مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیدھی لکیر کی طرح زندگی۔۔۔ || مجاہد حسین خٹک

خود بھی خطرات سے کھیلیں اور بچوں میں بھی یہی جذبہ پیدا کریں۔ کیونکہ ایسے افراد نے یا ان کے بچوں نے پیدا ہو کر اس دنیا پر کوئی احسان نہیں کیا۔ ان سے پہلے اربوں لوگ اس دھرتی پر بوجھ کی مانند پیدا ہوئے اور رخصت ہو گئے۔ آئندہ بھی ان جیسوں کی ہی کثرت ہو گی۔

 

مجاہد حسین خٹک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر آپ کو سیدھی لکیر کی طرح رواں دواں آسان زندگی مضطرب کر دیتی ہے اور آپ اکتا کر ان دیکھے رستوں پر قدم رکھنے کا خطرہ مول لے لیتے ہیں تو غالب امکان ہے کہ آپ مستقبل میں اپنے برابر کے لوگوں سے بہت آگے نکل جائیں گے۔
کسی ملازمت سے برسہابرس چمٹے رہنا، ایک ہی کاروبار میں دن رات لگاتے رہنا، ایک ہی تکلیف دہ رشتے میں الجھے رہنا یا ایک ہی زمین کے ٹکڑے سے رزق کھودتے رہنا۔ یہ سیدھی لکیر کی طرح زندگی کی چند مثالیں ہیں۔
ہمہ وقت رزق کی کمی سے خوفزدہ رہنا، سہولتیں تلاش کرنا اور آسان راستوں سے پیسہ کمانا سکون کا باعث نہیں ہوتا بلکہ نت نئے چیلنجز تلاش کرنا اور ان سے برسرپیکار رہنا حقیقی مسرت اور سکون بخشتا ہے۔
انسان پتھروں کے دور سے ڈیجیٹل دور تک پہنچا ہے تو اس کے پیچھے ایسے ہی لوگ ہیں جو قلیل تعداد میں سہی لیکن ہر دور اور معاشرے میں پیدا ہوتے رہے ہیں۔ جن کے مزاج میں بغاوت تھی اور جو پامال راستوں پر چلتے کارواں کو ترک کر کے اجنبی پتھریلی پگڈنڈیوں کی جانب اپنا رخ موڑ لیا کرتے تھے۔
آج کےدور میں ایسے افراد کی نمایاں مثالیں بل گیٹس، ایلان مسک اور ان جیسی دیگر شخصیات ہیں۔ ماضی میں دنیا کا رخ تبدیل کرنے والے عموماً جنگجو ہوا کرتے تھے۔ آج یہ راستہ بند ہو چکا ہے، اب صرف علم کی دنیا کے ذریعے انسانیت کو نئی راہیں فراہم کرنا ممکن ہوا ہے۔ مستقبل میں بھی علم کے رستے ہی انسانیت کا رخ متعین ہو گا۔
اس لیے جو نوجوان آج بھی الجہاد فی الاسلام اور ان جیسی کتب پڑھ رہے ہیں، وہ مسلمانوں کی زندگی میں کوئی انقلاب نہیں لا پائیں گے۔ ان کی تمام تر انقلابی روح کسی یورپی ملک کی خنکی میں ٹھٹھر کر رہ جائے گی یا پھر وہ اپنے گروہ کی سفارش پر وائٹ کالر جاب کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔
اپنے ہمسائیہ ممالک میں دیکھیں تو چین اور بھارت میں بھی وہی لوگ سماج میں تبدیلی لا رہے ہیں جنہوں نے علم کا رستہ اختیار کیا ہے۔
اس لیے اگر آپ معاشرے کو مفید کارکن فراہم کرنا چاہتے ہیں تو اپنے بچوں میں خطرات سے کھیلنے کا جذبہ پیدا کریں۔ انہیں اپنی پسند کے سانچے میں ڈھالنے کے بجائے خود سے سوچنے اور فیصلے کرنے کی جرات فراہم کریں۔
مجھے ہمیشہ ان خیالات سے کراہت محسوس ہوتی ہے جن میں بچوں کی تربیت کے ایسے طریقے بتائے جاتے ہیں جو انہیں سیدھی لکیر سے نا بھٹکنے دیں اور انہیں ایک ہموار رستے پر چلنے والے بزدل روبوٹ بنا دیں۔
خود بھی خطرات سے کھیلیں اور بچوں میں بھی یہی جذبہ پیدا کریں۔ کیونکہ ایسے افراد نے یا ان کے بچوں نے پیدا ہو کر اس دنیا پر کوئی احسان نہیں کیا۔ ان سے پہلے اربوں لوگ اس دھرتی پر بوجھ کی مانند پیدا ہوئے اور رخصت ہو گئے۔ آئندہ بھی ان جیسوں کی ہی کثرت ہو گی۔
تو کیوں نا ہم خود کو اور اپنے بچوں کو اس قلیل تعداد والے منفرد طبقے کا حصہ بنائیں جو سماج کے کسی ایک پہلو کو بدلنے کی آرزو رکھتا ہو۔ جس کی روح میں بغاوت ہو اور جس کے خون میں پارے کی طرح بیقراری دوڑ رہی ہو۔

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

مجاہد حسین خٹک کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: