مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کامریڈ استاد محمود نظامی بھی رخصت ہوئے||حیدر جاوید سید

محمود نظامی رخصت ہوئے۔ سبھی کو رخصت ہونا ہے لیکن یہ بچھڑنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جو پیچھے رہ جاتے ہیں وہ یادوں کے دفتر کھول کے بیٹھتے ہیں تو آزردہ ہوتے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمود نظامی بھی رخصت ہوئے، استاد تھے وہ اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جسے زندگی کو سماجی و سیاسی شعور کے ساتھ سمجھنے کا شوق تھا، دوست انہیں کامریڈ اور استاد کہہ کر بلاتے۔ مطالعہ بہت وسیع تھا۔ کسی بھی موضوع پر گھنٹوں بے تکان گفتگو کرنے کی اہلیت سے مالامال سادہ سی شخصیت، دوستوں کے دوست، نئی نسل کے مربی۔ تونسہ کی مٹی سے ان کا خمیر اٹھا، وہیں آسودہ خاک ہوں گے۔

مطالعے، مکالمے، جدوجہد اور خوابوں کا سفر حیات تمام ہوا۔ سرائیکی وسیب کے باسی ابھی اپنے چندے آفتاب سعید اختر سیال کی جدائی کے غم سے نڈھال تھے کہ وسیب کا ایک اور روشن فکر دانشور ان کے درمیان سے اٹھ گیا۔

ان سے پہلا تعارف سال 1985ء میں اس وقت ہوا جب وہ مرحوم صوفی تاج محمد گوپانگ، امجد عباسی اور عاشق بزدار کے ہمراہ لاہور میں ہمارے مہمان ہوئے۔ ماڈل ٹائون کے این بلاک کے ایک فلیٹ میں۔ میں اور ارشاد امین مقیم تھے۔ یہ فلیٹ کئی برسوں تک سرائیکی، سندھی اور بلوچ دوستوں کا مہمان خانہ بنا رہا۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب دفتر سے واپسی پر ہم کسی مہمان کو اپنے فلیٹ میں جلوہ افروز نہ دیکھتے۔

فلیٹ کے تالے کی چابیاں ایسے تقسیم ہوئیں جیسے کبھی چوراہوں پر پمفلٹ تقسیم ہوتے تھے۔ اس فلیٹ میں بسر ہوئے ماہ و سال کے دوران دوست تشریف لاتے، لمبی لمبی نشستیں ہوتیں، دنیا بھر کے موضوعات پر مکالمہ ہوتا۔ کبھی کوئی مقامی دوست اچانک ملتے آتا تو اسے فیصلہ کرنے میں وقت لگتا یہاں میزبان کون ہے اور مہمان کون۔ نئے آنے والے کی خدمت میں سب پیش پیش ہوتے۔

ان برسوں میں محمود نظامی کئی بار مہمان ہوئے اور ان سے خوب محفلیں رہیں۔ وہ ایک سنجیدہ فہم سیاسی کارکن تھے۔ رجعت پسندی اور چھوت چھات کے ساتھ وقت بوقت وفاداریاں بدلنے والوں کے ناقد بھی۔ ان کے خیال میں سرائیکی وسیب کی قومی شناخت میں سب سے بڑی رکاوٹ وسیب کے پیر، ملا اور جاگیردار ہیں جو ہمیشہ "حاضر سروس” رہنے کے چکر میں عوام کو گھن چکر بنائے رکھتے ہیں۔ ہر دور کی حکومتی گاڑی میں بھاگ کر سوار ہوتے یہ تینوں طبقات اپنی نسلوں کے مفادات کے لئے زمین زادوں کے مفادات کو روندتے ہیں۔

محمود نظامی سے آخری ملاقات کچھ عرصہ قبل استاد محترم سید حیدر عباس گردیزی مرحوم کے لئے منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں ہوئی۔ مختصر وقت میں ڈھیروں باتیں اور اگلی ملاقات کا پرجوش وعدہ۔ آج ان کے سانحہ ارتحال کی خبر موصول ہوئی۔ محمود نظامی رخصت ہوئے۔ سبھی کو رخصت ہونا ہے لیکن یہ بچھڑنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جو پیچھے رہ جاتے ہیں وہ یادوں کے دفتر کھول کے بیٹھتے ہیں تو آزردہ ہوتے ہیں۔

ارشاد امین ٹھیک ہی کہتا ہے کہ ہم ہر بچھڑنے والے کی تعزیت خود سے کرتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں۔ محمود نظامی کسی دور میں ہمارے ایک اور مرحوم دوست بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کی سیاسی جماعت سرائیکی پارٹی میں فعال ہوئے اس کے آرگنائزنگ سیکرٹری بھی بنے۔ پرعزم اور پرجوش استاد نظامی آپ اپنا تعارف تھے۔ بلاشبہ سرائیکی وسیب کو ان کے سانحہ ارتحال سے ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ ابھی ان کی ضرورت تھی وہ خود "واحد” ہی نہیں بلکہ اپنی ٓذات میں ایک انجمن اور دانش کدہ تھے۔

انہیں ابھی نئی نسل کی تربیت اور فکری رہنمائی کا فرض ادا کرنا تھا لیکن وہ ہمارے درمیان سے خاموشی کے ساتھ اٹھ گئے۔ خاموش سے رخصت ہوجانے والی عادت ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ ایک نہیں درجنوں بار ایسا ہوا دوستوں کی محفل جمی ہوئی ہے۔ عصری موضوعات پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ استاد محمود نظامی اچانک غائب ہوگئے۔

اگلی ملاقات پر اس بے پروائی کا شکوہ کیا گیا تو دو لفظی جواب ملا "یار میکوں ہک ضروری کم یاد آگیا ہائی”۔ اب پتہ نہیں کون سا ایسا ضروری کام آن پڑا تھا کہ وہ بھرے پُرے وسیب کے درمیان سے اٹھ کر چل دیئے وہ بھی ایک ایسے سفر پر جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔ اپنے شعوری سفر کے ابتدائی زمانہ میں استاد محمود نظامی نیشنل عوامی پارٹی کی فکری اٹھان کے ہمنوا تھے۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کی محبت کے اسیر ہوئے۔ سرائیکی قومی سوال، فیڈریشن کے اندر دستوری یونٹ (صوبہ) دونوں نکات پر ان کی سوچ بہت واضح تھی۔

اپنا موقف بلند آہنگ کے ساتھ لگی لپٹی کے بغیر پیش کرتے ہوئے بھی وہ دوستوں اور سامعین کی عزت نفس کا پاس رکھتے تھے۔ اس خوبی نے انہیں ممتاز کیا ورنہ یہاں دو تین کتابیں پڑھے "دانشور” تو خدائی منصب سنبھال بیٹھتے ہیں اور پھر مسیتڑ مولوی کی طرح "فیصلے” سنانے لگتے ہیں۔ استاد محمود نظامی اپنے چار اَور کے لوگوں میں ہر طرح سے منفرد تھے۔ جسے درست سمجھتے اس پر ڈٹ جاتے ایسے میں انہوں نے کبھی نفع نقصان کا دفتر نہیں کھولا۔

یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات یہ بھی ہوا کہ انہیں وقتی طور پر نقصان اٹھانا پڑا، مصیبت جھیلنا پڑی لیکن پچھلے پینتیس چھتیس برسوں کے دوران میں نے ان کے چہرہ پر کبھی ملال نہیں دیکھا۔ کبھی اس سے کہا کہ یار نظامی تمہیں لوگوں کی کج ادائیوں اور قلابازیوں پر غصہ نہیں آتا؟ ہنستے ہوئے جواب دیا "شاہ جی، آدمی اپنی ضرورتوں اور حالات کا اسیر ہوتا ہے قیدی سے شکوہ کیا کرنا”، میرے قیام ملتان کے ماہ و سال کے دوان میں اور مرحوم رضو شاہ (سید حسن رضا بخاری) تقریباً روزانہ ملتان پریس کلب کے صحن میں ڈیرے ڈالے رہتے تھے، استاد محمود نظامی بھی گاہے گاہے اس محفل کا حصہ ہوتے۔

اسلم جاوید سے ان کی خوب نوک جھونک رہتی اس نوک جھونک میں دونوں جس طرح علم بانٹتے وہ بھی خوب تھا۔ پرانے سرائیکی اکھان، قدیم الفاظ، شاعرانہ تراکیب سے ہوتی ہوئی باتوں کا رخ تاریخ کے دفتر کھولتا۔ گاہے درمیان میں مارکسزم کا تڑکہ لگانا نہ بھولتے۔ تاریخ اور سیاستِ عصر کے ساتھ سرائیکی قومی سوال ان کے پسندیدہ موضوعات رہے ان موضوعات پر گفتگو کرتے وقت استاد محمود نظامی پر عجیب کیفیت طاری رہتی۔

ان کا خیال تھا کہ سرائیکی جماعتوں نے صوبے کی بات کی تو گلی گلی پہنچادی لیکن قومی جدوجہد کے لئے فکری طور پر مالدار نسل تیار کرنے کی ذمہ داری نبھانے سے اجتناب برتا یہی وجہ ہے کہ متبادل قیادت تیار نہیں ہوپائی۔ آج صبح غضنفر عباس کے توسط سے استاد محمود نظامی کے سانحہ ارتحال کی خبر ملی تو جدائی کے دُکھ نے آن گھیرا۔ ان سے تعلق کے پنتیس چھتیس برسوں کی یادیں قطار اندر قطار اترنے لگیں۔ ماڈل ٹاون این بلاک کے فلیٹ میں ہوئی اولین ملاقات سے کچھ عرصہ قبل ملتان ٹی ہاوس میں ہوئی مختصر آخری ملاقات تک کے ماہ و صال دستک دینے لگے۔

کامریڈ استاد محمود نظامی اب ہم میں نہیں رہے۔ اس حقیقت کو تسلیم بہرطور کرنا ہی پڑے گا۔ سرائیکی وسیب اپنے روشن فکر ترقی پسند اور صاحب مطالعہ فرزند سے محروم ہوا۔ حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، وہ اپنی وضع اور فہم کے منفرد انسان تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: