مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان کی تاریخ کی تفہیم اور عمران خان ||رانا محبوب اختر

پورے پیراڈائم کی تفہیم کے لئے ملتان کے ماضی پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ملتان کے قدیم نام کشیپ پورہ، پرہلاد پورہ اور سامب پورہ، مقامی اساطیری شخصیات کے نام ہیں( پورہ کا مطلب قلعہ ہے)۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صدیوں سے آباد ، ملتان کی گلیوں میں تاریخ سانس لیتی ہے۔ملتان، ادی استھان ہے، ادی کا مطلب پہلا اور استھان کا مطلب، اسمبلی یا آستانہ ہے۔ملتان کا ایک قدیمی نام مولستھان ہے۔مُول کے ایک معنی chief capital cityکے ہیں اور مُول ، سوریا یا ادیتیا اور مولی کو بھی کہتے ہیں۔عجب اتفاق ہے کہ مُول راج ، صوبہ ملتان کا آخری حکمران تھا جب 1849 میں انگریز اور سکھ سامراج نے مل کر ملتان کی علیحدہ صوبائی شناخت ختم کر دی کہ دو انگریز افسر، لیفٹیننٹ اینڈرسن اور وانس اگنیو قتل ہو گئے تھے اور رنجیت سنگھ کے بیٹے دلیپ سنگھ کی مدد کے باوجود پورے نو مہینے سخت مزاحمت ہوئی تھی ۔ ملتان کو سامراجی کرودھ کی وجہ سے لاہور میں ضم کیا گیا ۔سامراج، پہلے قبضہ کرتا ہے۔ لوٹتا ہے۔ماضی کو مٹانے کا انتظام کرتا ہے۔ ریاست اور قانون کی طاقت سے اپنے بیانیے کو مستند بناتا ہے۔ قبضہ گیری اور لوٹ مار کو تہذیب سکھانے کا مشن قرار دیتا ہے۔خوئے غلامی کو پختہ کرتا ہے اور گزارے کے لئے امداد دے کر مفلسی کو دوام دیتا ہے۔ نوآبادیات کو دوام دیتے کے لئے structural imperialismاور نیو کولونیل ازم کا نظام قائم کرتا ہے۔ IMFاور ورلڈ بنک بناتا ہے۔ تاکہ غلاموں کی سانس چلتی رہے اور منڈیاں کام کرتی رہیں اور عالمگیریت کی گرفت مضبوط تر ہو۔1947میں آزادی ملی مگر سامراجی انتظام برقرار رہا، صوبہ بحال نہ ہوا کہ ملتان کی قدامت اور تاریخ کی empatheticتفہیم کے بغیر سامراجی انتظام برقرار رہے گا اور نئے نوآبادیاتی انتظام کے لئے سامراجی پالیسی کا دوام ضروری ہے۔
پورے پیراڈائم کی تفہیم کے لئے ملتان کے ماضی پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ملتان کے قدیم نام کشیپ پورہ، پرہلاد پورہ اور سامب پورہ، مقامی اساطیری شخصیات کے نام ہیں( پورہ کا مطلب قلعہ ہے)۔پرہلاد موحد تھے اور کرشن کا بیٹا سامبا ایک شہزادہ تھا۔سپت سندھو کے سات رشیوں میں کشیپ ایک برگزیدہ آدمی تھے۔ ملتان رشیوں اور موحدوں کا مسکن ہونے کی وجہ سے شمال مغربی انڈیا کا مقدس شہر تھا۔ ملتان کی فضا میں کئی کرتار پور سانس لیتے ہیں ، بہادری اور خوش حالی کی سینکڑوں کہانیاں مستور ہیں۔سکندر مقدونی Mallian Campaign کے دوران ملتان آیا اور ایک ملی کے تیر سے زخمی ہوا۔ ملی استھان بھی ملتان کا ایک نام ہے۔ ستم یہ ہے کہ حملہ آور سکندر مقدونی کا نام تاریخ میں محفوظ ہے اور ملتان کا دفاع کرنے والے ملی کا نام تاریخ سے غائب ہے۔عرصہ ہوا ایک کتاب، ” Paradise of gods” میں موجودہ پاکستان یا سندھ وادی کو سوتی کپڑے، خشت سازی، پہلی بڑی بادشاہت،زرعی نظام اور سرکنڈوں سے بنی کشتیوں کی پہلی سرزمین بتایا گیا تھا۔جب ملوہہ لوگ بابل، سومر اور سویڈن تک تجارت کرتے تھے۔ہمارے دوست ،اداکار اور محقق، نعیم طاہر نے اپنی کتاب ” Melluhas” میں شواہد سے ثابت کیا ہے کہ یہ apocryphaنہیں، تاریخ ہے۔عرب، ملتان کو بیت الذہب یا سونے کا گھر کہتے تھے۔محمد بن قاسم یہاں سے تیرہ ہزار تین سو من سونا لے گئے تھے۔جغرافیے، زرخیزی اور خوش حالی نے حملہ آوری کا عذاب اور ثقافتی دھنک سندھ وادی کے ملتان کو دی ہے!
ملتان کی تاریخ کے سات ادوار ہیں۔پہلے دور میںملتان، موہن جو ڈارو اورہڑپہ کے ساتھ لگ بھگ ایک ہزار شہری ریاستوں کا ہم عصر شہر اور IVCکا حصہ تھا۔ تاریخ کا یہ گمنام عہد تھا۔ 1922 میں جان مارشل نے اسے کھود نکالا مگر ملتانیوں کے سمندروں سے ڈونگے دل کھوجنے کا کام رفعت عباس اور اسلم جاوید نے کیا ہے۔دوسرا ویدک عہد ہے جب ملتان شمالی ہند کا بنارس یا کاشی تھا اور رشی وید لکھتے تھے۔دلی اور لکھنو سے صدیوں پہلے ملتان خطے کا ثقافتی درالخلافہ تھا! یہ زمانہ موہنجوڈارو اور ہڑپہ کے شہری عہد سے مختلف تھا کہ اب شہر کی بجائے دیہات ، بستیاں اورتیرتھ تہذیبی مراکز تھے۔ ویدک عہد کی شاعری تاریخ کا قدیم ترین ماخذ ہے۔تیسرا عہد، رزمیہ یا Epic Ageکہلاتا ہے ، یہ مہابھارت اور رامائن کا زمانہ ہے۔ مہابھارت خطے کا رزمیہ ہے جب ملتان سے دریودھن اور گندھاری کے قبیلوں نے کرشن اور ارجن سے یدھ لڑا تھا اور سندھو سویرا کے کورو، گنگا کے پانڈوں سے ہارے تھے ۔سندھو سویرا کا علاقہ پاکستان ہے اور پانڈوں کا گنگائی میدان، بھارت ہے۔بر صغیر میں احمقانہ دشمنی کی بنیادیں پرانی اور نفسیاتی ہیں اور انھیں سمجھے بغیر پاک بھارت دوستی خواب رہے گی!سندھ اور ہند کی تقسیم ، قدیمی اور فطری ہے۔ہمارے بیانیوں میں ماضی کا زہر مگر بھرا ہے جسے عرب، افغان اور ترک مسلم حکمرانوں کی تاریخ سے مدد ملتی ہے اور انگریز سامراج نے اس دشمنی کو reinforce کیا ہے ۔ہندوتوا اور مسلم بنیاد پرستی کو اس سے رزق ملتا ہے کہ ہم تاریخ کا تجزیہ نہیں کرتے، تعصب کی عینک سے وہ دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں۔چوتھا عہد بدھ نشاتہِ ثانیہ کا ہے جب ملتان ٹیکسلا اور پشاور کے ساتھ تجارت ، علم و دانش، مذہب اور روحانیت کا مرکز تھا۔اس عہد کا چراغ سنسکرت گرائمر کا بانی، پانینی تھا۔گوپی چند نارنگ کہتے ہیں کہ پانینی کا تعلق ملتانی وسیب سے ہے۔ ایرانی سلطنت کے کتبوں اور سکندر کے سکوں میں ملتان کھدا ہوا ہے۔ پھر راجپوتوں کی راجدھانیوں سے ملتان روشن ہے۔ محمد بن قاسم 712میں ملتان آئے اور اس کے بعد کوئی تین صدیوں تک عربوں کی امارات قائم رہیں۔ شاہ شمس نے مقامی سرائیکی زبان میں اسماعیلیوں کے مقدس گنان لکھے۔ محمود غزنوی نے ابوالفتح داود کی اسماعیلی حکومت کا خاتمہ کیا مگر ملتان کو غزنی یا کابل کے ساتھ شامل نہیں کیا۔ ملتان اہم صوبہ تھا ۔پانچواں عہد دلی سلطنت کے بادشاہوں اور مغلوں کا ہے۔جب غیاث الدین تغلق کے لئے بنے مقبرے میں شاہ رکنِ عالم رح مدفون ہوئے۔بلبن اور قباچہ ، ملتان کے طاقتور صوبیدار تھے۔ امیر خسرو جیسا نابغہ ملتان میں بیٹھ شعر لکھتا تھا۔بلبن کے بیٹے نے منگولوں سے ملتان میں جنگ ہوئی تو شہزادہ محمد ملتان کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا اور امیر خسرو قیدی بنا۔ قیدی امیر خسرو کو ایک منگول سپاہی نے اپنا سامان اٹھانے کا حکم دیا تو شاعر نے کہا:
من کہ بر سر نمی نہادم گل
بار بر نہاد و گفتا ”جُل”
”جُل”سرائیکی زبان میں چلنے کو کہتے ہیں۔ 1300ء میں ابنِ بطوطہ ملتان آئے اور ملتان کو تمام تباہیوں کے باوجود ایک بڑا تجارتی مرکز پایا۔سومرا حکمرانوں کا عہد اور بڈھن خان لنگاہ کے خاندان کی 80 سالہ حکومت میں حسین لنگاہ(1469سے 1498)کا عہد، ملتان کا اچھا وقت ہے۔لنگاہ عہد1526میں ختم ہوا تو سمرقند ، بخارا اور باکو میں ملتانی تاجر اپنی سرائیں بنوا چکے تھے اور ملتان وسطی اور جنوبی ایشیاء کا بڑا تجارتی مرکز تھا۔اکبر نے 1572سے 1580کے درمیان انتظامی اصلاحات کیں اور ہندوستان کو بارہ صوبوں میں تقسیم کیا تو ملتان صوبہ تھا۔دکن کی فتح کے بعد خاندیش ، برار اور دولت آباد کے اضافے سے یہ تعداد پندرہ ہو گئی۔جہانگیر کے عہد میں سترہ صوبے ہوئے اور اڑیسہ کو بنگال سے علیحدہ کیا گیا مگر ملتان کی صوبائی حیثیت برقرار رہی۔ شاہ جہاں نے پانچ نئے صوبے بنائے تو ملتان صوبہ اور صوبائی دارلخلافہ رہا۔شاہ جہاں نے مگر کشمیر کو کابل اور ٹھٹھہ کو ملتان سے علیحدہ کر دیا۔اورنگ زیب نے تین صوبوں کا اضافہ کرتے ہوئے بیجاپور،سیرا اور گولکنڈہ کو صوبہ بنایا مگر ملتان کی صوبائی حیثیت برقرار رہی۔اورنگ زیب1707میں فوت ہوئے تو یورپ میں Westphalia معاہدہ کو 59سال گزر چکے تھے اور جدید ریاست کی بنیادیں اٹھائی جا رہی تھیں۔روشن خیالی اور جدیدیت دخانی جہازوں پر بیٹھ کر کولونیل ازم کے سفر پر روانہ تھی اورہندوستان میں طوائف الملوکی کا راج تھا ۔ملتان کی تاریخ کا چھٹا دور 1818کے سقوطِ ملتان سے شروع ہوتا ہے جب رنجیت سنگھ نے مظفر خاں کو شہید کرکے ملتان پر قبضہ کیا۔مقامی لوگوں کے حافظے میں رنجیت سنگھ کی "بھگی” محفوظ ہے جب سکھوں کے جتھے بستی بستی لوٹ مار کرتے تھے۔مگر سکھا شاہی میں بھی ملتان صوبہ رہا۔ملتان کی صوبائی حیثیت 1849میں انگریز سامراج کے قبضے پر ختم ہوئی اور 1947میں آزادی کے بعد بھی یہ سامراجی ناانصافی جاری ہے ۔ اور سامراجی aberrationکا دفاع کرنے والے بھی موجود ہیں۔سرائیکی صوبے کا مطالبہ، "ظالمانہ انتقامی سامراجی انضمام” کے خاتمے کا مطالبہ ہے۔ تاریخ کو درست کرنے کا مطالبہ ہے۔ ملتان کے تاریخی اور ثقافتی احیاء کا نہیں، بازیافت کا مطالبہ ہے۔ آئین کے آرٹیکل 238 اور 239کے مطابق آرٹیکل 1میں نئی وفاقی اکائی کے اضافے کا دستوری مطالبہ ہے۔اس لئے ہر سیاسی جماعت انتخابات سے پہلے اس مطالبے کی حمایت کرتی ہے اور انتخابات کے بعد اسٹیبلشمنٹ پہ الزام دھر کر مکر جاتی ہے عمران خان نے پہلے سو دنوں میں 1849میں سامراجی ساخت کو ختم کرکے صوبے کی بحالی یا تشکیل کا تحریری معاہدہ کیا تھا!

%d bloggers like this: