مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آدمیوں کے جنگل میں جی رہے ہیں ہم||حیدر جاوید سید

سیالکوٹ کے سانحہ نے دو واقعات فوراً یاد دلائے اولاً لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج عارف اقبال بھٹی کا سفاکانہ قتل اور دوسرا بہاولپور کے قصبے چنی گوٹھ میں ایک فاترالعقل کو توہین مذہب کے الزام میں تھانے سے نکال کر زندہ جلائے جانے کا واقعہ۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت محنت کی گئی ہے اس سماج کو ’’یہاں تک‘‘ لانے کے لئے۔ ویسے اب خطرے والی کوئی بات نہیں کیونکہ ’’سب کو سب‘‘ سے ہی خطرہ ہے۔ یہ بجا ہے کہ اس ساری صورتحال کے ذمہ داروں میں ریاست بھی شامل ہے لیکن یہ کہنا کہ تنہا ریاست شامل ہے، درست بات نہیں۔
جب بھی بات شروع ہوگی قرارداد مقاصد سے بات شروع کرنا پڑے گی۔ چلیں یہ 1971ء سے پہلے کہ پاکستان کی بات ہے۔ ہم اور آپ 1971ء کے بعد والے پاکستان میں زندہ ہیں۔ شکر کریں زندہ ہیں۔
یہاں نام سے عقیدے کا فیصلہ ہوتاہے اور پھر یہ طے کہ احترام کرنا ہے یا دھتکارنا ہے۔
سانحہ سیالکوٹ کے بعد عمومی عوامی ردعمل امید افزا ہے مگر کیا سوشل میڈیا پر آنے والا ردعمل سماج میں کسی تبدیلی کا دروازہ کھول سکے گا؟
جو بھی ہو بات تو ہوئی اور یہ بھی ہوا کہ تعلق واسطوں سے کچھ لوگوں نے محنت کی اور صل کہانی کھوج کر لے آئے۔
نرجس کاظمی معروف صحافی ہیں، ان کا آبائی تعلق بھی سیالکوٹ سے ہے اس لئے دوسرے دوستوں کے مقابلہ میں انہیں معلومات حاصل کرنے میں سہولت رہی۔ ان کی رپورٹ کے مطابق اصل قصہ یہ ہے کہ
” توہین مذہب کے الزام میں مارے گئے سری لنکن شہری پریانتھاکمارا فیکٹری میں پروڈکشن منیجر تھے۔ چند دن بعد ایک بڑے عالمی نیٹ ورک نے اسی فیکٹری کا دورہ کرنا تھا اس لئے وہ فیکٹری کے اندر صفائی کے انتظامات سے مطمئن نہیں تھے۔ مسلسل صفائی کے انچارج سپروائزر سے کہہ رہے تھے کہ غیرملکی وفد کی آمد سے قبل صفائی کو بہتر بنالیا جائے۔ جمعہ کی صبح بھی ان کی سپروائزر سے اسی معاملے پر بات ہوئی۔ فیکٹری کے ایک اور منیجر (نام احتیاطً نہیں لکھ رہا رپورٹ میں موجود ہے) پروڈکشن منیجر کی تنخواہ اور مراعات کے حسد کا شکار تھے۔ جمعے کی صبح نتھاکمارا اور صفائی سپروائزر کے درمیان ہوئی تلخ کلامی کو مذہبی رنگ دینے میں اس منیجر کا بنیادی
کردار ہے "_
آگے بڑھتے ہیں
ایک شخص اپنا مادر وطن چھوڑ کر سیالکوٹ کی فیکٹری میں ملازمت اس لئے کررہا تھا کہ اس شہر کے صنعت کاروں نے پچھلے چند برسوں سے اپنی فیکٹریوں کو سری لنکا اور بنگلہ دیش کی انڈسٹریز کی طرز پر جدید بنانے کے لئے جتن شروع کردیئے تھے۔ اکثر مالکان نے بیرونی ماہرین کی خدمات حاصل کیں۔
نتھاکمارا 2011ء سے اس فیکٹری سے منسلک تھے۔ پروڈکشن منیجر کے طور پر انہوں نے نہ صرف فیکٹری کو جدید خطوط پر منظم کیا بلکہ مالکان کے لئے مزید منافع بخش بنادیا۔
اس کارکردگی کے مظاہرے پر دو باتیں ہوئیں ایک یہ کہ وہ مالکان کے منظور نظر ہوئے، تنخواہ اور مراعات دوسروں سے مزید بہتر ہو گئیں، دوسرا یہ کہ اپنے کام سے کام رکھنے اور نظم و ضبط کے معاملے میں ان کے مخالفین کا حلقہ وسیع ہوگیا اس میں انتظامی عہدیداروں کے ساتھ ورکرز اور سپروائزر بھی شامل تھے۔
جمعہ کے روز رونما ہونے والے اس المناک سانحہ کا جو پس منظر قاتل بتارہے ہیں وہ درست نہیں۔
بالفرض اگر وہ درست بھی ہو تو کس قانون میں لکھا ہے کہ ہجوم اپنی عدالت لگاکر بیٹھ جائے؟
تحقیقات کرنے والوں کو فیکٹری کے اس منیجر کے بارے بھی تحقیقات کرنا ہوں گی جس نے صفائی سپروائزر سے مل کر راستے کا کانٹا نکالنے کے لئے توہین مذہب کا الزام اچھالا اور انتظامی دفاتر کو اندر سے بند کروایا تاکہ انتظامی عملے کا کوئی رکن نتھاکمارا کی مدد کو نہ پہنچ سکے۔
اب آیئے اس بات پر غور کیجئے کہ کیا یہ سانحہ کسی بات کا فوری ردعمل تھا؟
اطلاعات یہ ہیں کہ کھچڑی کافی دنوں سے پک رہی تھی، فیکٹری انتظامیہ کے کچھ لوگ لیبر میں موجود اپنے ہرکاروں کے ذریعے ماحول کو خراب کررہے تھے، کیسے؟
وہ یوں کہ نتھاکارا سب سے زیادہ زور مشینوں اور ہال کی صفائی پر دیتے تھے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ان کی ہدایات کے برعکس شفٹ کے خاتمے پر مشینوں اور ہال کی صفائی میں غفلت برتی جارہی تھی۔
کام کے اوقات میں جتھہ بندی کرکے گپیں ماری جاتیں جواب طلبی پر تلخ کلامی کی جاتی۔ جمعہ کی صبح بھی یہی ہوا۔ نتھا کمارا کا صفائی سپروائزر سے یہ کہنا تھا کہ اگر کام اچھی طرح نہیں ہوگا تو مسائل پیدا ہوں گے۔
کہا یہ جارہاہے کہ ایک مشین پر پڑے رجسٹر کو اٹھاکر انہوں نے پوھچا کہ اس کا یہاں کیا کام۔ رجسٹر کو مذہبی سٹکر بناکر صفائی سپروائزر نے پیش کیا اور الزام لگایا کہ نتھاکمارا نے توہین مذہب کی۔
اصولی طور پر اس مرحلہ پر فیکٹری انتظامیہ کو آگے بڑھ کر معاملے کو دیکھنا چاہیے تھا لیکن انتظامیہ کے چند بااثر افراد تو خود سازش میں شریک تھے۔ شریک نہ ہوتے تو بالائی منزل کی چھت سے نتھا کمارا کو لے جانے ہی نہ دیتے جہاں وہ مشتعل ہجوم سے بچنے کیلئے پہنچے تھے
مگر وہ اپنے کمروں میں دبک گئے اور منصوبے کے مطابق فیکٹری ورکرز کو مشتعل کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی۔ نتیجہ کیا نکلا، ایک شخص پر تشدد کیا گیا جب وہ تشدد سے جاں بحق ہوگیا تو اس کی لاش کو گھسیٹ کر فیکٹری سے باہر شاہراہ پر لاکر نٓذرآتش کیا گیا۔ پھر سیلفیاں بنائی گئیں۔
یہاں آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پولیس کہاں تھی۔ پولیس کو فیکٹری کے اندر ہنگامے کی اطلاع ملی، لگ بھگ بیس منٹ میں چند پولیس اہلکار موقع پر پہنچے انہوں نے صورتحال کو دیکھتے ہوئے مزید نفری بھجوانے کی اطلاع دی۔
یہ درست ہے کہ چند پولیس اہلکار مشتعل ہجوم کو نہیں روک سکتے تھے۔ مان لیتے ہیں کہ انہیں روکنا چاہیے تھا لیکن ان اہلکاروں کے سامنے گزشتہ مہینوں کے چند واقعات تھے جب فرض کی ادائیگی میں ان کے ساتھی قتل ہوئے اور قتل کرنے والوں سے معاہدہ امن کیا گیا۔
دوسری بات پولیس اہلکار چند تھے اور مشتعل ہجوم سینکڑوں میں۔ یہاں ایک اور بات بھی مدنظر رکھیں فیکٹری کے مزدوروں کو مشتعل کس نے کیا۔ جب فیکٹری کے اندر منصوبے کے مطابق ہنگامہ ہورہا تھا تو نعرے لگاتا ہوا ایک ہجوم فیکٹری کے باہر مین شاہراہ پر کیسے اور کہاں سے آن پہنچا؟
اس سوال کا جواب اگر تحقیقات کرنے والوں کو مل جائے تو ساری گتھی سلجھ جائے گی۔
مان لیجئے کہ جو ہوا وہ کسی بھی طور اچھا نہیں ہوا۔ یہ بھی مان لیجئے کہ یہ سارا معاشرہ اذیت پسند بن چکا ہے۔ ذہنی حالت دیکھیں۔ مرنے والے پر تشدد اور پھر جلانے کی فخریہ ویڈیوز بناکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئیں۔
سینہ ٹھوک کر بیان دیئے اور تقریریں کی گئیں۔ اس سارے عمل سے اسلام اور پاکستان کو کیا حاصل ہوا؟
معاف کیجئے گا یہاں اسلام اور پاکستان کی فکر کس کو ہے سبھی (ہر طبقہ بزعم خود اسلام اور پاکستان ہے) کو فوری مقبولیت درکار ہے۔
اور توہین مذہب کا الزام لگاکر فوراً غازی بنا جاسکتا ہے۔ جو ہوا اچھا نہیں ہوا۔
ایک بھیانک سیاہ دن ہماری تاریخ کا حصہ بن گیا۔
سیالکوٹ کے سانحہ نے دو واقعات فوراً یاد دلائے اولاً لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج عارف اقبال بھٹی کا سفاکانہ قتل اور دوسرا بہاولپور کے قصبے چنی گوٹھ میں ایک فاترالعقل کو توہین مذہب کے الزام میں تھانے سے نکال کر زندہ جلائے جانے کا واقعہ۔
قانونی بحث کو توہین مذہب کا رنگ دے کر سلمان تاثیر کو بھی قتل کروایا گیا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سلسلہ رُک پائے گا؟
کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔ مشعال خان کیس کی مثال آپ کے سامنے ہے اس کیس میں کیا ہوا تھا۔
بعض مجرموں کی ایک مرحلہ پر رہائی کی صورت میں فاتح غرناطہ کی طرح کا استقبال ہوا تھا۔
سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پولیس اہلکار کا مزار بن گیا اور داماد سول سپرمیسی کیپٹن صفدر ہی نہیں پنجاب کے وزیر فیاض چوہان بھی اس کے مزار پر نعت خوانی کرتے رہے۔
کیا ریاست اور قانون اپنی اتھارٹی قائم کرپائیں گے؟
اصولی طور پر کرنی تو چاہیے ورنہ سب کچھ جل کر راکھ ہوجائے گا۔
سانحہ سیالکوٹ کی آزادانہ تحقیقات، قاتلوں اور منصوبہ میں شریک فیکٹری انتظامیہ کے بعض کرداروں کو انجام تک پہنچاکر ہی خودساختہ عدالتیں لگانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے۔
معاف کیجئے یہ ملک آدمیوں کا جنگل بن چکاہے اسے انسانوں کی بستی بنانے میں وقت لگے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: