اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان کے 97فیصد عوام آلودہ پانی پینے پر مجبور||سارہ شمشاد

اطلاعات ہیں کہ پی ایچ اے نے اگلے سال مارچ تک ملتان میں 17لاکھ پھولوں کی شجرکاری کا دیر سے ہی سہی چلو فیصلہ تو کیا ہے، کہا جارہا ہے کہ شجرکاری کے لئے تمام پھول پی ایچ اے کی نرسریوں میں تیار کئے جائیں گے
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملتان کے پانی میں آلودگی کی شرح 94 فیصد اور آرسینک کی مقدار 63فیصد سے زائد ریکارڈ کی گئی ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ پانچ برسوںمیں ملتان کے پانی میں 10 فیصد سے زائد آلودگی میں اضافہ ہوا ۔رپورٹ کے مطابق بہاولپور کا پانی 76 فیصد آلودہ ہے آرسینک کیا ہے ؟ملتان کے پانی میں 94فیصد آلودگی اور 63فیصد آرسینک کی شرح ارباب اختیار کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے مگر یہاں پر چونکہ عوام کی تو کسی کو کوئی خاص فکر کبھی تھی اور نہ ہوگی اسی لئے تو یہاں کی انتظامیہ افسروں کو خوش کرنے کی جستجو میں ہی لگی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اعلیٰ حکام ہی اس خطے کے لوگوں کو انسان ہی نہ سمجھتے ہوں تو پھر یہاں کی مقامی انتظامیہ بھی انہیں جانوروں سے زیادہ عزت نہیں دے گی۔ ملتان جوکہ کرہ ارض پر موجود سب سے قدیم ترین شہر ہے، بجائے اس کے اس کی تاریخی حیثیت کو تسلیم کرنے کے ساتھ اس کو دنیا میں اجاگر کیا جاتا افسوس کہ اس کی تاریخی شناخت اور حیثیت کو تیزی کے ساتھ ختم کرنے کی ہی کوشش کی جارہی ہے جبھی تو آج تک کسی نے نہ تو اس کی بہتری اور ترقی کے لئے کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی کو اس میں کوئی دلچسپی ہے جس کا بڑا ثبوت اس خطے میں اچھے تعلیمی اداروں کا فقدان ہونے کے ساتھ اچھے ہسپتالوں کا نہ ہونا بھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان جو تعلیم اور صحت کو شروع سے ہی بہت اہمیت دینے کے خواہاں رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے بھی جنوبی پنجاب کے عوام کے بنیادی حقوق سے اس طرح سے نظریں چرارکھی ہیں کہ جیسے جانتے نہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات میں انہوں نے جنوبی پنجاب صوبے کا پہلے 100دن میں بنانے کا اعلان کیا تھا اب 3برس سے زائد کا عرصہ اقتدار میں ہونے کو آیا ہے مگر ایک انچ بھی کام نہیں ہوسکا۔جنوبی پنجاب میں 2سیکرٹریٹ بنانے کا جھوٹا دعویٰ کرکے یہاں کے عوام کو مطمئن کرنے کی ماٹھی کوشش کی جارہی ہے جسے یہاں کے عوام نے آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل یہ رپورٹ منظرعام پر آئی تھی کہ ملتان آئندہ 7سے 10برسوں میں رہنے کے قابل ہی نہیں رہے گا مگر مجال ہے کہ کسی نے اس سنجیدہ اور اہم ایشو کی طرف توجہ دینے کی بھی زحمت گوارہ کی ہو۔ ملتان کی عوام کے ساتھ یہ زیادتی ایک ایسے وقت میں کی جارہی ہے کہ جب ملتان کا درجہ حرارت پہلے ہی 50سینٹی گریڈ سے زیادہ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اوپر سے ستم یہ ہے کہ آم کے درخت اس بیدردی کے ساتھ کاٹے گئے ہیں کہ جیسے ان کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ اسی لئے تو روزانہ ہزاروں کی تعداد میں آم کے درخت کاٹ کر خطے کے غریب عوام کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جیسے ان کو زندہ رہنے کا کوئی حق سرے سے ہے ہی نہیں۔ اگر اب ملتان کے پانی میں آلودگی کی شرح 94فیصد ہوگئی ہے تو یہ انتظامیہ کے نزدیک کوئی بڑا مسئلہ اس لئے غالباً نہیں ہوگا کہ یہاں کی عوام کو پہلے کون سی خالص چیزیں مل جاتی ہیں کہ اگر صاف ہوا اور پانی نہ ملے تو ایک دو بیماریاں اور عوام کو لگ جائیں گی جہاں وہ پہلے ہی کئی بیماریوں سے اپنے ناتواں جسم کے ساتھ نبردآزما ہیں اگر مزید کچھ ہو بھی گیا تو مریں گے تھوڑی۔ چلو اگر مر بھی گئے تو آبادی کی شرح میں اس خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہےکہ کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ملتان کے پانی میں 10فیصد سے زائد آلودگی میں پچھلے 5برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں ہونا یہ یہ چاہتے تھا کہ مقامی انتظامیہ کم از صاف پانی کی عوام کو فراہمی کو یقینی بناتی لیکن ہماری بیوروکریسی چونکہ بہت تگڑی ہے جس کا ثبوت کرپشن کے میدان میں سیاستدانوں کو بھی پیچھے چھوڑنا ہے بلکہ بعض لوگ تو یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ سیاستدان تو ایسے ہی بدنام ہیں، بیوروکریٹس نے تو کرپشن کا ورلڈ کپ کئی مرتبہ جیت رکھا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو اس قسم کے عناصر کے خلاف کارروائی مزید نیب، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں کا فرض ہے مگر وہ بھی اپنے فرائض سے کوتاہی برت رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وطن عزیز کو جونکوں کی طرح سب مل کر چاٹ رہے ہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا اس لئے اگر عوام کی صحت، روزگار، غربت اور مہنگائی کے حوالے سے کوئی خبریں سننے یا پڑھنے کو مل بھی جائیں تو انہیں نظرانداز کرنے میں ہی عافیت سمجھنی چاہیے اور اسی ’’روش‘‘ پر ہماری ملتان کی انتظامیہ گامزن ہے۔ اللہ بخش ملتان کے ایک ڈی سی او نسیم صادق ہوا کرتے تھے، موصوف کبھی موٹرسائیکل تو کبھی رکشے پر بیٹھ کر چھاپے مار کرتے تھے بالخصوص لینڈ مافیا کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے پرعزم تھے جس پر انہیں ملتان کا فخر بھی کہا گیا لیکن ان کے جانے کے بعد کچھ ایسی خبریں بھی سننے کو ملیں کہ ملتان کو ملنے والے کئی میگا پراجیکٹس بھی لاہور، ساہیوال یعنی دیگر شہروں میں خاموشی سے منتقلکردیئے گئے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر یہاں کی مقامی انتظامیہ نے مفاد عامہ سے جڑے منصوبوں کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی ہوتی تو آج معاملات یکسر مختلف ہوتے مگر یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے اور عوام تو ہیں ہی صرف خوار ہونے کے لئے اسی لئے تو کسی نے بھی عوام اور اس سے جڑے منصوبوں اور کاموں پر قطعاً توجہ نہ دی۔
اطلاعات ہیں کہ پی ایچ اے نے اگلے سال مارچ تک ملتان میں 17لاکھ پھولوں کی شجرکاری کا دیر سے ہی سہی چلو فیصلہ تو کیا ہے، کہا جارہا ہے کہ شجرکاری کے لئے تمام پھول پی ایچ اے کی نرسریوں میں تیار کئے جائیں گے یہاں ملتان کو درپیش کس کس مسئلے کو بیان کروں کہ سڑکوں کیحالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ حادثات معمول بن چکے ہیں اور اگر کوئی سڑک غلطی سے ٹھیک رہ جائے تو سوئی گیس پائپ لائن یا پھر ٹیلی فون والوں کو یاد آجاتاہے کہ انہوں نے کیبل بچھانی ہیں اور پھر وہ روڈ برسہا برس تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتا ہے اور درجنوں لوگ حادثات کا شکار ہوکر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ اگر یہاں ملتان کے اجڑے ہوئے پارکوں کی بات کی جائے تو وہ نشیئوں کا بہترین ٹھکانہ ہیں اسی لئے تو شریف فیملیز پارکوں کا رخ کرنے سے کتراتی ہیں اور یوں عوام کو جو سستی تفریح کا ایک ذریعہ میسر آسکتا تھا وہ بھی ناپید ہوگیا ہے اور پارک تو صرف برائے نام ہیں کیونکہ نہ تو وہاں بچوں کے لئے کوئی جھولے ہیں اور نہ ہی سایہ دار درخت۔ حد تو یہ ہے کہ بنچ بھی نہیں کہ لوگ وہاں سائے میں بیٹھ سکیں۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ کالونیاں دھڑا دھڑ بن رہی ہیں مگر کوئی پودے لگانے کی طرف مجال ہے کہ توجہ دے۔ انہی سطور کے ذریعے حکومت کو ایک تجویز دی تھی کہ وہ طلبا کو اگلے سال میں پروموٹ کرنے سے پہلے کم از کم 2اور زیادہ سے زیادہ 5پودے لگانے کا پابند نمبرز رکھ کر کرے تاکہ عوام اپنی مدد آپ کے تحت آلودگی میں کمی کے لئے کچھ کرسکیں جبکہ دوسرے محکموں اور اتھارٹیز کا عوام کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ بھی عروج پر ہے جس کا ثبوت بے ہنگم ٹریفک کو کنٹرول نہ کرنے کے لئے مناسب پلان ترتیب نہ دینا ہے۔ ان حالات میں جب ملتان کو اس کی تاریخی شکل میں بحال کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں خاص طور پر اس وقت جب ملتان کو شمالی علاقہ جات کی طرح سیاحوں کے لئے ایک جنت بنایا جاسکتا ہے تو ضروری ہے کہ مقامی انتظامیہ اپنے آقائوں کو خوش کرنے کی بجائے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائے کیونکہ یہ عوام کے ٹیکسوں سے لمبی لمبی تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان جو کبھی انہیں عوام کے نوکر کہا کرتے تھے اب اپنے تمام سبق، باتیں اور وعدے یکسر ہی بھلابیٹھے ہیں۔ اسی لئے تو سب نے عوام سے وابستہ ایشوز سے لاتعلقی اختیار کرلی ہے کہ کمی کمین لوگوں کا نہ تو صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات پر کوئی حق ہے اسی لئے عوام کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے کہ اگر موئے عوام بیمار ہوں گے تو ڈاکٹرز کی دکانداری چلے گی اور فارما سیوٹیکلز کے کاروبار کو دوام ملے گا غالباً یہی کچھ مفادات ہیں کہ انڈسٹریز اور کیمیکلز پھیلانے والی صنعتوں کو بھی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ بھی عوام کی زندگیوں سے کھیلنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں بس انہیں ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ اپنا حصہ پہنچنا چاہیے۔ حکومت سے عوام کی بہتری کے لئے اقدامات بارے توقع رکھنا اب تو فضول ہی دکھائی دیتا ہے ایسے میں کیا ہی بہتر ہوک کہ بڑے بڑے صنعتکار اور تاجر جن میں جلال الدین رومی، چودھری ذوالفقار انجم، شیخ احسن رشید جیسے بڑے نام فلاحی کاموں کی طرف آئیں اور عوام کی زندگیوں میں جس حد تک بہتری لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، ضرور کوشش کریں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ ملتان کی ترقی، خوشحالی اور بہتری کے لئے مقامی انتظامیہ، صنعت کار، وائس چانسلر، ڈاکٹرز اور مخیر حضرات پر مشتمل ایک تھنک ٹینک قائم کیا جائے جو شہر کی خوبصورتی، ترقی اور خوشحالی کے ون پوائنٹ ایجنڈے کو اپنا نصب العین بنالے تبھی جاکر مفاد عامہ کو کچھ ریلیف میسر آسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: