مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

توپاں والے دروازے کی سیر: ماضی اور تاریخ کے سنگ(قسط7) ||گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

گلزار احمد خان اور وجاہت علی عمرانی کی مشترکہ قسط وار تحریر جو ڈیرہ اسماعیل خان کے معروف توپاں والا دروازے سے متعلق یادداشتوں پہ مبنی ہے۔ جس میں تاریخی، ثقافتی، ماضی اور روایتی باتیں قلمبند کی گئی ہیں ۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمرانی صاحب کہنے لگے، گلزار صاحب! جب 1824کے بعد لکھی مل کے بنائے گئے نقشے کے مطابق شہر کی چار دیواری اور دروازے بنائے گئے تو یہاں پر بننے والے دروازے کو "تحصیل دروازہ” کہا جاتا تھا اور اسی نام سے مشہور تھا۔ کیونکہ راجہ رنجیت سنگھ کے پوتے سردار نونہال سنگھ کو "شیر دلیر ” کا لقب ملا ہوا تھا تو 1836میں قلعہ اکال گڑھ کی تعمیر کی وقت سردار نونہال سنگھ نے اپنے لقب کے مطابق اسی "تحصیل دروازے ” کے عین اوپر ایک دھاڑتے ہوئے شیر کی مورتی تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ اس شیر کی مورتی کی تعمیر کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کی عوام اس کو تحصیل دروازے کی بجائے "شیراں والا دروازہ ” کہنے لگی۔۔
1849-50 میں انگریزوں کے آنے کے بعد اور موجودہ علاقے کو 1894 میں باقاعدہ چھاؤنی بنانے کے بعد وہ سامنے کینٹ کی حدود شروع ہونے والی جگہ پر انگریز فوج کی طرف سے ایک پختہ چبوترے پہ باقاعدہ ماڈل کہ طور پر توپیں رکھی گئیں اور چھاؤنی کے اندر باقاعدہ طور پر دوپہر 12 بجے رروزانہ توپ کے زریعے ہوائی گولہ داغا جاتا تھا۔ اس گولہ کی آواز تقریبا پورے شہر میں سنائی دیتی تھی۔ فوجیوں کے ساتھ ساتھ عام مزدور اور سرکاری اہلکار اسی گولہ کی آواز پہ کھانے کا وقفہ کیا کرتے تھے۔ عام عوام کو وقت کا بھی پتہ چل جاتا تھا کہ دوپہر کے 12بج گئے ہیں۔ گلزار صاحب! قدیم ماضی کا تحصیل دروازہ یا شیروں والا پکارے جانے والا یہ عظیم دروازہ 1900کے آس پاس توپوں کے نصب ہونے اور گولا داغنے کے بعد عوام میں "توپاں والا دروازہ ” مشہور ہو گیا۔ اسکے ساتھ جو بازار منسلک ہے اس کو انگریز دور میں "ویلکم بازار ” کہا جاتا تھا۔ لیکن انگریزوں کے جانے کے بعد اور اس دروازے کی مشہوری کے باعث اس بازار کو بھی توپاں والا بازار کہا جانے لگا۔
عمرانی صاحب! یاد رکھیں 1895کے برطانوی عہد میں شہر کے کئی دروازوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ انکی تزئین کا کام بھی کیا گیا تھا۔ کیونکہ ماضی ہی سے یہ دروازہ ثقافت کا مرکز رہا ہے اسی وجہ سے اس دروازے اور بازار کے آس پاس کے علاقے کی تاریخی حویلیاں، کھانے، محلے اور گلیاں قدیم ادوار میں اس علاقے کی خوشحالی کی گواہی دیتے ہیں۔
میں نے کئی دفعہ محسوس کیا کہ کہ عمرانی صاحب جب اس دروازے کی تاریخی حیثیت اور وجہ ِ تسمیہ بیان کر رہے تھے تو اللہ جانے وہ سامنے کینٹ ایریا کی طرف بار بار کیوں دیکھتے تھے۔ بہرحال عمرانی صاحب اپنا سر جھٹکتے ہوئے کہنے لگے، گلزار صاحب!
شہر کا بھی دستور وہی جنگل والا
کھوجنے والے ہی اکثر کھو جاتے ہیں
گلزار صاحب! وقت کے ساتھ ساتھ معاشرہ تغیر و تبدیلی کے عمل سے گزرتا رہتا ہے سماجی علوم کے ماہرین کے مطابق ہر تیس سال کے بعد معاشرتی اقتدار رسم رواج تک تبدیل ہوجاتے ہیں اگرآج سے تیس سال پہلے کا کوئی شخص زندہ ہوکر واپس آجائے تو اس کے ردعمل سے ہمیں یہ پتا چلے کہ سماج میں کیا تبدیلی آئی ہے کیونکہ ہم زندہ انسان ان تبدیلوں کو اس لئے محسوس نہیں کرتے کہ یہ بہت آہستہ سے آتی ہیں اور ہم وقت کے ساتھ ان تبدیلیوں سے سمجھوتہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ اسی بازار میں میرے بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ابتدائی دنوں کی مسرتوں والے راستے اب دھندلا چکے ہیں۔ چلیں گلزار صاحب۔
تاریخ سے بوجھل قدم اٹھاتے ہوئے ہم موجودہ گلشن بیکری تک پہنچ گئے تو میں کہنے لگا، عمرانی صاحب۔ 1925-26 کے آس پاس یہیں پر سیٹھ تھاریہ نے اپنی "بھگوان آئس فیکٹری” یعنی برف خانے کی بنیاد رکھی تھی جو کہ اپنی معیاری برف کے حوالے سے شہر میں کافی مشہور تھی۔ لیکن ڈیرہ میں جاری ہندو مسلم فسادات کی نذر ہو گئی اور مکمل طور پر جلا دی گئی تھی۔۔ ہم ماضی کی یادوں میں کھوئے چلتے چلتے لیاقت پارک موجودہ میلاد پارک تک آ پہنچے جہاں اس کے قریب ماضی میں ڈیرہ اسماعیل خان کا مرکزی تانگہ سٹیند ہوا کرتا تھا۔ اسی تانگہ سٹینڈ کے ارد گرد نقش و نگار کرنے والے، ریگزین کی بہترین چھتیں اور سیٹیں بنانے والے کاریگر، ہاتھ سے بجانے والی گھنٹیاں، پائیدان، چابک اور دوسری سجاوٹ کی اشیاء بیچنے والے لوگ چلتے پھرتے اپنی اشیاء بیچتے یا پھر اردگرد والے چائے کے ہوٹلوں پہ نظر آتے۔ اس تانگہ سٹینڈ پر صبح تا رات کافی بھیڑ اور چہل پہل رہتی۔ اس دور میں جب تانگے کی سواری عام تھی تو شہر میں اس کے کاریگر بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ تانگہ کی تیاری بھی کاریگری کانمونہ تھی جب کہ اس کی سجاوٹ اور تزئین و آرائش کے کاریگر علیحدہ تھے۔ لیکن گزشتہ 20سال میں زندگی کے مشینی دور میں داخلے کے بعد رکشوں اور چنگچیوں کی بھرمار سے تانگہ سٹینڈ قصہ پارینہ بن گیا اور تانگہ کھینچتی گھوڑے کی مخصوص چاپ زمانے کی گردش میں کہیں کھو گئی ہے۔ تانگہ اور اس روزگار سے منسلک تمام ہنرمندوں نے اس سواری کے بند ہونے کے بعد دوسرے پیشے اپنا لیے ہیں۔
موجودہ میلاد پارک کی طرف حسرت سے دیکھتے ہوئے عمرانی صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے۔ گلزار صاحب شاید اس پارک کا قیام 1924 کے بعد سبزہ زار قطعے کے طور پر ہوا، اور یہ جگہ مذہبی اجتماعات اور جلسوں کی وجہ سے بہت مشہور تھی، اسی وجہ سے یہ جگہ "جلسہ پارک” کے طور پر مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں پر مرکزی تانگہ سٹینڈ ہونے کی وجہ سے لوگ اس کو "تانگہ پارک ” بھی کہتے تھے۔ اس پارک کے متعلق ایک سینہ بہ سینہ روایت یہ بھی ملتی ہے کہ 1968-69 میں یا اس کے بعد عام دنوں میں اس سے منسلک محلہ جوگیاں والے سے تعلق رکھنے والے ایک حکیم ” لیاقت جوگی ” اپنی جڑی بوٹیوں سے بنائی گئی ادویات کے ساتھ اکثر اسی پارک کے احاطے میں بیٹھ کر مریضوں کا علاج کرتے تھے۔ اسی وجہ سے بعد میں یہ پارک "لیاقت پارک ” کے نام سے مشہور ہو گیا۔۔ اب اللہ جانے یہ روایت کس حد تک درست ہے، گلزار صاحب، روایت کوئی بھی ہو، راوی کوئی بھی ہو، لیکن ماضی کے ثقافتی اور قدیمی جلسہ پارک، تانگہ پارک اور لیاقت پارک کو اب حکومت نے باقاعدہ ایک سرکاری اعلان کے مطابق "میلاد پارک ” میں تبدیل کر دیا ہے۔ (جاری ہے)

%d bloggers like this: