مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں || عادل علی

محترمہ نے جب ایک آمر کے دور حکومت میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ جان کا خطرہ عین درپیش ہے اور وہ نشاندہی بھی کرچکی تھیں کہ کونسے عناصر ان کی جان کے درپے ہیں, وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا اور واپس آئیں.

عادل علی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم اپنے بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ محترمہ اگر کسی کے بھی گلے میں ٹکٹ ڈال کر کہیں سے بھی مقابلے میں اتار دیں تو یہ عوام اسے سر آنکھوں پر بٹھا کے کامیاب کرائیگی۔
پیپلز پارٹی کا مطلب ہی عوام اور عوام کی پارٹی ہے جس میں ہر شخص اپنی رائے دینے کا حق رکھتا ہے چاہے وہ کسی کو پسند آئے یا نا !
بھٹو صاحب کے زمانے میں ان کی کرشماتی شخصیت نے عوام کے دل و دماغ پر وہ نقوش ثبت کردیے تھے کہ آپ آج تک چاہے کچھ بھی کیوں نہ کر لیں مگر جہاں بات ہو شہید بھٹو و محترمہ شہید کی تو سر آج بھی ادب سے نگوں ہو جاتے ہیں اور دکھ کی اک آہ ضرور نکلتی ہے اور اکثر و بیشتر یہ ہی جملہ سننے کو ملتا ہے کہ بھٹو صاحب بھٹو صاحب تھے اور محترمہ بس ایک ہی تھیں ان کا کسی سے کوئی موازنہ نہیں ہے۔
دوسرے دور حکومت کے بعد نون لیگ کی اداروں کے ساتھ ملکر سازشوں اور انتقامی کاروائیوں میں محترمہ نے میر جیسا بھائی بھی کھو دیا مگر ہار نہ مانی یہاں تک کہ آصف علی زرداری پر بلاجواز جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر مرد حر امام سیاست اپنی مسکراہٹ سے حالات کو مات دیتے گئے۔
محترمہ کو جلاوطنی کی صعوبت برداشت کرنی پڑی تو خدا کی کرنی بھی ایسی ہوئی کہ نواز شریف بھی انہی ہاتھوں کے دھکے کھا کہ سعودیہ میں سیاسی پناہ گزیر بنا جن ہاتھوں کو اس نے کبھی طاقت سونپی تھی۔
محترمہ نے جب ایک آمر کے دور حکومت میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ جان کا خطرہ عین درپیش ہے اور وہ نشاندہی بھی کرچکی تھیں کہ کونسے عناصر ان کی جان کے درپے ہیں, وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا اور واپس آئیں.
ان کے آنے سے عوام میں بس ایک ہی امید و امنگ تھی کہ بینظیر آئیگی مہنگائی و بھوک مٹائیگی روزگار لائیگی !
چونکہ یہ سب سچ بھی تھا اس لیے محترمہ کو بھی بیدردی سے شہید کردیا گیا اور اس وقت جب عوام کا غصہ عروج پر تھا تب بھی آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کیا اور الیکشن جیت کر وردی میں ملبوس ایک گھس بیٹھیے کو نکال باہر کیا اور بنا کسی تقدر کے تمام اختیارات پارلیامینٹ کو منتقل کر دیے اور یہ ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس بات پر بلاشبہ مکمل یقین رکھتی ہے کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں اس لیے اختیارات بھی عوام کے پاس ہی ہونے چاہییں.
اسی وجہ سے آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ وردی خود نہیں مگر کٹھ پتلیاں میدان میں اتارنے پر مجبور ہے۔
قوم بھٹو صاحب کے تہتر کے آئین اور زرداری صاحب کی اٹھارویں ترمیم کا احسان کبھی نہیں چکا سکتی ورنہ آج عمران نہیں براہراست عمران کے مالکان برسراقتدار ہوتے۔
اس بات میں کوئی شائبہ نہیں ہے کہ عوامی سطح پر پیپیلز پارٹی سے نظریاتی لوگوں نے کچھ دوری اختیار کی اب وہ ان کی مجبوری تھی یا کچھ اور پر اس وقت نواسہ بھٹو بلاول و عکس بینظیر آصفہ جس طرح عوامی رابطہ مہم اور گلی محلوں تک خود جا جا کر عوام کو واپس خود سے جوڑ رہے ہیں یہ تمام محنتیں اس بات کا اشارہ کر رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی ستر کی دہائی والی پارٹی بننے جارہی ہے اور تخت لاہور کے ضمنی انتخاب کا معرکہ گیم چینجر ثابت ہوگا۔
دیر ہو یا سویر، عقل آہی جاتی ہے کہ پیپلز پارٹی ہی نجات دہندہ ہے اور یہ ہی ایک واحد پارٹی ہے جس سے پورے ملک کی جذباتی وابستگی ہے۔۔

یہ بھی پڑھیے

%d bloggers like this: