مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا ریاست کمزور ہے؟||سارہ شمشاد

بلاشبہ بڑی سے بڑی جنگوں کا اختتام بھی مذاکرات کی میز پر ہی ہوا اس لئے میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ مذاکرات چاہے ٹی ٹی پی سے ہوں یا ٹی ایل پی سے، اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کا ایک طریقہ کار ضرور ہونا چاہیے
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکمرانوں سے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی تفصیلات پبلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوری ملک میں اپوزیشن کا حکومت سے مطالبہ بالکل درست ہے کیونکہ عوام جو اس ملک کے اصل سٹیک ہولڈرز ہیں انہیں یہ جاننے کا مکمل حق ہے کہ ان کی حکومتیں کس سے اور کیا معاہدے کررہی ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری نے ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کی مبارکباد دی ہے۔ میں کئی دنوں سے اس مخمصے کا شکار ہوں کہ آج تک ہم کیونکر پاکستان کی سمت کا کوئی تعین نہیں کرسکے کیونکہ اگر دہشت گردوں اور شرسپندوں کو معافیاں دینی ہیں تو پھر سینکڑوں معصوم جانوں کے ضیاع سے پہلے اس کی زحمت کیونکر نہیں کی جاتی، کم از کم کئی بچے یتیمی کا بوجھ اٹھانے سے تو بچ جاتے۔ انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ریاست ان مٹھی بھر شدت پسند عناصر کے خلاف یرغمال بنی نظر آتی ہے اسی لئے تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیاہے کہ کسی کو آئین و قانون کی ذرا برابر پروا نہیں بلکہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو گلے لگاکر ایک بڑا ہی خطرناک پیغام دیا جارہا ہےکہ پہلے اپنے ہی ملک کی املاک کو نقصان پہنچائو، جلائو گھیرائو کرکے بڑا احتجاج کرو تاکہ بڑا نام ہو اور پھر اپنی سٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرو تاکہ ریاست کو یرغمال بنانا آسان ہوجائے اور ریاست قانون ہاتھ میں لینے والے جتھے کے سامنے سرنڈر کردے۔ بہت معذرت کے ساتھ میں نے تو اپنی پوری صحافتی زندگی میں یہی کچھ دیکھا ہے اور لال مسجد کا معاملہ ہو، اے پی ایس یا پھر کوئی اورواقعہ، شدت پسند عناصر بھرپور تیاری کے ساتھ ریاست کو چیلنج کررہے ہیں ایسے میں اگر بلاول نے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی تفصیلات منظرعام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے تو یہ درحقیقت پوری قوم کے دل کی آواز ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان نے 70ہزار جانوں سے زائد کا خراج دیا ہے اس کے لئے حکومت کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ عوام کو اس بارے میں اعتماد میں لے۔
بلاشبہ بڑی سے بڑی جنگوں کا اختتام بھی مذاکرات کی میز پر ہی ہوا اس لئے میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ مذاکرات چاہے ٹی ٹی پی سے ہوں یا ٹی ایل پی سے، اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کا ایک طریقہ کار ضرور ہونا چاہیے۔ پارلیمان جسے جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے، عمران خان جو ایک بڑے جمہوریت پسند ہیں اور جمہوریت کی مضبوطی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں ان سے عوام کو کسی طور بھی آمرانہ طرزعمل کی توقع ہرگز ہرگز نہیں تھی اسی لئے عوام مضطرب اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ اس وقت ان کے پاس پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں ہے اور اگر وہ بھی سابق حکومتوں کی طرز پر پارلیمان سے بالابالا فیصلے کرنا شروع کردے تو عوام کا غصہ ایک فطری عمل ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ حکومت ٹی ٹی پی اور ٹی ایل پی سے معاہدے کرنے سے پہلے پارلیمنٹ سے رجوع کرتی مگر افسوس کہ ہمارے ہاں جمہوریت چونکہ زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہے اسی لئے تو جمہوریت کی اصل روح کے مطابق اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔
حکومت کا بھٹکے ہوئوں کو راہ راست پر لانے کے لئے قومی دھارے میں شامل کرنا کوئی برا عمل نہیں لیکن ریاست کا امیج مسخ نہ ہو، اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جانا بے حد ضروری ہے۔ قانون کی عمل داری نہ ہونے پر پاکستان کا 130ویں نمبرپر آنے کی بڑی وجہ اسی قسم کا طرزعمل ہے کہ ہمارے ہاں قانون کو موم کی گڑیا سمجھا جاتاہے اسی لئے بات یہاں تک پہنچ گئی کہ اب تو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کو یہ کہنا پڑا کہ کسی کا دبائو لیا نہ کسی کو فیصلے لکھوانے کی جرات ہے۔ انہوں نے کہا کہ الزامات لگانے والے انتشار نہ پھیلائیں۔ یاد رہے کہ چند روز قبل علی احمد کرد نے عدلیہ کو بدترین تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ پاکستان آج جس نازک دوراہے پر کھڑا ہے اس میں ہلکی سے بھی غلطی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لئے حکومت کو ہر قدم انتہائی سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے اور اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ پاکستان اب مزید کسی کی پراکسی وار کا حصہ نہیں بن سکتا اور نہ ہی خود مزید جھگڑوں میں الجھاسکتا ہے۔ 9/11کے بعد امریکہ نے پاکستان پر جو جنگ مسلط کی اس میں 70ہزار سے زائد قیمتی جانوں کا نقصان بلکہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا مالی خمیازہ بھی وطن عزیز کو بھگتنا پڑا اوراب جب ہماری فورسز نے کثیرالجہتی چیلنجز اور ان دیکھی قوتوں کو شکست فاش سے دوچار کردیا ہے جس کو انتہائی سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے چاہئیں اور کہیں معاملہ لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی والا نہ ہو۔یہ وقت ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنے کا ہے کیونکہ اگر اب بھی ہم نے حسب روایت مٹی پائو کی پالیسی اپنائی تو ہمارے جلد بازی اور جذباتی فیصلوں کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔
یوں توملکی وقار اور امیج ہر ملک کے لئے انتہائی اہم ہوتا ہے لیکن ایک ایسے وقت میں جب پاکستان تاریخ کے نئے دور کا آغاز کررہا ہے تو ضروری ہے کہ وطن عزیز کے بارے میں پائی جانے والی منفی باتوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہ ہمارے غلط فیصلوں کا ہی نتیجہ ہے کہ امریکہ بہادر نے تو جیسے ہمیں تر نوالہ ہی سمجھ لیا ہے اسی لئے تو امریکہ کی جانب سے بھارت کی بجائے پاکستان کو مذہبی آزادیوں کے حوالے سے تشویش والے ممالک کی فہرست میں شامل کردیا ہے جبکہ بھارت جوکہ کچھ عرصہ قبل رپورٹ میں پہلے نمبر پر تھا، اس کا نام اس فہرست سے نکال کر پاکستان کا نام زبردستی ڈالا گیاہے۔ اگرچہ دفتر خارجہ نے اس پر بروقت ردعمل دیا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی اور لابنگ میں وہ تیزی نہیں جو بھارت کی ہے کہ پاکستان صحیح ہوکر بھی اپنا موقف دنیا بالخصوص امریکہ کو سمجھانے میں ناکام رہا جبکہ دوسری طرف بھارت جہاں مودی سرکار نے مسلمانوں اور وہاں بسنے والی اقلیتوں پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کردیاہے لیکن اس کے باوجود امریکہ کو بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی، اخلاقیات سوز سلوک نظر نہیں آرہا تو اس پر سوائے ماتم کے اورکیاکیا جاسکتاہے جبکہ دوسری طرف امریکہ کا پاکستان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں کہ وہ بھارت کے ہر معاملے میں جانبداری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اگرچہ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ یہ دہرا معیار کوئی نیا نہیں کہ امریکہ تو پاکستان سے ڈو مور اور Do better کا ہی مطالبہ کرتارہا ہے۔
ایک ایسے موقع پر جب دنیا پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کررہی ہے تو وقت آگیا ہے کہ ریاست کے اندر آئین و قانون کی سربلندی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ ابھی پچھلے چند دنوں میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جو کچھ ہوا وہاسی امر کا اشارہ کرنے کے لئے کافی ہے کہ ملک دشمن طاقتوں کو پاکستان میں افراتفری اور اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کا ماحول شروع سے ہی پسند ہے کیونکہ اسی افراتفری کے ماحول سے ہی تو وہ اپنا بیانیہ سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور ہمارے کچھ عقل کے اندھے جو آئین و قانون کے بلندبانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے جس طرح ریاستی اداروں کو ہدف تنقید بناتے ہیں اگرایک لمحے کے لئے اپنی ہی ادائوں پر ذرا غور کریں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ وقت آگیاہے کہ عمران خان جو مغربی جمہوریت میں آئین و قانون کی بالادستی کی باتیں کرتے نہیں تھکتے، اب اپنے دور اقتدار میں آئین و قانون کی سربلندی کے لئے بلاجھجک اور بلاخوف اقدامات کریں تاکہ دنیا کو یہ باور ہوسکے کہ پاکستان کسی کے دبائو میں آکر فیصلے نہیں کرتا بلکہ یہاں ہر شخص آئین و قانون کے نیچے ہے۔ یہاں یہ امر بھی ضروری ہے کہ صرف باتیں کرنے سے ہی کچھ نہیں ہوگا بلکہ حکومت کو عملی مظاہرہ بھی کرنا پڑے گا خاص طور پر اس وقت جب ٹی پی پی سے معاہدہ ہو یا ٹی ایل پی سے، عوام میں ان معاہدوں کو خاص پذیرائی اس لئے نہیں مل رہی کہ اس سے کیا پیغام دیا گیا ہے کہ ریاست جس کسی کی بھی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ کرے یا کسی کو ریاست کا کوئی فیصلہ پسند نہ آئے تو اسے دبائو میں لاکر یا جلائو گھیرائو کرکے یرغمال بناکر اپنے مطالبات تسلیم کروائے جائیں۔ ٹی ایل پی کے کارکنوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، سڑکوں اور موٹروے کو کئی کئی روز تک بند رکھا جس سے کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ گئے جبکہ معاشی طور پر بھی ملک کو خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ احتجاج میں کئی معصوم جانیں بھی گئیں۔ آخر ان کے یتیم بچے ریاست سے یہ پوچھنے کا پورا حق رکھتے ہیں کہ ان کو شفقت پدری سے محروم کرنے والوں کو کس قانون کے تحت معاف کیا گیا۔ ٹی ایل پی سے معاہدہ کرکے ریاست نے کیا پایا، کیا کھویا، حکومت کو اس بارے عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان جو جمہوری سوچ رکھتے ہیں اس لئے ان سے امید کی جانی چاہیے کہ وہ دوسری رپورٹوں کی طرح اس معاہدے کو بھی پبلک کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کریں گے تاکہ عوام صحیح غلط کا فیصلہ خود کرسکیں۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: