مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

توپاں والے دروازے کی سیر: ماضی اور تاریخ کے سنگ(قسط5) ||گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

گلزار احمد خان اور وجاہت علی عمرانی کی مشترکہ قسط وار تحریر جو ڈیرہ اسماعیل خان کے معروف توپاں والا دروازے سے متعلق یادداشتوں پہ مبنی ہے۔ جس میں تاریخی، ثقافتی، ماضی اور روایتی باتیں قلمبند کی گئی ہیں ۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دس بارہ قدم اس سوچ میں گم چلنے کے بعد ایک دوکان کے آگے رک کر عمرانی صاحب نے اشارہ کرتے ہوئے کہا، گلزار صاحب ! خونی ہجرت سے پہلے میرے پھلاں دے سہرے شہر ڈیرہ میں اسی جگہ پر رنگو سنگھ کی مشہور و معروف سرائے "رنگو سنگھ سرائے” تھی، جہاں پر دوسرے شہروں اور خاص کر ہندوستان اور افغانستان کے بڑے بڑے تاجروں کے علاوہ مختلف تہواروں کے لیئے تھیٹر کرنے والے اداکار اور سیرو سیاحت کی غرض سے آئے ہوئے افراد یہاں پہ رہائش پزیر ہوتے تھے۔
غلط طریقے سے پارک کی گئیں گاڑیوں کے پیچھے سے چلتے ہوئے اور بچتے ہوئے ہم وہاں آ گئے جہاں آج کل تین چار ملکی بنکوں کی برانچیں ہیں۔ ایک بنک کی اے ٹی ایم کے باہر کھلی جگہ پہ ٹھہر گئے۔ میں نے سڑک کی طرف پشت کرتے ہوئے ان بنکوں اور ہوٹلوں کی عمارتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، عمرانی صاحب ! یہ وہ جگہ ہے جہاں پر ماضی میں ایک برآمدہ نما دکانوں میں "قومی بچت سکیم سنٹر ” ایک اسلحے کی قدیمی دکان اور تیسری ریڈیو وغیرہ کی ریپئرنگ کی دکان ہوا کرتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ٹانک سے تعلق رکھنے والے سابقہ ایم این اے پیر صابر شاہ کا بس اڈہ تھا، جہاں سے کراچی روٹ کی شاندار بسیں چلتی تھیں۔ ان سے چند فٹ کے فاصلے پر ڈیرہ کے مشہور و معروف بلکہ اکلوتے ہوٹل "کیف گلبہار ہوٹل ” اور "نعمت کدہ” ہوتے تھے۔ جہاں پہ کھانے پینے کے علاوہ رہائشی کمرے بھی بڑے بہترین ہوتے تھے۔ تقسیم سے پہلے نعمت کدہ اور کیف گلبہار ہوٹل والی جگہ پر "ملک لیلا رام” کا ایک قدیمی مسافر خانہ ہوتا تھا۔
ابھی ہم تاریخ کو کرید رہے تھے کہ اچانک کسی نے بڑے والہانہ انداز سے السلام وعلیکم کہا، ہم دونوں نے مڑ کے دیکھا تو ہمارے نہایت ہی واجب الاحترم استاد محترم ریاض حسین انجم صاحب اپنے بیٹے سید علی رضا شاہ کے ساتھ ہماری پشت کی طرف سے نمودار ہوئے۔ بڑی محبت سے ہمیں گلے لگایا اور حال احوال پوچھنے لگے۔۔ یہ ہماری قسمت تھی کہ ہمارے درمیان ایسی ہستی موجود تھی، جو کہ علمی، ادبی اور فکری ہونے کے ساتھ ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخ کی ایک مکمل کتاب بلکہ انسائیکلو پیڈیا ہیں۔۔ جب ہم نے بتایا کہ یہاں پر ماضی کے گلبہار اور نعمت کدہ ہوٹل کی تاریخ پر بات کر رہے ہیں۔ استاد ریاض انجم صاحب ہم سے کہنے لگے، او تاریخ کے کھوجیو! یہ جو میرے بائیں ہاتھ کی طرف ایک گلی دیکھ رہے ہو ناں پرانے نعمت کدہ ہوٹل کے ساتھ، جس کا راستہ کالی باڑی مندر کی طرف جاتا ہے، میرے والد محترم سید محمد نواز شاہ مرحوم، جن کی پیدائش 1901 میں ہوئی تھی، وہ اکثر مجھے بچپن اور جوانی میں اس جگہ سے گزرتے ہوئے بتاتے تھے کہ بیٹا ریاض ! یہ دیکھو، یہ وہ جگہ ہے جہاں پر ایک سینما ہوتی تھی اور میں اس میں اپنی نوجوانی میں فلمیں دیکھتا تھا، اکثر وہ اس میں دیکھی گئی لاجواب فلم ” چندر لیکھا ” کی بات کرتے تھے بلکہ مجھے بھی دیکھنے کا کہتے تھے۔ ہم نے بڑی حیرانگی سے کہا، مطلب یہ سینما ڈیرہ اسماعیل خان کی اولین سینما تھی، فرمایا جی بالکل۔ پلازہ اور ٹیٹلر سینما تو بہت بعد میں بنی۔ تقسیم سے پہلے یہ سینما شایدً گر گئی تھی یا اس کو آگ لگی تھی۔ ہم دونوں استاد ریاض انجم صاحب سے کہنے لگے، مرشد ! اس اولین سینما کی آپ کی زبانی تاریخ سن کر اور ہمارے ساتھ آپکی موجودگی نے ہمارے تاریخ اور ماضی میں اٹکے اذہان کو سر سبزو و توانا کر دیا، آئیں چلیں ہمارے ساتھ ۔۔ فرمانے لگے، تاریخ کے کھوجیو! میں آپ کے ساتھ ضرور چلتا لیکن میرے پرانے محلے میں کوئی میرا انتظار کر رہا ہے، پہلے بھی بہت دیر ہو چکی ہے۔ میں بیٹے علی رضا کے ساتھ چلتا ہوں ابھی مجھے اجازت دیں۔ پھر کبھی تاریخی کے حوالے سے ملاقات اور بات ہوگی۔
استاد محترم کو الوداع کرنے کے بعد ابھی ہم دونوں آنکھوں میں ماضی اور تاریخ و سجائے چلتے ہوئے پولیس چوکی سے دو دوکانیں پہلے تھے کہ عمرانی صاحب اچانک رُ ک گئے اور کہنے لگے، گلزار صاحب ! تاریخ اور بزرگ یہی فرماتے تھے 1907میں تعمیر ہونے والے اس "کالی باڑی مندر” کے آگے اسی سڑک کنارے پر ڈیرہ کے مشور معروف "بگائی سیٹھ” کی پہلی موٹر کمپنی ” بگائی موٹر ورکس ” تھی اور اس کی ساتھ والی جگہ پر ڈیرہ اسماعیل خان کی پہلی ” ریلوے اوٹ ایجنسی ” قائم ہوئی تھی۔
میں نے کہا بالکل عمرانی صاحب! ماضی میں حکومت برطانیہ کے دور میں ڈیرہ اسماعیل خان گیٹ وے آف انڈیا تھا اور دریائے سندھ پہ بنی کونٹوں والی کچی پل کے ذریعے تجارتی سامان و مال صرف اور صرف دریا خان کے ہی راستے سے ہندوستان اور وسطی ایشیاء کے کونے کونے تک جایا کرتا تھا۔ اسی وجہ سے تاجِ برطانیہ نے دریا خان میں 1887 میں ریلوے سٹیشن قائم کیا تاکہ فوجییوں کی نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ تجارتی سامان کو پورے ہندوستان کے کونے کونے تک بھیجا جا سکے۔ روس اور افغانستان کی واحد تجارتی منڈی ڈیرہ اسماعیل خان ہی تھی جہاں ” پوندے” کروڑوں روپے کا مال لے کر تجارت گنج میں ڈیرہ ڈالتے اور پورے ہندوستان کے تاجر ان سے خریداری کرنے آتے۔ تاجروں کی سہولت اور مال و سامان کی ترسیل کے لیئے حکومت برطانیہ نے ریلوے کی” اوٹ ایجنسی” کی اسی جگہ پر برانچ قائم کردی تھی۔ یہی اوٹ ایجنسی تجارتی مال کی بکنگ کرتی پھر اپنے طور پر دریا خان کے ریلوے سٹیشن پہنچاتی۔ اسی طرح ہندوستان کے دوسر ے شہروں سے آنے والا تجارتی سامان ریل کے ذریعے دریا خا ن آتا اور اوٹ ایجنسی کا عملہ اسے ڈیرہ اسماعیل خان لے کر آتا جہاں سے افغانستان اور روس کی سرحدوں تک مال بھیجا جاتا تھا۔ لیکن بدقسمتی کہیں یا دریا خان کا نصیب! 1985 میں ڈیرہ اسماعیل خان کی پختہ پل جو دریاخان کے غربی کنارے پر تعمیر ہونا تھی،لیکن اس پل کی تعمیر دریاخان سے 10 کلومیٹر دور کوٹلہ جام کے سامنے تعمیر کر کے دریاخان کو معاشی اور اقتصادی طور پر کمزور بنا دیا گیا اور دریا خان کو سینکڑوں سالوں سے تجارتی لحاظ سے جو فوقیت و اہمیت حاصل تھی وہ ختم ہو کر رہ گئی۔ لمحہ فکریہ ہے کہ 1860 تک دریا خان ڈویژنل ہیڈ کوارٹر لیہ کی تحصیل تھی اور بھکر اس تحصیل کا حصہ تھا۔ لیکن عصر حاضر میں اب بھکر ضلع ہے اور دریا خان اس کی تحصیل ہے، اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو گا؟
واقعی گلزار صاحب ! تاریخ بتانا یا لکھنا یہ ایک قلمکار کے قلم کی روشنائی اورایک مصور کے برش کا سب سے خوبصورت رنگ ہے جو اُس کی تخلیق کو سجاتا ہے۔ لیکن ہم انسانوں کا المیہ ہے کہ دوہی کیفیات میں سانس لیتے ہیں۔ ماضی کی یادیں ہمارے گرد گھیرا ڈالے رکھتی ہیں یا پھر ہم مستقبل کے سہانے خوابوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ یوں ماضی اور مستقبل کے درمیان ’لمحہ موجود‘ کہیں غائب ساہوجاتا ہے۔گزرا ہوا وقت اگر خوبصورت ہو تو اس کی یادیں موڈ کواچھا اور فرد کو تازہ دم کر دیتی ہیں اور اگر وہ ناخوشگوار ہو تو تھوڑی دیر کے لئے تلخی بھی تازہ ہوجاتی ہے۔ عمرانی صاحب غمزدہ لہجے میں کہنے لگے۔ (جاری ہے)

%d bloggers like this: