نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضیاء صاحب عرصہ ہوا گوشہ نشین ہوچکے تھے۔ کچھ نہ کچھ کرنے کو بے چین صحافیوں کو اکثر ان کی رہ نمائی لیکن درکار ہوتی۔ اس کے علاوہ آزادیٔ صحافت کی جدوجہد کو زندہ رکھنے والی تقریبات میں بھی ان کی شرکت لازمی تصور ہوتی تھی۔ صحافتی تنظیموں کو اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے دیانت دارانہ صحافت کی اس مجسم علامت سے اپنا تعلق ثابت کرنا ضروری تھا۔ ضیاء صاحب مگر تھک چکے تھے۔ انہیں اپنے گھر سے باہر نکالنے کو آمادہ کرنے کی میرے ساتھیوں کو ہمت نہیں ہوتی تھی۔ بالآخر یہ فریضہ مجھے ہی نبھانا پڑتا۔ وہ چلے گئے ہیں تو احساس ہو رہا ہے کہ شاید میرے ساتھیوں کو اب میری ضرورت بھی نہیں رہے گی۔
آخری بار یہ واقعہ چند ہی ماہ قبل ہوا تھا۔ پارلیمانی کارروائی کی مسلسل رپورٹنگ کرنے والے رپورٹروں کی تنظیم اپنے عہدے داروں کے انتخاب کی وجہ سے باہمی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوتی نظر آئی۔ اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھنے کے لئے چند مضطرب صحافیوں نے فیصلہ کیا کہ منتخب عہدے داروں کی حلف برداری کے لئے ایک بھرپور تقریب کا اہتمام کیا جائے۔ اس تقریب کو مزید باوقار بنانے کے لئے فیصلہ یہ بھی ہوا کہ وہاں چند سینئر ساتھیوں کو لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ (Lifetime Achievement Award) سے بھی نوازا جائے۔ ساتھیوں کی متفقہ رائے سے مجھے اور ضیاء صاحب کو اس اعزاز کا مستحق گردانا گیا۔
ضیاء صاحب کی طرح میں بھی گوشہ نشین ہو چکا ہوں۔ ساتھیوں کی ضد کے آگے مگر اب بھی بے بس ہوجاتا ہوں۔ سوال اٹھا کہ ضیاء صاحب کو آمادہ کون کرے گا۔ قرعہ فال میرے نام نکلا۔ ”جنگ“ کے حافظ طاہر خلیل نے ڈیوٹی لگادی۔ انہیں فون کرنے کی قوت مجتمع کر رہا تھا تو ضیاء صاحب کا فون آ گیا۔ ”جی ضیاء صاحب“ سنتے ہی انہوں نے مخصوص انداز میں سوال کیا کہ معاملہ کیا ہے۔ میں ان دنوں بھی پارلیمانی کارروائی کی باقاعدگی سے رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے انہیں قائل کرنے میں کامیاب رہا کہ ہم دونوں کو یہ اعزاز وصول کرلینا چاہیے۔ ہمارے نام جونیئر ساتھیوں کی بے پناہ تعداد نے اتفاق رائے سے چنے ہیں۔ یہ سرکار کی مہربانی نہیں۔ یہ دلیل سنتے ہی وہ آمادہ ہو گئے۔
مذکورہ تقریب میں ایوارڈ لینے کے بعد اس تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے میں نے تیس سے چالیس برس کی عمر کے درمیان اٹکے نوجوان صحافیوں سے درد مندانہ درخواست کی کہ وہ صحافت کے بجائے کسی اور شعبے سے رزق کمانے کی تراکیب سوچیں۔ صحافت کے دن تمام ہوچکے ہیں۔ میرے بعد ضیاء صاحب فقط یہ کہنے کے بعد اپنی نشست پر واپس لوٹ آئے کہ ”میں نصرت کے بتائے مشورے سے کامل اتفاق کرتا ہوں“ ۔ مجھ سے زیادہ ان کی مایوسی نے مذکورہ تقریب کو دکھی محفل میں بدل دیا۔
ضیاء صاحب اپنے انتقال کے دن 83 برس کے ہوچکے تھے۔ اپنی طویل عمر کے 60 برس انہوں نے صحافت کی نذر کیے ہیں۔ پی پی آئی نیوز ایجنسی کے ٹرینی رپورٹر سے ہوتے ہوئے مارننگ نیوز سے منسلک ہوئے۔ 1980 کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی اسلام آباد آ گئے۔ ”دی مسلم“ مگر بہت آب وتاب کے بعد بالآخر زوال کا شکار ہو گیا۔ وہ ڈان کے اسلام آباد بیورو میں چلے گئے۔ بعد ازاں ”ایکسپریس ٹربیون“ کے بانی مدیر بھی ہوئے۔ 2014 میں وہاں سے مستعفی ہونے کے بعد زندہ رہنے کے لئے مستقل بنیادوں پر مختلف اخبارات اور صحافتی اداروں کے لئے مضامین اور اداریے لکھتے رہے۔ زندہ رہنے کے لئے آخری سانس تک انہیں یہ مشقت جاری رکھنا پڑی کیونکہ ہمارے شعبے میں پنشن نہیں ہوتی۔ مرتے دم تک کچھ نہ کچھ لکھ کر ہی زندہ رہنا ہوتا ہے۔ ہم صحافیوں کی بے تحاشا تعداد مگر ان تلخ حقائق کے باوجود اس کاربے سود سے وابستہ رہنا چاہتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ وہ عزت ووقار ہے جو ضیاء صاحب جیسے صحافیوں نے صحافت کے شعبے کو عطا کیا۔
معاشی مسائل ومعاملات کی بابت ضیاء الدین صاحب کی رائے ہمیشہ حتمی تصور ہوتی تھی۔ اس موضوع پر ان کی گرفت سے ہر حکومت خائف رہی۔ ڈاکٹر محبوب الحق جیسے جید ماہر معیشت بھی جنرل ضیاء کے وزیر خزانہ ہوتے ہوئے ان سے مسلسل گھبراتے رہے۔ ضیاء صاحب کے لکھے خیالات کو مگرنظرانداز کرنا کسی بھی حکومت کے لئے ممکن ہی نہیں تھا۔ انہیں رام کرنے کی بے تحاشا کوششیں ہوتی رہیں۔ میں ان میں سے کئی کاوشوں کا عینی شاہد ہوں۔ مختلف ترغیبات سے بہلانے پھسلانے والوں کو لیکن ضیاء صاحب ایسے کڑے انداز میں جواب دیتے کہ اس کی طبیعت صاف ہوجاتی۔ ایسے مراحل میں وہ صوفیانہ جلال کے حامل نظر آتے۔
ضیاء صاحب کو ہمیشہ یہ مان رہا کہ میں سیاسی خبر ڈھونڈنے میں بہت تاک ہوں۔ میری عدم موجودگی میں اس کی بابت فخر سے تذکرہ کرتے۔ 1990 کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی لیکن میں نے حکومت کے چلائے چند میگاپراجیکٹس میں گھپلوں کی کہانیاں بھی لکھنا شروع کردیں۔ دادوتحسین کی مقدار حد سے بڑھی تو ایک روز مجھے ضیاء صاحب نے اکیلے میں اپنے پاس بٹھایا۔ بہت فکر مندی سے اس خوف کا اظہار کیا کہ میں سیٹھوں کے ہاتھوں استعمال ہو سکتا ہوں۔ میں گھبراگیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ انہیں میری دیانت داری پر ہرگز شبہ نہیں۔ ہوتا مگر یہ ہے کہ جب اربوں روپے کا کوئی ٹھیکہ ہوتا ہے تو اسے حاصل کرنے کو بڑے بڑے کاروباری گروپ بے چین ہو جاتے ہیں۔ ٹھیکہ مگر ایک ہی گروپ کو مل سکتا ہے۔ جنہیں ٹھیکہ نہیں ملتا وہ مذکورہ منصوبے سے متعلق دستاویزت کا پلندا لے کر مجھ جیسے رپورٹروں کے پاس آ جاتے ہیں۔ مستند دستاویزات کی بنیاد پر ہم سکینڈل اچھالنا شروع ہو جاتے۔ میگاپراجیکٹ یوں متنازعہ ہوجاتا ہے۔ اس منصوبے کے ٹھیکے سے محروم ہوئے سیٹھ کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے۔
ضیاء صاحب کی گفتگو سنتے ہوئے میرے ذہن میں کئی سیٹھوں کے چہرے گھومنا شروع ہو گئے جو اچانک مختلف ہیلوں بہانوں سے میرے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے بعد مجھے ”نصرت بھائی“ بنالیتے۔ ان کے محل نما مکانوں میں سجی کوئی محفل میرے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی تھی۔ ان محفلوں میں اکثر ”گھپلوں“ کی خبریں ہی ملتیں۔ میں اپنے تئیں لیکن یہ دریافت نہ کرپایا کہ درحقیقت حسد میں مبتلا سیٹھ مجھے اپنے متحارب سیٹھوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے افسروں کی بدگوئی کر رہے ہیں جو ان سیٹھوں کو منہ نہیں لگاتے۔ ضیاء صاحب کی گفتگو احترام سے سننے کے بعد میں نے عہد باندھ لیا کہ مالیاتی سکینڈلز کے بارے میں سنسنی خیز خبریں دیتے ہوئے شہرت نہیں کمانی ہے۔ مجھے تو جی ڈی پی اور جی این پی کے مابین فرق بھی معلوم نہیں ہے۔ ریاست کی معاشی پالیسیوں کے حوالے سے کوئی قضیہ چل رہا ہو تو اسے سمجھنے کے لئے ہمیشہ ضیاء صاحب ہی سے رجوع کرتا ہوں۔
ضیاء صاحب سے جڑ ی یادوں کو اس کالم میں سمیٹا ہی نہیں جاسکتا۔ وہ مدراس میں پیدا ہوئے تھے جسے اب چنائی کہا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ڈھاکہ میں تعلیم حاصل کی پھر صحافت میں ایم اے کرنے کراچی آ گئے۔ صحافت کے دھندے میں آنے کے پہلے دن سے مرتے دم تک وہ ٹھوس اعداد و شمار کے ذریعے عام پاکستانیوں کو یہ سمجھانے کو ڈٹے رہے کہ ہماری ہر نوع کی اشرافیہ بنیادی طور پر سفاک اور بدعنوان ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ عالمی اداروں کے سہولت کار ہوتے ہوئے پاکستان کو غیر ملکی قرضوں کے گرداب کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ یہ چلن جاری رہا تو ہماری ریاست بالآخر اپنی نام نہاد خودمختاری بھی برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے تاہم انہیں کچھ امیدیں تھیں۔ 1993 میں لیکن وہ ان سے بھی مایوس ہونا شروع ہو گئے۔ مرحومہ کی بہت کاوش تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح ان کے معاشی امور کے حوالے سے باقاعدہ مشیر بن جائیں۔ کم از کم تین بار میری موجودگی میں بھی یہ واقعہ ہوا۔ ضیاء صاحب محترمہ کے ساتھ تلخ نوائی سے اجتناب برتتے تھے۔ زچ ہو جاتے تو اپنی معصومانہ مسکراہٹ کے ساتھ میری جانب انگلی سے اشارہ کرتے کہتے کہ میرے بجائے ”نصرت کو اپنا میڈیا منیجر بنالیں۔ آپ کی حکومت کی مشکلات آسان ہوجائیں گی“ اور میں اپنی مصیبت میں گرفتار ہوجاتا۔
ضیاء صاحب سے وابستہ اہم ترین واقعہ یہ بھی ہے کہ وہ جب ڈان کے لندن میں نامہ نگار تھے تو جنرل مشرف نے وہاں پاکستانیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اکسایا تھا کہ وہ ضیاء صاحب جیسے صحافی کو سڑک پر دیکھیں تو کٹ لگاتے ہوئے سبق سکھادیں۔ ضیاء صاحب کٹ سے مگر محفوظ رہے کیونکہ قارئین کو ان کے لکھے ہر لفظ پر اعتماد تھا۔ ان کی موت کی خبر آنے کے بعد مسلسل سوچ رہا ہوں کہ ہم صحافیوں میں سے اب باصفا اور دست قاتل کے شایاں کون بچا ہے؟
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر