اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سردار عطا اللہ مینگل کی سید علی گیلانی سے دوران سفرِ برزخ گفتگو||فضیل اشرف قیصرانی

تم سے گلہ نہیں کہ تم میری ہی طرح کے مظلوم تھے مگر تمہارے دلدادوں کا سوال تم سے نہ پوچھوں تو کس سے پوچھوں؟کس سے کہوں کہ تمہارے دلدادوں کے ازہان پر وہ قفل پڑے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔انکے احساسات،جذبات،ہمدردی اور سوچ تک ان زنجیروں میں جکڑی ہے کہ جس کے خلاف تمہاری اور میری تمام عمر جہد کرتے گزری۔۔

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیارے سید علی گیلانی!
ستم ظریفی کہوں یا اتفاق کہ ہماری یعنی میری اور تمہاری اس دنیا سے رخصتی کا دن بھی ایک ہی ہے۔عمر بھی ہم دونوں کی بیانوےسال ہے اور ہماری جہد بھی کم و بیش ایک سی رہی-ہم ایسے سادہ دل خاندانی اور ذیشان لوگ ہیں علی کہ نہ جیتے جی کھبی گلہ کیا اور نہ بعد ازاں مرگ کسی پہ کوئ واجب قرض چھوڑ آے-ہاں اگر کوئ ہم سے متعلق کچھ پیار اور عقیدت جِتلانا چاہے بھی تو ہمارے اصول اُسکے لیے تمام عمر مشعل راہ رہیں گے۔۔۔۔۔
ہم کہ وہ ہیں کہ گمشدگی کا پہلا ظلم ہمارے گھر سے شروع ہوا-ہم کہ وہ ہیں کہ اقتدار کی قربانی کو وطن کی سلامتی کا صدقہ جانا،ہم کہ وہ ہیں کہ قید و بند ،دار و رسن اور جلا وطنی کی سعوبتوں میں مبتلا رہ کر بھی کھبی اپنے اصولوں کو پشت نہ کی اور ہم کہ وہ ہیں کہ صاحب فراش ہو کر بھی بنے تو مشعل راہ ہی بنے۔۔۔
دل مگر دل ہے-دل کی خواہشات سواۓ اسکے کھبی کچھ نہ رہیں کہ اپنی گلزمین پر زمین زادوں کا اختیار دیکھ جاتے۔دیکھ جاتے کہ اپنی مٹی پہ اپنے اختیار کی مہک کیسی ہے۔خیر وہ نہ تم دیکھ پاۓ اور نہ میں-دنیا کے سچ میں کہوں تو دونوں ناکام ہی پہنچے ہیں اس عالم برزخ میں۔مگر اسی دل کے کسی گوشے میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے اس منافقت پر کہ تم جس کے مستفید ہو اور میں راندہِ درگاہ-
ہمارے مرنے کادن ایک تھا اور اخبار کی شہہ سرخی تم تھے اور میں کہیں نیچے دوسطری خبر میں کہ عطاللہ مینگل وفات پا گۓ،ہماری جہد حقوق کی تھی مگر ٹی وی کے ہر چینل پہ تمہاری داستان میں اعزازات و القابات تھے جبکہ میرا نام منسلک تھا تو میری وزارت عالیہ کی بر طرفی سے،میرےتعارف میں تھا تو بلوچستان کے اولین منتخب برطرف وزیر اعلی اور تمہارے تعارف میں تھے توزمین وآسمان کے قلابے-
تم ہی کہو کیا اپنے تعارف کے بعد تم میرے تعارف سے مطمئن تھے؟
یار علی!
تم سے گلہ نہیں کہ تم میری ہی طرح کے مظلوم تھے مگر تمہارے دلدادوں کا سوال تم سے نہ پوچھوں تو کس سے پوچھوں؟کس سے کہوں کہ تمہارے دلدادوں کے ازہان پر وہ قفل پڑے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔انکے احساسات،جذبات،ہمدردی اور سوچ تک ان زنجیروں میں جکڑی ہے کہ جس کے خلاف تمہاری اور میری تمام عمر جہد کرتے گزری۔۔
یہ کیوں کھلی آنکھوں والے نابینا ہیں؟کیوں انہیں نہیں دکھتا کہ میں مینڈیلا اور کاسترو نہ سہی مگر پاکستان کا اچھا تعارف تھا-میں تم سے مقابلہ نہیں چاہتا مگر خودی بتاؤ تم سے کم تھا کیا؟
میری زندگی کا کوئ ایک دن بتاؤ جو بے اصولی پہ گزرا ہو؟کھبی میں نے حق گوئ میں تردد برتا ہو؟کھبی حق تلفی پہ سوال بلند نہ کیا ہو؟کھبی ایسا ہوا؟حقوق کی جہد بشمول تمہاری جہد کے لیے کیا میں نے آواز اپنے گلے سے زیادہ بلند نہیں کی؟
علی یار تم سے یوں مخاطب ہوں کہ اپنی عظمت پہ تمہاری گواہی ڈلوانا چاہتا ہوں؟اس لیے نہیں کہ میں عظیم تھا،اس لیے کہ کوئ اور عظیم تمہارے دلدادوں کی زندگی میں انکے سامنے ہو تو یہ غلام اسکی عظمت کا انکار کر کے اپنی غلامی کی تصدیق نہ کریں بلکہ کھلے دل سے اسکی عظمت کا اعتراف کر کے اپنے عظیم اور آزاد ہونے کا ثبوت دیں۔۔۔
میں تو اپنے پرکھوں شہید نورا مینگل اور شہید خان محراب خان کی محفل میں آن پہنچا۔میں آن پہنچا ہوں اپنے سیاسی ساتھیوں کی سنگت میں جہاں غوث بخش بزنجو ہے،خیر بخش اور اکبر ہیں،گل خان نصیر ہے اور ہمارا یار بابو شورش ۔۔یہاں سھبی میری عظمت کے معترف ہیں کہ یہاں جھوٹ اور غلامی کا تصور نہیں۔
اچھی دنیا میں عظمت کا اعتراف عظمت ہے-تمہارے دلدادوں کو کوئ اس عظمت سے روشناس کرا دے کہ اور نہ سہی اپنی فکر کو ہی آزاد کرا لیں یہ لوگ۔یہ خود سے سوچنے کی ابتدا تو کریں کہ اس میں نہ زیادہ وقت درکارہے اور نہ دِقت ۔
کہو اپنے دلدادوں سے کہ دیکھو،خودی دیکھو میں کون تھا؟خودی سوچو میرا رتبہ کیا تھا؟خودی اندازہ لگاؤ کہ میں کس قدر با اصول تھا؟میں اصول پسندوں کے اس قبیل سے تھا کہ جہاں جان سے اصول مقدم رکھے جاتے ہیں-
نہیں جانتا کہ تمہارے ملک بھارت کہ تم جس کے شہری تھے کا سب سے بڑا عہدہ کیا تھا مگر جانتے ہو ہمارے ملک پاکستان کا سب سے بڑا عہدہ کیا ہے؟
صدارت!
ہاں !
سہی سنا صدارت !
وہی صدارت جس کے لیے ایوب،ضیا اور مشرف جیسے لوگ نہ صرف بکے بلکہ مسلسل اور ارزاں بکے۔انہی کے متعلق کہہ گۓ حضرت کہ،
؀ قومِ فروختند و چہ ارزاں فروختند
صدارت کی خواہش میں یہ لوگ پاتال کی گہرائیوں تک یوں گرے کہ گرتے ہی چلے گۓ اور انکی وہاں سے واپسی نہ ہو سکی۔میں عظیم تھا اور میں نے اس عہدے کو جوتے کی نوک پہ رکھا کہ یہ عہدہ میرے اصولوں کی راہ کا پتھر تھا۔
اور کیا ثبوت پیش کروں؟
بہادر تھا،بااصول تھا،با کردار تھا،صلح جو تھا،ہر دلعزیز تھا مگر تم اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ کیا تمہارے دلدادوں نے میری رخصتی پہ میرے شایان شان بندوبست کیا؟کیا تمہارے دلدادوں نے مجھے کم و بیش ایک واجبی سی ضرورت کے تحت پیش نہیں کیا میڈیا پہ کہ انکی صحافتی آزادی کا بھرم رہ جاۓ؟
میں کہ آزاد تھا مگر غلاموں کے بیچ تھا-میں کہ رخصت ہوا تو غلاموں کے کاندھوں پر۔بتاؤ اپنے دلدادوں کو کہ میں رخصت ہو گیا ہوں اور میری واپسی تمہاری دنیا میں اب نہیں ہے۔یہ میرا ہی سبق تھا کہ “مورخ جب تاریخ لکھے گا تو وہ تم سے پوچھ کے نہیں لکھے گا بلکہ وہ تمہارا کردار دیکھے گا۔”سو میں اور میرا کردار مورخ کے حوالے۔
ویسے بھی میرا کردار دنیا کے سامنے ہے۔میں کھلی کتاب کی طرح اپنی حیات کا حساب تمہارے دلدادہ غلاموں کے بیچ چھوڑ آیا ہوں سو مجھے کوئ غم نہیں۔۔
مگر خدا کرے کہ تمہارے دلدادہ اپنے ہیروز کو اون کرنا شروع کر دیں۔یہ کب تک دیس بدیس کے لوگوں کی کامیابیوں پر یوں خوش ہوتے رہیں گے کہ لگے جیسے بیگانی شادی میں عبدللہ دیوانہ۔زیادہ دور نہ جاؤ افغانستان میں ہی دیکھ لو ان عبدللہ دیوانوں کی خوشیاں۔۔۔۔
یہ کب تک ارطغرل کے بیمار رہیں گے اور اپنی نسلوں کو اس بیماری کے جراثیم منتقل کرتے رہیں گے؟
میں مگر اپنے حصے کے پاگل چھوڑ آیا ہوں وہیں دنیا میں۔مجھے اطمنان ہے کہ میرے حصے کے پاگل کل بھی بر سرِ میدان کھڑے تھے اور آئیندہ بھی کھڑے رہیں گے کہ یہی میرا سبق تھا۔تم مگر بتاؤ اپنے دلدادوں کو مجھے جب تک پڑھ نہ لیں میرے متعلق راۓ قائم مت کریں۔بتاؤ انہیں کہ ابھی کچھ ماہ پہلے ہمارا بچہ عثمان کاکڑ بھی اس دنیا سے رخصت ہوا تھا-تمہارے دلدادہ اسکی عظمت کے بھی انکاری تھے –
پوچھو ان سے کہ کیا فرق پڑا انکے انکار سے؟
سواۓ اسکے کہ یہ لوگ ایک آزاد آدمی سے محروم ہو گۓ؟بتاؤ انہیں کہ کھبی غلاموں کے غول میں ایک آزادآدمی کو بطور نعمت تصور کر کے دیکھنا تو جان پاؤ گے انکی عظمت کیا ہے؟تمہارے دلدادوں کو تمہاری سوچ سے نہ سمجھاؤں؟
یہ کیوں روۓ جا رہے تھے تم کو یعنی علی گیلانی کو؟ ویسے سچ کہوں تو یہ روۓ شوۓ کوئ نہیں بلکہ تمہارے جانے پہ بھی ٹسوے ہی بہاۓ ہیں تمہارے دلدادوں نے یعنی منافقوں نے ۔
پوچھو ان سے کیا تھی وجہ رونے کی؟
یہی نا کہ تم علی گیلانی غلامی میں آزاد تھے؟
تو پوچھو ان سے ذرا کہ
عثمان کون تھا؟میں یعنی سردار عطا اللہ مینگل کون تھا؟
اور کون تھے میرے قبیل کے لوگ؟
رکھواؤ ان سے اپنے دل پہ ہاتھ اور کہلواؤ ان سے کہ میں تم سے یعنی علی گیلانی سے فرق تھا؟
نہیں کہنا چاہتا مگر کہنا پڑ رہا ہے،
کہ تمہارے دلدادوں کے متعلق ہی کس نے کہا ہے،
؀تم لوگ منفافق ہو، منافق بھی بلا کے
سومیرے وطنِ عزیز پاکستان کے منافق غلامو اور بدیسی درآمد شدہ ہیروز کے دلدادو!
تم سے مجھے چی گوئیرا بننے کی توقع ویسے بھی نہیں مگر،اگر دل اور زبان رکھتے ہو تو انکا مقصد جان لو-انکا مقصد صرف خون کی سپلائ اور ذائقے چھکنا نہیں بلکہ دل فیصل ہے اور زبان بولنے کو خدا نے دے رکھی ہے۔اس سے پہلے کہ غلامی اور منافقت کی موت مارے جاؤاٹھ کر دیکھو کہ کھبی ہم سے عظیم لوگ بھی تمہارے بیچ موجود تھے-
معترف رہو میری عظمت کے میری عظمت کا اعتراف ہی تمہاری غلامی کا انکار ہو گا،معترف رہو میری صداقت کے کہ وہی تمہاری منافقت کا انکار ہو گا اور معترف رہو میری حق گوئ،راست بازی اور اصول پسندی کے کہ یہیں سے تم اپنی غلامی سے آزادی پاؤ گے۔اور ہاں دیکھو میں خود اپنی عظمت کا معترف ہوں کہ آنکھوں والے بشمول علی گیلانی کے جانتے ہیں میری عظمت ۔۔۔
سو میں خود اپنا نعرہ بلند کروں گا!
میں زندہ آباد!
سردار عطااللہ مینگل زندہ آباد!
سردارعطااللہ مینگل کے اصول زندہ آباد!
سردار عطااللہ مینگل کی حیات زندہ آباد!
سراوان،جھالاوان،شوران،سلمان،رخشان،مکران،سیستان اور بلوچستان کے افسردہ پہاڑو!
تمہارا فرزند سردار عطا اللہ مینگل زندہ آباد!
اور
ان پہاڑوں میں اور ان پہاڑوں کی ہمسائگی میں پلتا ہر غلام جو شعوری طور پر غلام رہناچاہے وہ مردہ آباد!
غلامی مردہ آباد!

%d bloggers like this: