اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کماں بدست : تخلیقی کالموں کی انجمن سجی ہے||عامر حسینی

ایسے مں اگر کوئی اپنے کالموں میں معروض کی سچائی خوفناک صاف گوئی سے منتقل کردیتا ہے تو اسے داد دینا بنتی ہے۔ اور ایسا ہی ایک کالم نگار قیصر عباس صابر ہے۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اس نتیچے پہ پہنچا ہوں کہ کسی بھی طبقاتی سماج میں "بالشتیہ پن ” خود آگہی کے عذاب سے پیدا ہونے والی گھٹن اور انیگزائٹی سے آپ کو محفوظ رکھتا ہے۔ اس لیے ہمیں مین سٹریم میں بالشتیے لکھاریوں کی ایک نہ ختم ہونے والی صف نظر آتی ہے اور اس سے کہیں زیادہ صفیں انتظار میں بیٹھے بلشتیے لکھاریوں کی نظر آتی ہیں- جنھیں دیکھ کر ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ پورے قد کاٹھ کا لکھاری مین سٹریم میں جگہ نہیں پاسکتا۔
جیسے ججوں میں ایسا حاضر سروس جج تلاش کرنا ممکن نہیں ہوتا جس نے ایک بھی پی سی او پہ حلف نہ لیا ہو اور مین سٹریم عدالتی دھارے میں بھی ہو ، جیسے آج کل ایسا وکیل تلاش کرنا مشکل ہے جو عدالتی اسٹبلشمنٹ کی کسی لابی سے نہ جڑا ہو اور مین سٹریم بار سیاست میں بھی ہو، جیسے آج کل ایسا صحافی ڈھونڈنا مشکل ہے جو کسی طاقتور لابی سے جڑا ہوا نہ ہو اور مین سٹریم میڈیا میں بھی موجود ہو ۔ ہمیں ایسا انسانی حقوق کا رضا کار ملنا مشکل ہے جو "انسانی حقوق” کے سوال پہ کسی سے رعایت نہ کرتا ہو اور وہ انسانی حقوق کی مین سٹریم اشرافیہ میں اس کا شمار ہوتا ہو۔ ہمیں جامعات میں "پوراسچ” بولنے والا استاد نایاب نظر آتا ہے۔ ہاں کچھ ایسے فنکار ضرور ہیں جو "بالشتیے” تو نہیں ہیں لیکن وہ "جزوی تقیہ” کے ساتھ گاہے بگاہے اپنی ضمیر کی آواز کو باہر لیکر آجاتے ہیں اور ان کے اندر کا بڑا آدمی انہیں وقفے وقفے سے "سچ کی سفاکی” کو باہر لانے پہ مجبور کردیتا ہے اور یوں ہمیں کچھ دیر ان کے اندر کا باضمیر انسان بولتا ہوا سننے کو مل جاتا ہے۔ درمیانے طبقے کے اکثر پروفیشنل اپنے شعور اور اپنے آگہی کو "بالشتیہ پن” کی نذر کرکے "زندگی اور مردنی ” کے درمیان کی لائن اختیار کرلیتے ہیں اور اس دوران ان میں سے کچھ کو بات کہنے کو اسٹیج بھی بار بار ملتا ہے اور لکھنے کو مین سٹریم دھارا بھی مل جاتا لیکن وہ ہمیشہ کاسمیٹک گفتگو کرتے ہیں۔ اور کاسمیٹک بھی دو سے تین نمبر جس کا بھدا پن بار بار سامنے آجاتا ہے ان میں کوئی ایک مشکل سے "عرفان صدیقی” ہوتا ہے جسے بالشتیہ پن کو مسجع ومقفع الفاظ کے پیچھے چھپانا آتا ہے۔ یا حادثاتی طور پہ کوئی "وجاہت مسعود” مل جاتا ہے جو "چراغ حسن حسرت” کا اسلوب تحریر سے ملتا جلتا اسلوب اختیار کرتا ہے اور اپنی کمپنی کے بالشتیوں کو پرموٹ کرنے لگتا ہے اور ایسی گراوٹ کی عنیک لگاتا ہے اسے کوئی پھکڑ باز "پابلو نرودا ” نظر آنے لگتا ہے اور تو اور مریم نواز کی آواز راحت نصرت سے زیادہ بہتر لگنے لگتی ہے۔ مجھے نہیں پتا وجاہت مسعود نے اپنے اندر کے "ضمیر” کو فقط بے ہوش کیا ہے یا اسے سرے سے مار دیا ہے لیکن اتنا پتا ہے کہ آج کل ان کا ضمیر ” مسنگ پرسنز میں شامل ہے۔
ایسے مں اگر کوئی اپنے کالموں میں معروض کی سچائی خوفناک صاف گوئی سے منتقل کردیتا ہے تو اسے داد دینا بنتی ہے۔ اور ایسا ہی ایک کالم نگار قیصر عباس صابر ہے۔
یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: