے کہ یہ اخبار کی سرخی تھی جو انہوں نے سوچی تھی۔ ایک آج بھی ذمہ داروں کو بچانے کی خاطر کہتے ہیں، "اگر اقتدار مجیب کو دے دیا جاتا تو بنگلہ دیش نہ بنتا” دوسرے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب محمد علی جناح نے اردو، اردو اور اردو کو ہی قومی زبان قرار دیے جانے کا اور وہ بھی ڈھاکہ میں اعلان کیا تھا تو بنگالیوں میں
مختلف ہونے کا احساس پیدا ہو گیا تھا۔ پھر یہ کہ اقتدار کس نے مجیب کو دینا تھا بھٹو نے یا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یحیٰی نے؟ تو کیوں نہیں دیاِ؟ کیا اس بارے میں آئی ایس پی آر ماضی کے مزار سے کوئی سچ برآمد کرکے افشا کرے گا؟
ارے آپ بہت بھولے ہیں ویسے ہی جیسے ماں کے ہاتھ کی بنی روٹی کا مختلف سواد ذہن میں پال کے اسی کو سچ سمجھنے والے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: