اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیراعظم کی معیشت بارے ’’تشویش‘‘||سارہ شمشاد

قومی سلامتی کا چونکہ براہ راست تعلق معیشت سے ہوتا ہے اور نوآبادیاتی نظام کی خوبی بھی یہی ہے کہ پہلے فلاحی کام کروائے جاتے ہیں اور بعد میں معیشت کو سہارا دینے کے لئے قرض دیا جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ معیشت بغیر قرض کے چلائی نہیں جاسکتی
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان نے قرضوں میں اضافے کو قومی سکیورٹی کا مسئلہ قرار دیا ہے۔ وزیراعظم نے یہ ایک بات کہہ کر سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ وطن عزیز کو درپیش مسائل کا اس سے بہتر احاطہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان کو وطن عزیز کو درپیش مسائل کی سنگینی کا علم ہے اور وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان کو قرضوں کا دبائو کدھر لے جائے گا۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ صرف مسائل کی سنگینی کا ادراک ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ وزیراعظم کو بطور سربراہ بھی اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرنا چاہیے کیونکہ اگر وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ قرضوں میں اضافہ ہماری سکیورٹی کے لئے بڑا خطرہ ہے تو انہیں اس سے بچنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ اب وہ اپوزیشن نہیں حکومت میں ہیں اس لئے اگر یہ کہاجائے کہ عمران خان اب بھی خودکو اپوزیشن لیڈر ہی سمجھتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اس لئے اگر ملک میں کرپشن زیادہ ہے، بیوروکریسی کام نہیں کررہی، دفتر خارجہ کی کارکردگی ناقص ہے، ادارے ٹھیک سے اپنے فرائض منصبی آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ادا نہیں کررہے تو اس ضمن میں عمران خان کو اب 3برس اقتدار میں گزارنے کے بعد سمجھ ہی لینا چاہیے کہ لمبے چوڑے بیانات دینے کی بجائے معاملات کی درستگی کی طرف توجہ دی جائے مگر 3برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود خان صاحب اپوزیشن والے موڈ میں ہی نظر آتے ہیں۔
بلاشبہ قومی سلامتی معیشت سے جڑی ہوئی ہے اس لئے اگر معیشت کو سنبھالا نہ دیا گیا تو اس سے ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں معیشت کی دگرگوں حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اس لئے حکومت کو تمام کام چھوڑ کر معیشت کی بحالی کی طرف توجہ دینی چاہیے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ حکومت کی پٹاری میں قیمتوں میں اضافے کے سوا دوسری کوئی چیز سرے سے ہی موجود نہیں ہے اسی لئے تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیاہے کہ ہماری آئی ایم ایف کنٹرولڈ معیشت ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم قرض کی مے پئیں گے تو پھر اس عالمی ساہوکار کی بات بھی تو ماننا ہی پڑے گی۔ اب اگر پاکستان میں مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آکر غریب خودکشیاں کرتا ہے یا اپنے بچے بیچتا ہے تو آئی ایم ایف کو کیا، اسے تو بس اپنی شرائط منوانی ہیں اور قرضہ لینے والوں کے پاس چونکہ کوئی آپشن نہیں ہے اسی لئے چاروناچار انتہائی ظالمانہ شرائط پر قرض لے رہے ہیں کیونکہ ہمارے حکمران اپنی تنخواہوں اور مراعات میں تو وہ جب چاہتے ہیں متفقہ طور پر اضافہ کرلیتے ہیں، رہے عوام تو ان کی پہلے کس نے پروا کی ہے جو اب کوئی ان کے بارے میں سوچ کر اپنا بلڈ پریشر بڑھائے گا۔ غریب عوام تو کمی کمین ہیں ان پر زندگی کے سکھ تو جیسے حکمرانوں کی جانب سے محروم کرنے کی جس شدومد کے ساتھ کوشش کی جارہی ہے اس کے باعث یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ڈھیٹ غریب پہلے ختم ہوتا ہے یا حکمران طبقے کی انا، مقابلہ بڑا سخت ہے اور بس کون جیتا کون ہارا، کے اعلان کاانتظار کیا جارہا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت زنجیروں سے بری طرح جکڑ کر عوام کو جس طرح زہر آلود کوڑے لگارہی ہے اس کے باعث عوام کا بچنا کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔
قومی سلامتی کا چونکہ براہ راست تعلق معیشت سے ہوتا ہے اور نوآبادیاتی نظام کی خوبی بھی یہی ہے کہ پہلے فلاحی کام کروائے جاتے ہیں اور بعد میں معیشت کو سہارا دینے کے لئے قرض دیا جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ معیشت بغیر قرض کے چلائی نہیں جاسکتی اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عالمی ساہوکار کو اپنے کئی برسوں کی ریاضت کیش کروانے کا موقع مل جاتا ہے۔ آج پاکستان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا ہے کہ عالمی ساہوکار اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے قومی اثاثوں کو گروی رکھوانے کے ساتھ سود وصول کرنے کا بھی مطالبہ کررہا ہے۔ اور ہماری حکومت مجال ہے کہ ساڑھے 3برس گزرنے کے باوجود بھی معیشت کی سمت کا تعین کرپائی ہو۔ پہلے اسد عمر کی ایک غلطی کی بنا پر قومی خزانہ خالی ہوا جبکہ اب شوکت ترین گیس بحران میں غلطی اور غفلت برتنے کا برملا اعتراف کررہے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان رہنمائوں کی غلطیوں کا خمیازہ غریب عوام کیوں بھگتیں۔ عوام کی حالت اس وقت قابل رحم ہے اور وہ کسی مسیحا کے منتظر ہیں لیکن اب مشیر خزانہ شوکت ترین نے آنے والے دنوں میں مزید مہنگائی کی خبر بھی دھڑلے کے ساتھ سنادی ہے کہ جیسے کسی کو عوام کی مشکلات کا احساس تک نہیں کہ عوام جس کی قوت خرید میں ریکارڈ کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن اس کے باوجود حکمرانوں کے لئے سب اچھا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری معیشت تیزی سے دیوالیہ ڈیکلیئر ہونے کے راستے پر جارہی ہے لیکن آج بھی معاملات بیان بازی تک ہی محدود ہیں۔ ان سخت ترین حالات میں جب حالت نزع کی شکار معیشت کو وینٹی لیٹر پر رکھ کر آخری دن پورے کئے جارہے ہیں تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ حکومت وطن عزیز کے زرخیز دماغوں کو کسی فورم پر بٹھاکر مسائل کا حل تلاش کرتی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ حکومت نے آج تک اس قسم کی کسی مثبت سرگرمی کی طرف توجہ دینے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی جس کا نتیجہ عوام کو مزید مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑرہا ہے۔ معیشت کی بحالی کے لئے ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان جو 2018ء کے عام انتخابات سے قبل 200 افراد کی بہترین ٹیم ہونے کا دعویٰ بڑے دھڑلے سے کیا کرتے تھے وہ درحقیقت صرف بیان بازی کی حد تک ہی تو محدود تھا اسی لئے تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ معیشت جیسا اہم محاذ اناڑی لوگوں کے ہاتھوں میں آگیا اور خمیازہ وطن عزیز اور عوام کو بھگتنا پڑا۔ ایک ایسے وقت میں جب موٹرویز، سڑکیں۔ اہم عمارات بڑے دھڑلے سے گروی رکھی جارہی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان سے عوام کو بہت س توقعات تھیں لیکن افسوس کہ وہ انہیں پوری کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 52فیصد پاکستانی عوام نے مہنگائی کو وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ ایسے میں اگر حکومت صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کرناچاہتی ہے تو اسے سنجیدگی سے مہنگائی کم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ اب عوام کو گھبرانا نہیں جیسے بیانات دے کر مزید ٹرخایا نہیں جاسکتا۔ اس لئے اگر خان صاحب کو معیشت اور قومی سلامتی کے تعلق کی سمجھ آ ہی گئی ہے تو بہتر ہوگا کہ وہ ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز پرمشتمل اجلاس بلائیں اور ان سے معیشت کی بحالی کے لئے تجاویز طلب کریں۔ اسی طرح معاشی ماہرین سے بھی اس سلسلے میں مدد طلب کی جائے کیونکہ معیشت سے ہی سب کی سلامتی کا دارومدار ہے۔یہی نہیں بلکہ معیشت کی بحالی کے لئے حکومت اپنے اللے تللوںکو چھوڑے اور سادگی کے اصول پر صحیح معنوں میں عمل کرے۔ ادھر حکومت پر بھی کئی سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں خاص طورپر اس وقت جب ہر ادارے میں شکایات کے انبار ہیں۔ اسی طرح حکومتی فیصلوں میں تاخیر کا خمیازہ بھی عوام کو ہی بھگتنا پڑرہا ہے اس لئے حکومت کو یہ سمجھنا چاہیےکہEconomic Hitman کا صرف مطالعہ ہی نہ کریں بلکہ اس سے سبق بھی سیکھیں کیونکہ جس تیزی کے ساتھ معیشت کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا جارہا ہے اسی تیزی سے عوام کی چیخیں بھی نکل رہی ہیں کیونکہ جب غیرملکی آقائوں کے احکامات مانے جائیں گے تو پھر عوام کی حالت تو خراب ہونی ہی ہے۔ اسی لئے آج وہ معیشت کے حوالے سے حکمرانوں سے مطالبات کررہے ہیں اسی طرح کل کو بات ایٹمی اثاثوں تک پہنچ سکتی ہے اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ صرف بیانات یا تشویش کا ہی اظہار نہ کیا جائے بلکہ عوام کو ڈلیور اور ریلیف فراہم کرنے بارے بھی اقدامات کو اپنی ذمہ داری قسمجھا جائے، یہی وقت کی پکار ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: