مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وسیب یاترا اور صوفی تاج میلہ||رانا محبوب اختر

ہمارا یار ، تاج خان گوپانگ ایک انقلابی صوفی تھا۔ پروفیسر سبطین کا بابا،انجینئر شاہنواز خان مشوری اور عثمان کریم بھٹہ کا mentor، عاشق خان بزدار اور منظور خان دریشک کا دوست، ایک روشن ضمیر آدمی تھا۔ میلے میں خلقت کا پانچواں چراغ، جھمر اور ڈھول کی تھاپ نے روشن کر دیا تھا اور لوکائی مستی میں رقصاں تھی:

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاترا اور سفر میں فرق ہے۔ سفر تمام ہوتا ہے۔ یاترا ، خواہش _ ناتمام ہے ۔ عشق _ حقیقی کے سالک کی طرح یاتری کی تقدیر تشنگی ہے۔مسافر کی مراد منزل ہے۔یاتری کی منزل قلب و نظر کی روشنی ہے۔ دیشوں ، شہروں ، بستیوں اور ان میں آباد لوگوں تک رسائی کے بہت سے راستے ہوتے ہیں۔ سب سے معتبر راستہ مگر محبت کا ہے۔ محبت کے بغیر یاترا، پر خطر سفر ہے۔ یاتری ، حیرت کے جہان کے سالک ہوتے ہیں۔ بے قرار زائر ، زیارت سے قرار پاتے ہیں ۔شاعر، علامت اور استعارے سے حسن کے بیان کو گدلا کرتے ہیں۔ ولی اپنی کرامتوں کے باوجود زبان کے کوہ_ نور کے سامنے چندھیا جاتے ہیں۔ یاتری کا بیان بس مقتول کے بیان _ حلفی کی طرح "کٹا پھٹا” سچ ہوتا ہے۔ ہماری وسیب یاترا کئی قرنوں پر محیط ہے۔ ہند سندھ کی داستان ہے۔بر صغیر کی کہانی کیلاش سے سندھو دریا کے ساتھ سندھ وادی تک چلتی ہے۔ مان سروور سے موئن جو دڑو تک سندھو کا دھارا تہذیب و تمدن کا امرت دھارا ہے۔ سمبارا سے سسسی تک محبت کی ایک لا مختتم داستان ہے۔ مونجھ کی کہانی ہے۔مزاحمت کا رزمیہ ہے۔ روح کی مونجھ عورت کا جسم بن کر لوک شاعری میں وسیب کی داستان کہتی ہے۔ کہانی اور داستان میں فرق یہ ہے ۔کہانی ختم ہو جاتی ہے ، داستان ناتمام اور جاری رہتی ہے۔قصہ در قصہ چلتی ہے۔ وسیب کی طولانی داستان اساطیر کی چنڑی اوڑھے کسی حسینہ کی طرح ہمارے ساتھ چلتی ہے۔

وسیب یاترا ، لوکائی سے ملنا ہے۔ افتادگان_ خاک کی زیارت ہے۔ دشت پیمائی ہے۔ تاریخ اور تہذیب سے مصافحہ ہے۔ کسی مزار پر منوتی کے چراغ کی لو کے ساتھ جلنا ہے۔ دھمال ڈالنے والوں کی محرومیوں اور غربت کی تفہیم ہے ۔آثار _ قدیمہ کی مدد سے تاریخ کی تعمیر_ نو ہے۔تھر کے موروں کے ساتھ ناچنا ہے۔ چولستان کے ہرن کے ساتھ بھاگنا ہے ۔ سندھ کے ملاحوں اور موروں کے ساتھ دریا کی لہروں پر چلنا ہے ۔ شاہ رکن _ عالم کے مزار کے جنوبی راستے سے مزار کے تعمیراتی معجزے میں ولایت کے جلووں کا نظارہ ہے۔ گڑھی خدا بخش کے گنج _ شہیداں میں سوئے زمیں زادوں کے خون کے رنگ کی سرخی ہے:

عشق از مشت_ خاک آدم ریخت
آں قدر خوں کہ رنگ_ عالم ریخت
(عشق نے آدمی کی خاک سے اتنا خون نچوڑا ہے کہ دنیا رنگین ہو گئی ہے)

یاترا میں سماجی ضمیر کی معطلی کے بعد وہ ابدی، لامتناہی، تکثیری اور متنوع جہان دکھائی دیتا ہے جسے سندھ وادی کہتے ہیں۔ یہ ثقافتی پاکستان ہے جو کلچرل فیڈرل ازم کا مظہر ہے۔ سندھ وادی جس کے مور اور موہانے ، بابل و نینوا تک تجارت کرتے تھے اور جس کے دونوں کناروں پر آباد وسیب کے سورما عام لوگ ہیں۔ ایسے جہان کی سیر محبت کی داستان ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ پوسٹ کولونیل دنیا میں جدیدیت پر استوار استعمار نے عقل سے زیادہ عقیدت کی سرپرستی کی ہے۔ مذہبی تفریق کو فرقوں اور نفرت میں بدلا ہے۔ پوسٹ ماڈرن عہد میں سندھ وادی مگر تاریخ کی سامراجی کتاب کو مشال فوکو، ایڈورڈ سعید، گیاتری سپوک، ہومی بھابھا اور ناصر عباس نیر کی مابعد نوآبادیاتی فکر کی روشنی میں پڑھ رہی ہے ۔ آہستہ آہستہ سامراجی پیراڈائیم کی تفہیم ہو رہی ہے۔ مقامی آدمی کی مونجھ کو اسلم جاوید، عاشق بزدار، اشو لال اور رفعت عباس نے مزاحمت آشنا کیا ہے۔ کبیری بیانیوں کے بعد ہمارا بیانیہ ہماری تاریخ بن رہا ہے۔ پوسٹ ماڈرن تفہیم کی بھٹی سے کندن ہو کر ہماری عقیدت ، اندھے اعتقاد کی دشمن ہے اور دلیل کی برہان_ قاطع کے علاوہ ہماری ہمارے پاس کوئی ذوالفقار نہیں ہے۔

سرائیکی وسیب دریائے سندھ کی سلطنتوں کا حصہ ہے اور وسیب کا قصہ راوی اور چناب کے کناروں پر آباد وسیب کے مرکزی شہر ملتان سے جڑا ہوا ہے۔ ایک پر امن ، کثیر المذہب اور کثیر اللسان شہر جہاں موحد پرہلاد،سہروردی بہاؤالدین ذکریا اور نزاری اسماعیلی، پیر شمس سبزواری ، پرامن ہمسائے ہیں۔ ایک قدیم اور عظیم شہر، جہاں ڈاکٹر اسلم انصاری ، ڈاکٹر اے بی اشرف، ڈاکٹر اسد اریب اور ڈاکٹر انوار احمد ، علم و ادب کی آبرو ہیں۔ جہاں فیروز پور کے پنجابی گھرانے کا ایک راجپوت، سرائیکی شاعری کا امام ہے ۔شمیم عارف ملوہے کا مدح سرا ہے اور رفعت عباس ملتان اور مقامیت کا سفیر ہے :

سنڑدے ہائیں جو پہلے تاں خود ان ملتان بنایس
وت کتھاہیں نیل جو بچیا ایہ اسمان بنایس

پچھلے ڈیڑھ مہینے میں اس یاتری نے سندھ وادی میں لگ بھگ پانچ ہزار کلو میٹر سیر کی ہے۔ ہمارے سنگھ کا مستقل پڑاو ہمیشہ سے سدا آباد ملتان ہے۔ شاہنواز خان مشوری ، محمود خان اور عثمان کریم بھٹہ سوجھل نوجوان ہیں۔ چار اکتوبر 2021 کو ملتان میں وہ وسیب کی اجتماعی دانش کے میزبان تھے۔ عاشق بزدار، ظہور دھریجہ ، احمد نواز سومرو ، جاوید چنڑ ، منظور خاں دریشک ، اسلم جاوید، شاہ نواز مشوری ، شوکت اشفاق ،سعدیہ کمال ، رانا فراز نون، اجالا لنگاہ، جام اظہر مراد، مظہر سعید گوپانگ اور اسلم خان گورمانی نے باہمی مشاورت سے وسیب یاترا کا فیصلہ کیا تھا۔ یاترا کے دو بڑے مقاصد تھے۔(1) آئین کے آرٹیکل 238 اور 239 کے مطابق سرائیکی صوبے کے قیام کے لئے سیاسی جدوجہد کو تیز کرنے کے لئے پورے وسیب کی یاترا، آگاہی مہم اور تمام سٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کا آغاز ؛ (2) وسیب کی تاریخی اور ثقافتی بازیافت ۔ کار_ سیاست ، ہمارے ہیروز نے اجتماعی دانش کے چراغوں کی روشنی میں کرتے ہیں اور ہم جیسے کم مایہ یاتریوں کی یاترا بھی جاری ہے!

ثقافتی بازیافت کا پہلا پڑاو 21 اکتوبر 2021 کو رحیم یار خان میں جہانگیر اندھڑ کے ہاں تھا ۔ جہانگیر خان کے گھر بزم فرید کے دوستوں، مظہر سعید گوپانگ ، خلیل بخاری، رازش لیاقت پوری، خاموش طبع قاضی وحید ، ذوالفقار گبول، اکرام گبول، احمد فراز اور بہت سے دوسرے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔یہ ایک یادگار شام تھی ۔ رفعت عباس کی گفتگو سے یاترا کا آغاز ہوا تھا۔ اگلے دن صبح رحیم یار خان سے سندھ روانہ ہو گئے تھے۔ سندھ یاترا کی داستان میری آنے والی کتاب” سندھ: صوفی اور سورما ( ایک یاتری کی یادیں)” کا موضوع ہے۔ سرائیکی وسیب کا صوبہ سندھ کے ساتھ رشتہ ،سندھ دریا کی لہروں کی طرح ہے۔ ہر لہر جدا ہونے کے باوجود، سندھ وادی کا تمدنی دریا ایک ہے۔ مہر گڑھ سے موئن جو دڑو اور ہڑپہ سے ہمالیہ تک سندھو نے تمدن کو پانی پلایا ہے۔ سندھ وادی، آج کا پاکستان ہے۔

وسیب کی ثقافتی بازیافت کا دوسرا پڑاو فاضل پور کا صوفی تاج میلہ تھا۔ تین دسمبر 2021 کی شام، محمود مہے ، اصغر گرمانی اور باسط بھٹی کے ساتھ فاضل پور پہنچے تو میلہ جم رہا تھا۔میلہ ، ملاپ سے ہے۔صوفی کی موت پر میلہ یا عرس ہوتا ہے کہ صوفی موت کو وصل کہتے ہیں ۔ یہ ایک انقلابی صوفی کی یادوں کا میلہ تھا ۔ انسان دوست اور ترقی پسند صوفی تاج نے ایک نسل کو متاثر کیا ہے۔ اہل نظر صوفیوں کی تین قسمیں بتاتے ہیں۔ درباری صوفی ، تارک الدنیا صوفی اور انقلابی صوفی! درباری صوفیوں اور تارک الدنیا صوفیوں کی دنیا ہم غریبوں سے الگ ہے۔علامہ اقبال، ایسے صوفیوں اور بادشاہوں میں امتیاز نہیں کرتے تھے:

نہیں فقر و سلطنت کچھ امتیاز ایسا
یہ نگہ کی بادشاہی وہ سپہ کی بادشاہی

ہمارا یار ، تاج خان گوپانگ ایک انقلابی صوفی تھا۔ پروفیسر سبطین کا بابا،انجینئر شاہنواز خان مشوری اور عثمان کریم بھٹہ کا mentor، عاشق خان بزدار اور منظور خان دریشک کا دوست، ایک روشن ضمیر آدمی تھا۔ میلے میں خلقت کا پانچواں چراغ، جھمر اور ڈھول کی تھاپ نے روشن کر دیا تھا اور لوکائی مستی میں رقصاں تھی:

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم

فاضل پور میں لوگ اپنے یار کے پہلو میں ناچتے تھے ۔محبت کی بادشاہی تھی۔ غربت اور تعصب سے ماورا لوگ ڈھول کی تھاپ پر جھمر کھیلتے تھے ۔ جھمر سے زندگی کا توازن بحال تھا۔ موت پر زندگی کی فتح کا جشن منایا جا رہا تھا۔ اسی دوران ایک دوست نے میرے کان میں سیالکوٹ میں سری لنکا کے ایک شہری کو قتل کرکے لاش جلانے کی اندوہناک خبر سنائی تھی ۔ موت نے زندگی پر اوچھا وار کیا تھا۔ ایک ideology -infected ہجوم نے ثواب کی خاطر ایک پردیسی کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا ۔صوفی تاج کے فاضل پور میں لوکائی جھمر کھیلتی تھی اور شاعر_ مشرق، علامہ اقبال کے سیالکوٹ میں لوگوں نے اجتماعی قتل کیا تھا ! عجب paradox تھا۔ میرے سامنے خوب صورت چہروں کا میلہ لگا تھا اور چہروں کی اس کہکشاں میں سیالکوٹ کے دو دوستوں، ایک بخاری سیدہ اور شیخ فرخ کے نورانی چہرے دمکنے لگے تھے۔ میرے دل میں بے ساختہ تمام پاکستانیوں کے لئے ایک دعا جاری ہو گئی تھی۔ "شاہنامے” کے خالق فردوسی کی دعا۔ اس نے اپنی محبوبہ ، رخ_ زیبا کو ایک خط لکھا تھا جس کا پہلا جملہ یہ تھا کہ ” خدا تمھارے چہرے کی طرح تمھارے ضمیر کو روشن کر دے”۔ ناتمام وسیب یاترا کی سب اگلی مسافتوں میں یہ دعا میرا وظیفہ بن گئی ہے!

%d bloggers like this: