نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالے تین برس گزرچکے ہیں۔ ابھی تک لیکن وہ یہ حقیقت پوری طرح سمجھ نہیں پائے ہیں کہ ان کے اقتدار کا اصل منبع قومی اسمبلی میں حکومتی بنچوں پر بیٹھے اراکین ہیں۔ ان کی اکثریت اپنے حلقوں میں ڈیرے اور دھڑے کی بنیاد پر معتبر تصور ہوتی ہے۔ اپنے رعب داب کو برقرار رکھنے کے لئے مگر وہ ریاستی سرپرستی کے بھی محتاج ہوتے ہیں۔ اسی باعث سرکار کی جی حضوری کو ہمہ وقت تیار۔ فدویانہ رویہ اختیار کرنے کے باوجود مگر ان کے حلقوں میں موجود لوگ حکومت وقت سے ناراض ہونا شروع ہوجائیں تو ان کے ڈیرے بے آباد ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے ووٹروں سے منہ چھپائے اسلام آباد یا لاہور ہی میں ٹکے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نئے انتخاب کا وقت قریب آتے ہی ایسے اراکین اپنی سیاسی بقاء کے لئے حکومت وقت سے فاصلہ رکھنے کو بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔
عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان رکھنے کی طاقت سے مالا مال حکومتی اراکین گزشتہ کئی مہینوں سے نہایت پریشان ہیں۔ ہماری معیشت کو بحال کرنے کے لئے ان کے سرپر ڈاکٹر حفیظ شیخ بطور وزیر خزانہ مسلط کردیے گئے تھے۔ وہ ڈیروں اور دھڑوں والے اراکین اسمبلی سے ہاتھ ملانابھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ انہوں نے ایک طویل المدت معاہدے پر دستخط کیے ۔ اس معاہدے کے نتیجے میں بے تحاشا لوگ روزگار سے محروم ہوئے۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں گرانقدر اضافہ ہوا۔ عام آدمی کو اپنی زندگی اجیرن ہوتی محسوس ہوئی۔ حکومت ان کی مشکلا ت سے مگرغافل نظر آئی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کی حکومتوں ہی کو عوامی مشکلات کا حقیقی ذمہ دار ٹھہراتی رہی۔ سیاسی مخالفین کے خلاف چور اور لٹیروں کامسلسل ورد عوامی غصے کا لیکن ایک حد تک ہی ازالہ کر سکتا ہے۔ بنیادی ضرورت ایسی پالیسیوں کی ہوتی ہے جو عوام کو امید دلاتی نظر آئیں۔
عمران خان صاحب عوامی مزاج کو کماحقہ سمجھنے کے لئے حکومتی بنچوں پر بیٹھے اراکین اسمبلی سے مسلسل رابطے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ اپنی اہمیت جتلانے کے لئے ان کی جماعت سے وابستہ لوگوں نے لہٰذا خاموشی سے یوسف رضا گیلانی کو ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مقابلے میں قومی اسمبلی سے سینٹ کے لئے منتخب کر دیا۔ عمران خان صاحب کو مذکورہ انتخاب کے بعد حکومتی اراکین سے مسلسل رابطے کی اہمیت دریافت کرلینا چاہیے تھی۔ وہ اس جانب مگر مائل ہی نہ ہوئے۔ اسی گماں میں مبتلا رہے کہ جب بھی کسی معاملے پر پارلیمان میں حکومتی اراکین کے ووٹ کی ضرورت پڑے گی تو ریاستی قوت انہیں بھیڑوں کے غول کی طرح قومی اسمبلی میں لے آئے گی۔ ریاستی قوت اور رعب داب پر بھی تاہم معیشت پر لاگو ہونے والے قانون تقلیل افادہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ بالآخر وہ وقت بھی آ جاتا ہے جب حکومتی اراکین بھی ”بس بھی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب“ پکارنے کو مجبور ہو جاتے ہیں۔
حکومتی رعب کی قلعی تو ویسے بھی حال ہی میں اس وقت مضحکہ خیز انداز میں کھل گئی جب تمام تر بڑھکوں کے باوجود ریاست اور حکومت کو دین کے نام پر مشتعل ہوئے ایک ہجوم کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مفتی منیب الرحمن صاحب کی فراست سے رجوع کرنا پڑا۔ ڈیرے اور دھڑے کی بنیاد پر قومی اسمبلی کے ہر رکن کے پاس بھی حامیوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہوتی ہے۔ وہ بھی اپنے جتھے کی بنیاد پر حکومت کو اپنی اہمیت یاد دلانے کو مجبور ہوجاتا ہے۔
حکومتی رعب کے ہوا میں تحلیل ہوجانے کے اس موسم میں یہ کامل خوش گمانی تھی کہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ہو اور حکومتی اراکین اس میں شریک ہو کر 30 کے قریب ایسے قوانین کو منظور کرنے کے لئے غلاموں کی طرح انگوٹھے لگاتے نظر آئیں جو عوامی مسائل کا کوئی ٹھوس حل فراہم نہیں کرتے۔ آئندہ انتخاب میں الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالنے جیسے چونچلے نظرآتے خواب دکھاتے ہیں۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے قومی اسمبلی کے اجلاس محض اس وجہ سے مؤخر ہوتے رہے کیونکہ حکومتی بنچوں پر کورم کو یقینی بنانے والے 86 اراکین موجود نہیں ہوتے تھے۔ گزرے منگل کے روز قومی اسمبلی میں مختلف سوالات پر دوبار ووٹنگ ہوئی۔ دونوں مرتبہ حکومت اپنی اکثریت ثابت نہ کر پائی۔ اس کے باوجود حکومت مصر رہی کہ جمعرات کو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلاکر 30 کے قریب قوانین کو یکمشت منظور کروالیا جائے۔
بدھ کے روز مجوزہ اجلاس کے لئے اپنے بنچوں پر اکثریت کو یقینی بنانے کے لئے بھاگ دوڑ شروع ہوئی تو حکومت کو پہلا دھچکا اس خبر کی وجہ سے لگا جو وزیر اعظم کی سپریم کورٹ طلبی کی وجہ سے بریکنگ نیوز بنی۔ ذاتی طور پر میں دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے عمران خان صاحب کو ذاتی طور پر طلب کرنے کا حکم کسی درباری سازش کا ہرگز حصہ نہیں تھا۔ 2014 میں وحشیانہ دہشت گردی کی بدولت شہید ہوئے بچوں کے والدین کی تسلی کے لئے سپریم کورٹ ایسا فیصلہ کرنے کو فطری طور پر مجبور ہوئی۔
ہماری سیاسی تاریخ میں وزرائے اعظم کی سپریم کورٹ میں طلبی مگر دیگر کئی وجوہات کی بنا پر کبھی خیر کی خبر ثابت نہیں ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف ایسی طلبی کی وجہ ہی سے بالآخر اقتدار سے فارغ ہوئے تھے۔ عمران خان صاحب کے بے تحاشا حامیوں کو بدھ کے روز وہ بھی اسی راہ کی جانب بڑھتے نظر آئے۔ دریں اثناء فقط اتحادی جماعتیں ہی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کی بابت اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کر رہی تھیں۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے کئی اراکین بھی ناراض تھے۔ ان میں سے کم از کم پانچ ایسے افراد کے نام مجھے بھی معلوم ہیں جنہیں وزیر دفاع پرویز خٹک بدھ کے روز رام کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ انہیں منانے کی کوششیں مگر ناکام ہوئیں۔ دیگر کئی حکومتی اراکین اسمبلی کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ہوا ہو گا۔ اسی باعث حکومت بالآخر جمعرات کا اجلاس مؤخر کرنے کو مجبور ہوئی۔
بدھ کے روز سامنے آئی خفت کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے ہوئے عمران خان صاحب کو اب حکومتی اراکین اسمبلی سے طویل مشاورت کا عمل شروع کرنا ہو گا۔ ان کی مشاورت کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کوبھی تھوڑی عزت دینا ہوگی۔ جمہوری نظام تخت یا تختہ کا رویہ اختیار کرتے ہوئے چلا یا ہی نہیں جاسکتا۔ سیاست ہمیشہ لچک اور درمیانی راستہ ڈھونڈنے کا تقاضا کرتی ہے۔ اس عمل میں کن فیکون والے معجزے رونما نہیں ہوتے۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر