مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

توپاں والے دروازے کی سیر: ماضی اور تاریخ کے سنگ(قسط4) ||گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

گلزار احمد خان اور وجاہت علی عمرانی کی مشترکہ قسط وار تحریر جو ڈیرہ اسماعیل خان کے معروف توپاں والا دروازے سے متعلق یادداشتوں پہ مبنی ہے۔ جس میں تاریخی، ثقافتی، ماضی اور روایتی باتیں قلمبند کی گئی ہیں ۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم دونوں ماضی کو حال کے تناظر میں دیکھتے اور باتیں کرتے ہوئے پوسٹ آفس والے اس یوٹرن سے حقنواز پارک کی طرف چلنے لگے جہاں پر1978تا 1995-96 تک ایک پامسٹ ” مختار حسین” بیٹھ کر شہریوں کو انکے ہاتھ دیکھ کر یا پھر زائچہ بنا کر انکو مستقبل کی پیشن گوئیاں دیتا تھا۔۔۔ جب حق نواز پارک کے مرکزی گیٹ کی طرف پہنچے تو عمرانی صاحب نے حقنواز پارک کے اطراف میں صرف مالشیؤں اور مالش کے شوقین افراد کی چہل پہل دیکھ کر افسوس کرتے ہو کہا۔ گلزار صاحب یہ پارک ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ پاکستان کے علاوہ ہندوستان اور دوسرے ممالک کی مختلف سیاسی، سماجی اور مختلف مکتبہ فکرو شعبوں کی شخصیات اسی پارک میں آ کر خطاب کر چکی ہیں۔ درجنوں نامی گرامی پہلوانوں کے درمیان یہاں پر کشتی مقابلے بھی ہو چکے ہیں۔ حقنواز پارک کا ماضی میں نام ” جلال پارک” تھا۔ بقول بزرگوں کے کہ اس پارک کی بنیاد 1917 میں رکھی گئی تھی۔ جلال خان کے بارے مجھے سینہ بہ سینہ تین روایات ملی ہیں، اب واللہ کون سی روایت حقیقت پہ مبنی ہے۔ ایک تو جلال خان علیزئی قبیلے کا فرد تھا جو کہ انگریز فوج کے گھڑ دستہ ” رسالہ فوج” میں شامل تھا۔ بنوں کے علاقے میں لڑتے ہوئے شدید زخمی ہو گیا تھا اور چند سال بعد مر گیا تھا۔ حقنواز پارک علیزئی گیٹ کی پشتی سائیڈ پر ہونے کی وجہ سے اس کو "جلال پارک ” کہا جانے لگا۔ دوسری سینہ بہ سینہ روایت کے مطابق جلال خان در اصل خواجکزئی تھا اور پارک کے ساتھ ملحقہ باغ کی زمین اس کی تھی جہاں پر جامن کے درخت تھے۔ کیونکہ شہر میں یہ جلال باغ کی وجہ سے مشہور تھا تو جب اس پارک کی بنیاد رکھی گئی تو ڈیرے وال اس کو بھی جلال باغ یا جلال پارک کہنے لگے۔ تیسر ی روایت یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے جلسے، جلوسوں کے وقت اسی پارک میں ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے پکے مسلم لیگی کارکن "جلال بابا” نے پورے جاہ جلال سے ولولہ انگیز تقریر کی تھی اور پاکستان بننے کے بعد اسے وزیر بھی بنایا گیا تھا، تو اسی جلال بابا کے نام سے یہ پارک منسوب ہوا۔ بہرحال پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک عظیم جیالے "حقنواز خان گنڈہ پور” کی شہادت کے بعد سرکاری طور پر اس پارک کو "حقنواز پارک” میں تبدیل کر دیا گیا اور اس کا جسدِ خاکی بھی یہیں دفن کیا گیا۔۔ کیونکہ حقنواز خان گنڈہ پور کو عرف عام میں "کوکی خان” پکارا جاتا تھا تو اب بھی کچھ ڈیرہ وال بزرگ اس کو ” کوکی پارک”سے بھی یاد کرتے ہیں۔
آگے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے میں نے کہا عمرانی صاحب! اس دور میں انگریزوں کا بنایا گیا یہ علاقہ شہر کا جدید حصہ تھا۔ کبھی اس سڑک کے اطراف انگریزوں کے لگائے گئے بڑے بڑے قد آور درخت بھی سایہء افگن تھے جو بعد ازاں نہ رہے، بہرحال کچھ بھی ہو، اس سڑک پر چلتے ہوئے ہر قدم پر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تاریخ اپنے کچھ نہ کچھ نقوش یہیں چھوڑ گئی ہے۔ وہی ٹھیلوں پر عطر، کنگھیاں، سرمے بیچتے لوگ، وہی سنیاسیوں، تقدیر شناسوں اور دیسی علاج کے نسخے بتانے والوں کے جا بجا لگے اشتہار۔
حقنواز پارک کی حد ختم ہونے کے بعد والی گلی کے نکڑ پہ ہم ٹھہر گئے۔ میں نے کہا عمرانی صاحب ! یہ جو اب آپ کو صرف ایک گلی نظر آ رہی ہے ماضی میں یہ اس سڑک سے لے کر پیچھے پیر دودا حقانی کے دربار تک ایک مکمل گراؤنڈ نما وسیع و عریض میدان تھا اور اسی گلی کی نکڑ والی جگہ پر تانگہ سٹینڈ بھی تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ عمرانی صاحب! میں عمر کی اس دہائی میں ہوں جہاں اپنی ذمہ داریوں سے چھٹکارا پا کر لوگ بیتے دنوں کو سوچتے ہیں.خود ہی ہنستے خود ہی روتے ہیں۔ اس میدان والی جگہ پر اب مارکیٹ اور پختہ دکانیں دیکھ کر مجھے ماضی کا وہ میدان یاد آ گیا جب اس میدان میں عیدین اور دوسرے تہواروں کے موقع پر یہاں میلہ سجتا تھا۔ درجنوں مقامی جھولے لگتے، سرکس اور موت کا کنواں کاکھیل دیکھتے۔ نجومیوں کو ایک ایک آنہ دے کر طوطے کی فال نکلواتے۔ مداری کے بندر اور بکرے کے کرتب دیکھتے۔ تہواروں کے موقع پر یہاں ڈیرہ والوں کا جمِ غفیر ہوتا تھا۔ ہاں عمرانی صاحب یاد آیا کہ اس میدان کے آغاز میں بیچوں بیچ ایک مداری بیٹھا ہوتا تھا۔ جس نے دو تین موٹے سے گرگٹ، ایک گو (دیوار سے چپک جانے والا جانور) اور اپنے سامنے بہت سی شیشیوں میں مختلف ادویات، گولیاں اور کیپسول سجائے بیٹھا ہوتا تھا۔ بہت لمبی چوڑی تقریر کے بعد اس کی تان طاقت کے نہ ختم ہونے والے خزانے پر ٹھہرتی۔ اس دوران بھی وہ بچوں کو باہر نکلوانے کے گاہے بہ گا ہے اعلان داغتا رہتا۔ پھر سانڈے کے تیل کے فوائد گناتا، اس کے نزدیک سانڈے کا تیل سعودی عرب، کویت اور تمام دنیا کے تیلوں سے زیادہ قیمتی شے ہوتی۔ اگر کسی نے اس تیل کو استعمال نہیں کیا تو گویا اس نے دنیا کی ایک بہت بڑی نعمت کا کفران کیا ہے۔ ہم دونوں کا من جملہ قہقہ ہوا میں بلند ہوا، ہاہاہاہاہا۔
عمرانی صاحب! وہ بھی ایک شاندار دور تھا جب شہر کے لوگ ایک جلوس کی شکل میں اپنے دولہے کو گھوڑے پہ بٹھا کر ڈھول کی تھاپ پہ جھمر دریس ڈالتے اور بازاروں کو عبور کرتے کرتے اس پیر دودا حقانی کے دربار پہ آ کے دولہے کی سہرہ بندی کرتے۔ اکثر لوگ تو گھڑی گھڑولے کی رسم کو پوری کرنے کی خاطر اور دولہے کی گھڑی میں پانی بھرنے کی خاطر رات کے وقت پیر دودا حقانی کی درگاہ آتے اور یہاں کے نلکے سے پانی بھرتے۔۔ لیکن روپے پیسے کی لالچ اور تیز رفتاری کی اس جنگ نے ہم سے ہمارے خلوص، محبت، ایثار اور قربانی پہ مبنی رسوم و رواج چھین لیئے۔ اب لوگوں کے پاس وقت ہی نہیں۔۔ (جاری ہے)

%d bloggers like this: