اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

توپاں والے دروازے کی سیر: ماضی اور تاریخ کے سنگ(قسط1) ||گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

گلزار احمد خان اور وجاہت علی عمرانی کی مشترکہ قسط وار تحریر جو ڈیرہ اسماعیل خان کے معروف توپاں والا دروازے سے متعلق یادداشتوں پہ مبنی ہے۔ جس میں تاریخی، ثقافتی، ماضی اور روایتی باتیں قلمبند کی گئی ہیں ۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر و تحقیق: وجاہت علی عمرانی و گلزار احمد خان
(قسط نمبر1 )
رونامہ اعتدال کے دفتر میں عرفان مغل اور ابوالمعظم ترابی صاحب کے ساتھ ایک لمبی چوڑی نشست اور چائے پکوڑے کھانے کے بعد میری نظر دفتر میں لگے گھڑیال پر پڑی تو میں نے وجاہت عمرانی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، عمرانی صاحب! زرہ وقت کی طرف نظر دوڑائیں۔ کافی دیر ہوگئی ہے، چلیں چلتے ہیں۔ کہنے لگے گلزار صاحب! باتوں باتوں میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا شام کے سات بجنے والے ہیں۔ عرفان مغل اور ابوالمعظم ترابی صاحب سے اجازت چاہی اور سیڑھیاں اتر کر حذیفہ سنٹر کی راہداری میں باتیں کرتے ہوئے اور چلتے چلتے باہر سڑک کنارے پہنچ گئے۔ عمرانی صاحب نے انگڑائی لیتے ہوئے اپنا چہرہ توپاں والا کی طرف موڑا اور میں حقنواز پارک والی سڑک کو دیکھنے لگا۔ میں نے جیسے ہی واپس مڑ کر عمرانی صاحب کو دیکھا تو وہ دونوں ہاتھ کمر پہ رکھے ٹکٹکی باندھے توپاں والے دروازے کی طرف کبھی دائیں دیکھتے ہیں کبھی بائیں۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ کہیں کھوئے ہوئے ہیں۔۔ میں ہنستے ہوئے کہنے لگا عمرانی صاحب! لگتا ہے کہ شہر کی رنگینیاں اور سڑک پہ دوڑتی گاڑیوں سے دل کو بہلا رہے ہیں یا پھر کچھ اور سوچ رہے ہیں؟؟؟۔
کہنے لگے گلزار صاحب! ہر سوچ کا ایک اختتام ہوتا ہے، مگر یاد کا کوئی اختتام نہیں۔ کچھ یادیں اندر ہوتی ہیں۔ جب باہر آتی ہیں، کچھ نہ کچھ تباہی ضرور چھوڑ جاتی ہیں۔کچھ یادیں کسی چیز، واقعے، موقع، شخص یا وقت کے ساتھ نتھی ہوتی ہیں۔ اور کچھ وقت بے وقت آجاتی ہیں۔ کچھ یادیں، یاد کی جاتی ہیں اور کچھ یادیں، یاد دلا دیتیں ہیں۔ گلزار صاحب! آپ زرہ ماضی کے ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف نظر دوڑائیں، جہاں ابھی ہم ان دو دو تین تین منزلہ دکانوں اور ہوٹل کے آگے ٹھہرے ہوئے ہیں یہاں کا منظر کیسا تھا؟؟؟۔۔ میں نے اپنی نگاہیں سڑک پرموجود اس ناختم ہونے والے ہجوم سے ہٹا لیں اور کہا، عمرانی صاحب ! واقعی یادیں بھی کچھ عجیب چیز ہوتی ہیں، جو پرانی ہوتی ہیں وہی یادیں کہلاتی ہیں۔ کیوں کہ نئی تو کوئی یاد نہیں ہوتی۔ لیکن یاد پھر بھی کیا عجیب چیزہے۔ ہنساتی ہے، رلاتی ہے، تڑپاتی ہے۔گزرتا وقت بہت سی چیزوں کو بدل دیتا ہے، کئی چیزوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے یا ان کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں، اور ان سے منسلک افسانوی پہلو وقت کی دھول میں کھو جاتا ہے۔ ابھی جہاں ہم ٹھہرے ہیں یہیں پر ماضی میں ڈیرہ اسماعیل خان کے مشہور و معروف اور اوّلین فوٹو گرافروں میں سے ایک ” بہادر خان فوٹو گرافر”کی دوکان ہوتی تھی جو انہوں نے قیام ِ پاکستان کے بعد کھولی تھی۔ یہ نہ صرف فوٹو گرافر کی دوکان تھی بلکہ ادبی، سماجی اور سیاسی لوگوں کی آ ماجگاہ تھی۔ اس دوکان کے اندر اور باہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی ہر شعبے کی عظیم ہستیوں کے فریم کئے فوٹو آویزاں ہوتے تھے۔ لیکن ترقی اور پیسے کی بے ہنگم دوڑ نے "بہادر خان” جیسی اوّلین اور مشہور و معروف فوٹو گرافر کی دوکان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
عمرانی صاحب میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے دائیں طرف چند قدم اٹھا کر اور ایک تین منزلہ عمارت کے آ گے ٹھہر کر اشارہ کر کے کہنے لگے، گلزار صاحب ! ویسے تو سب سے پہلے 1910میں انگریز فوج کے تعاون سے چھاؤنی کے اندر ہی "کمرشل سٹیم پریس” لگائی گئی تھی۔ لیکن چھاؤنی کے باہر غالبا 1930 کے آس پاس اسی جگہ پر تقسیم ِ پاکستان سے پہلے ڈیرہ کی مشہور پرنٹنگ پریس "سول اینڈ ملٹری پریس ” جو کہ ایک ہندؤ لالا رام گند نے لگائی تھی اور بٹوارے کے وقت اس پرنٹنگ پریس کو جناب قریشی احمد علی صادق نے خرید لی تھی جو کہ پورے ڈیرہ میں ملٹری پریس کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اسی پرنٹنگ پریس سے بھی انگریز فوج کے دفتری کاغذات کی چھپائی کے علاوہ تمام سرکاری دستاویزات کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی اپنے اشتہارات، رسالے، دعوت نامے وغیرہ چھپواتے تھے۔ خاص کر شادی بیاہ میں برادری میں تقسیم کرنے کے لیئے دولہے کے یار دوست کسی اچھے شاعر سے سہرا لکھوا کر بانٹنے کے لیئے اسی "ملٹری پرنٹنگ پریس” سے خصوصی طور پر سنہری روشنائی سے چھپواتے تھے۔
ماضی اور یادوں میں کھوئے ہم دونوں کے لیئے بے تحاشا و بے ہنگم ٹریفک اور باقاعدہ زیبرا کراسنگ نہ ہونے کی وجہ سے سڑک پار کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں بڑھتی ٹریفک نے سب کو پریشان کر رکھا ہے۔ جہاں یہ ماحولیاتی، صوتی آلودگی کا سبب بنتی ہے وہیں سڑکوں پر بے ہنگم انداز سے دوڑتی ٹریفک منٹوں کے سفر کو گھنٹوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ ہمارے شہرمیں سڑک کنارے فٹ پاتھ ڈھونڈنے سے نہیں ملتے کہیں ان پر پتھارے اور ٹھیلے والوں نے قبضہ کر رکھا ہے تو کہیں وہ کسی دکان کا حصہ بن چکے ہیں۔ اگر کہیں مل ہی جائیں تو ان پر جا بجا کھڑی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں پیدل چلنے والوں کو مشکل میں ڈال دیتی ہیں۔ سرکلر روڈ، مارکیٹوں اور بازاروں میں حتیٰ کہ ہسپتالوں کے باہر جس کو جہاں جگہ ملتی ہے اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل کھڑی کر کے چلے جاتے ہیں اور اس بات کا خیال بھی نہیں کیا جاتا کہ ساتھ کھڑی گاڑی یا موٹر سائیکل سوار اپنی سواری میں سوار کیسے ہوگا۔ ہم نے اسی میں غنیمت جانی کہ واپس پیچھے کی طرف چلتے ہیں اور پوسٹ آفس کے ساتھ بنائے ہوئے یوٹرن سے سڑک کو کراس کرتے ہیں۔ سڑک کنارے کھڑی بے ترتیب موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے آگے پیچھے ہوتے ہوئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہم حقنواز پارک کی طرف روانہ ہوئے۔گو کہ شہرڈیرہ اسماعیل خان اپنی جدت و روشن خیالی میں بہت آگے بڑھ چکا ہے لیکن ہمیں اپنے شہر کی سماجی و ثقافتی تاریخ سے جنونیت کی حد تک انسیت ہے۔ (جاری ہے)

%d bloggers like this: