مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

توپاں والے دروازے کی سیر: ماضی اور تاریخ کے سنگ(آخری قسط) ||گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

گلزار احمد خان اور وجاہت علی عمرانی کی مشترکہ قسط وار تحریر جو ڈیرہ اسماعیل خان کے معروف توپاں والا دروازے سے متعلق یادداشتوں پہ مبنی ہے۔ جس میں تاریخی، ثقافتی، ماضی اور روایتی باتیں قلمبند کی گئی ہیں ۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم نے موجودہ ایم رمضان پٹرول پمپ کے سامنے والے یوٹرن سے سڑک کراس کر نے کی بجائے سیدھا چلنے لگے۔ میں نے بلند و بالا سٹیٹ لائف کی بلڈنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، عمرانی صاحب! جہاں آج یہ بلند و بالا عمارت اپنی پوری شان سے جگمگا رہی ہے، اسی جگہ پر بھی ایم اللہ بخش کی آئس اینڈ فلور ملز تھی جسکی بھی ہو بہو توپاں والے دوازے والے چمنی مینار کی طرح چمنی مینار تھا، لیکن اُس مینارسے سائز میں تھوڑا چھوٹا چمنی مینار تھا۔ اسی جگہ پر بعد میں چاچے سرور کی ویگنیں اور بسیں بھی ٹھہرتی تھیں جو کہ دریا خان اور بھکرکے سفر کے لیئے مشہور تھیں۔ میری باتیں سننے کے بعد عمرانی صاحب نے تبصرہ کرنے کی بجائے یہ اشعار سنا دیئے:
کوئی ماضی کے جھروکوں سے صدا دیتا ہے
سرد پڑتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتا ہے
دل افسردہ کا ہر گوشہ چھنک اٹھتا ہے
ذہن جب یادوں کی زنجیر ہلا دیتا ہے
اشعار سنانے کے بعد کہنے لگے، گلزار صاحب! کچھ منظر بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی منظر انسان کو کھینچ کر ماضی میں لے جاتا ہے تو کبھی کوئی منظر اس کو واپس حال میں کھینچ لاتا ہے۔ لیکن کچھ منظر ایسے دلفریب ہوتے ہیں کہ انسان ان کو دیکھ کر یادوں میں اس قدر دھنس جاتا ہے کہ پھر اس کو واپس حال میں آنا تکلیف دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہیں وہ منظر ٹھہر جائے اور کسی طرح وہ وقت کو واپس موڑ لے۔ لیکن” دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو” شاعر کے تخیل میں تو ممکن ہے حقیقت میں نہیں۔
میں نے تائید کرتے ہوئے کہا، دیکھیں عمرانی صاحب! تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں قوموں کے ماضی کی تہذیب و تمدّن اور عروج و زوال کا عکس نظر آتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کا وہ علم ہے جو ماضی کے حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر مستقبل کی راہیں متعین کرتا ہے۔ چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ علم تاریخ، انسانی زندگی کی شاہراہ پر چلنے والی وہ گاڑی ہے جو مختلف زمانوں کی تہذیبوں کے راستوں سے گزرتی ہوئی ان کی ابتداء و انتہا اور ارتقاء سے آگاہ کرتی ہے۔ اگر کسی قوم کی تاریخ گم ہو جائے تو وہ خود کو نہ صرف بے سہارا اور تنہا محسوس کرتی ہے بلکہ اس کا مستقبل بھی اس کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہوتا ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔
تاریخ، ثقافت اور ماضی کی باتیں کرتے ہوئے ہم دونوں نے فوارہ چوک والے ٗیو ٹرن سے سڑک کراس کی اور سڑک پہ بنی چھوٹی مسجد کی محراب کے ساتھ آ کے ٹھہر گئے۔۔ مسجد کی محراب پر ہاتھ پھیرتے ہوئے میں نے کہا عمرانی صاحب، دیکھیں ماضی میں اس کو رسالہ مسجد کہا جاتا تھا۔ جب عہد برطانیہ میں 1858کے بعد انگریز فوج کا گھوڑوں پہ مشتمل ایک خصوصی دستہ ڈیرہ اسماعیل خان بھیجا گیا۔ جسکو مقامی آبادی ”رسالہ فوج” کہتی تھی، اس رسالہ فوج میں زیادہ تر تعداد ملتانی پٹھانوں، علیزئی اور خاکوانیوں کی تھی۔ جو کہ اپنی ٹریننگ اور گھڑ دوڑ وہ سامنے والی ماضی کی مشہور”جہازوں والی گراؤنڈ” میں کرتی۔ اسی وجہ سے یہ اس وقت رسالہ پریڈ گراؤنڈ مشہور ہوگئی۔ گھاس منڈی اور اس رسالہ پریڈ گراؤنڈ کی حد بندی کے لیئے یہ مسجد تعمیر کی گئی جو وقت کے ساتھ ساتھ ”رسالہ مسجد ” مشہور ہوگئی۔ ماضی میں اس مسجد کے آس پاس کے کھلے میدانوں میں بھی بڑے بڑے جلسے بھی منعقد ہوتے تھے۔
کیوں کہ رات کے 9بجنے والے تھے اور ہمیں بھی یہیں سے واپس اپنے اپنے گھروں کو جانا تھا تو کچھ دیر ہم اسی رسالہ مسجد کے ساتھ ٹھہر کر اپنی اپنی بیماری کے بارے بھی بات کرتے رہے۔ ہم نے اپنی اپنی بیماری کی تشخیص تو کر رکھی ہے اور اس کی تفصیل آپ کو بتانے سے بھلا کیا ہچکچاہٹ؟ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اب تک آپ خود ہی جان چکے ہوں۔ چلو میں ہی بیماری کا نام بتا دیتا ہوں۔ تو سنیں ہمیں وہ بیماری ہے جسے ناسٹیلجیا کہتے ہیں۔ جب کوئی معمولی روزمرہ کی غیر اہم بات ماضی کے لمحات کو کھینچ کر حال میں لے آئے اور وہ گزرے پل کچھ بھولی ہوئی کہانیاں کہنا شروع کر دیں تو راہ فرار کہاں ہوتی ہے بچنے کی؟ سو واللہ ہم مجبور ہیں، وہ سب کچھ کہنے سننے اور دیکھنے پہ جو برس ہا برس سے وقت کی قید میں ہے۔ ہم دونوں کو جب بھی کوئی پرانے کاغذات میں سے کوئی ایسا پرزہ مل جائے جس پہ کوئی حکایت یا تاریخ لکھی ہو، خستہ حال سوٹ کیس خالی کرتے ہوئے کوئی دھندلی سی بلیک اینڈ وائٹ تصویر ہاتھ لگ جائے، جستی پیٹیوں میں بند لحافوں کو ہوا لگواتے ہوئے کوئی چھینبے والی چادر مل جائے، الماری کی صفائی کرتے ہوئے کسی کونے میں کوئی لکھی ہوئی یاداشت مل جائے یا پھر کوئی 80,85 سال کی زائد عمر کا بزرگ مل جائے تو ہم سب کام چھوڑ کے بے اختیار یادوں کا دریچہ کھول کر اس میں گم ہو جاتے ہیں۔ کبھی لبوں پہ مسکراہٹ پھیلتی ہے تو کبھی آنکھ نم ہو جاتی ہے کہ مہ و سال کی گردش میں بہت کچھ پیچھے رہ چکا، وقت کی گرد نے بہت کچھ دھندلا دیا اور بہت کچھ ایسا ہے جو ابھی کھوج کا متلاشی ہے۔

%d bloggers like this: