مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بارکھان کی نیلامی||عزیز سنگھور

1880ء کو انگریز نے مچھ بولان میں ایک خوبصورت ریلوے اسٹیشن قائم کیا۔ جس کا ڈیزائن سوئزرلینڈ کے ایک ریلوے اسٹیشن کے طرزپر بنایا گیا ہے۔ غیر مقامی افراد کو محکمہ ریلوے میں ملازمت دی گئی۔ ان کے لئے رہائشی کالونیاں بنائی گئیں۔

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان کے ضلع بارکھان میں گیس کی دریافت کے بعد خوشی کی لہر غم میں تبدیل ہوگئی۔ ایک منصوبے کے تحت گیس فیلڈ میں غیر مقامی افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مقامی افراد کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی پر عمل کیا جارہا ہے۔ حکومت نوآبادیاتی دور کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
آئل اینڈگیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) کے حکام کے مطابق کوہ جاندران کے مقام پرگیس کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ گیس کا یہ ذخیرہ ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں دریافت ہونے والے ذخیرے سے کئی گنا بڑا ہے ۔ یہاں سے نکلنے والی گیس کے نئے ذخائر دریافت ہونے کے بعد پاکستان کو ایران اور ترکمانستان سے گیس خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بلوچستان کے ذخائر پاکستان کی ضروریات آئندہ 50 سالوں تک پوری کرسکیں گے۔
لیکن بدقسمتی سے بارکھان کے مقامی افراد کو ڈیرہ بگٹی کے شہریوں کی طرح گیس کی نعمت سے محروم رکھنے کی سازش کی جاری ہے۔ یہ سازش سرکاری طور پر کی جارہی ہے۔ بارکھان کے سیاسی و سماجی حلقوں نے الزام لگایا کہ ضلع میں نو آبادیاتی و استحصالی پالیسیوں کے تحت آبادکاری اور کثرت کے ساتھ غیر مقامی افراد کوجعلی ڈومیسائل سرٹیفیکیٹس جاری کیے جارہے ہیں۔اس عمل سے مقامی افراد کی حق تلفی ہورہی ہے۔ سرکاری سطح پر نوآبادیاتی نظام کو متعارف کروایا جارہا ہے۔ دیگر صوبوں کے لوگوں کو ضلع بارکھان میں بلاکر ان کے لئے نئی آبادیاں قائم کی جارہی ہے۔ اور اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کر کے اسے توسیع دی جارہی ہے۔
نوآبادیاتی نظام ماضی میں برطانوی سامراج نے بلوچستان کے علاقے بولان میں متعارف کروایا۔ ۔1935ء میں کوئٹہ کے تباہ کن زلزلے کا مرکز بولان تھا۔ زلزلے سے بولان بھی تباہ کاری کا شکار رہا۔ زلزلے کے بعد انگریز سامراج نے مچھ بولان کو ایک نو آبادیاتی شہر میں تبدیل کردیا۔ جہاں پنجاب بھر سے لاکرلوگوں کو آباد کروایا گیا۔ مقامی افراد کو دبانے اور کمزور کرنے کے لئے پنجاب سے لوگوں کو لاکربسایاگیا۔ کوئلے کی کانیں ان کے حوالے کردی گئیں۔ آج بھی مچھ بولان کے 95 فیصد کوئلے کی کانوں کے مالکان کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔ جہاں بڑی تعداد میں کوئلے کی کانیں ہیں۔ کوئلے کی کانوں کی تعداد 62 ہے۔ جن میں 52 فعال ہیں۔جن میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس افتخار محمد چوہدری کا خاندان بھی شامل ہے۔ ان کے والد یہاں کوئلے کے کاروبار سے منسلک تھے۔ جسٹس افتخارچودھری نے اپنی ابتدائی تعلیم مچھ شہر میں حاصل کی۔ اس طرح بولان ان کا آبائی علاقہ بن گیا ۔

1880ء کو انگریز نے مچھ بولان میں ایک خوبصورت ریلوے اسٹیشن قائم کیا۔ جس کا ڈیزائن سوئزرلینڈ کے ایک ریلوے اسٹیشن کے طرزپر بنایا گیا ہے۔ غیر مقامی افراد کو محکمہ ریلوے میں ملازمت دی گئی۔ ان کے لئے رہائشی کالونیاں بنائی گئیں۔

بارکھان میں وہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ مقامی آبادی پر اقلیت میں تبدیل کرنے کا منصوبے کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ بارکھان میں بوگس اور جعلی ڈومیسائل کے ذریعے مقامی لوگوں سے ان کے حقوق چھین کر پنجاب سے آئے ہوئے لوگوں کو دیے جا رہےہیں۔ غیر مقامی افراد کو جعلی ڈومیسائل جاری کرکے مقامی افراد کو نان شبینہ کا محتاج بنانے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ دوسرےصوبوں سے آئے لوگوں کو جعلی ڈومیسائل جاری کرکے آبادکاری کو بھی بڑھایا جا رہا ہے جو باعث تشویش ہے۔ بارکھان جیسے ضلع میں جہاں عوام کیلئے مسائل کا انبار پہلے سے ہی زیادہ ہے ایسے اقدامات سے حکومت انہیں مزید مشکلات سے دوچار کر رہی ہے۔

ضلع کی آبادی تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار ہے۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت کھیتران بلوچ قبیلے پر مشتمل ہے۔ کھیتران قوم اپنی مخصوص بولی کھیترانی بولتے ہیں۔ ضلع بارکھان کا زیادہ ترعلاقہ زرعی ہے اور ستر فیصد آبادی زراعت سے ہی منسلک ہے۔ لوگوں کا ذریعہ معاش مالداری اور زراعت ہی ہے۔ بارکھان تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ علاقہ کبھی وسطی ایشیا سے ہندوستان کو ملانے کا آسان ترین راستہ ہوا کرتا تھا۔ بارکھان بھی قدیم ثقافتی ورثے کاگہوارہ ہے، یہاں کے طول و عرض میں قدیم ٹیلوں، کاریزات، قبرستان اور دیگر آثار ابھی تک موجود ہیں۔
جعلی ڈومیسائل کے اجرا کے علاوہ یہاں مصنوعی طور پر امن و امان کا مسئلہ پیدا کیا گیا۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بارکھان کے حالات ایک دفعہ پھر کلاشنکوف کلچر اور دیگر آپسی دُشمنیوں کے طرف دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے- سینکڑوں نوجوان موت کے مُنہ میں چلے گئےہیں۔
ضلع میں لاقانونیت کی انتہا ہوچکا ہے۔ یہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں کرپشن اور سفارش کلچر سے ضلع مزید پسماندگی کی طرف جارہا ہے۔
بارکھان سے دریافت ہونے والی گیس ضلع کے عوام کو نصیب نہیں ہوگی۔ ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضلع ڈیرہ بگٹی ایک کھلی کتاب ہے۔ ضلع میں 1952ء میں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے۔ جو سینکڑوں میل دور پنجاب، خیبرپختونخوا سمیت سندھ کے مختلف شہروں تک تو پہنچائی جاتی ہے۔ لیکن ضلع کے مکین اپنے گھروں میں آج بھی لکڑیاں جلاتے ہیں۔ ملک کو گیس فراہم کرنے والا خطہ ضلع ڈیرہ بگٹی کے بیشتر علاقوں کے لوگ آج بھی اپنے چولہے میں لکڑیاں جلاتے ہیں۔ جبکہ تحصیل سوئی شہر میں جن گھروں کو گیس فراہم کی گئی ہے۔ وہاں بھی اکثر کوگیس کا دباؤ کم ہونے اور چولہے ٹھنڈے پڑنے کی شکایت رہتی ہے۔ سوئی سے نکلنے والی گیس پاکستان کے پچاس لاکھ صارفین کو تو ملتی ہوگی۔ لیکن خود سوئی شہرکے پچاس ہزار صارفین کو بھی ٹھیک سے نہیں مل پا رہی۔ جبکہ ضلع کے بیشتر علاقے گیس سے محروم ہیں۔
اس وقت پانچ گیس فیلڈز ہیں جن میں سوئی، پیرکوہ، لوٹی، اُوچ اور ٹوبہ نوحکانی ہیں لیکن ان میں سب سے پرانی اور بڑی گیس فیلڈ ہے سوئی گیس فیلڈ کو پاکستان پیٹرولیم لمیٹیڈ (پی پی ایل) نامی کمپنی چلاتی ہے ۔ ڈیرہ بگٹی کے باقی چارگیس فیلڈز پیرکوہ، لوٹی، اُوچ اور ٹوبہ نوحکانی کا انتظام پاکستان کی ریاستی کمپنی آئل اینڈ گیس کارپوریشن لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) کے پاس ہے۔ آئل اینڈگیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹیڈ (پی پی ایل) دونوں بے لگام سرکاری کمپنیز ہیں۔ یہ کمپنیاں بلوچستان حکومت کو گھاس نہیں ڈالتی ہیں۔ بظاہر وہ حکومت سے معاہدے تو کرتی ہیں۔ مگراربوں روپے کے واجبات ادا نہیں کرتیں ۔ دونوں بے لگام گھوڑے کی مانند بلوچستان کے وسائل کو روند رہی ہیں۔ کھربوں روپے کمانے والی کمپنیاں مافیا کی شکل اختیار کرگئی ہیں۔
پیر کوہ، لوٹی، اُوچ اور ٹوبہ نوحکانی کے غریب لوگ پانی، بجلی، تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات سے محروم ہیں۔ بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے مقامی لوگ آئے روز مظاہرہ کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن ان کی کوئی سنوائی نہیں ہوتی ہے۔ ان دونوں کمپنیز سمیت حکمران بہرے ہوگئے۔ آج بلوچستان میں ایک غیر مستحکم اور سیاسی طور پر ایک کمزور حکومت قائم ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان حکومت وفاقی اداروں اور ان کمپینیز کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ شایدان کمپنیز کوپوچھنے والے کو ایک سازش کے تحت راستے سے ہٹایاگیا۔نواب اکبرخان بگٹی کو26 اگست 2006 کوکوہلو کے پہاڑوں میں شہیدکیاگیا۔ تاکہ اس آواز کو دبایا جائے۔ وہ آواز غریب عوام کی آواز تھی۔ جس کی گونج سےتخت پاکستان، اسلام آباد، ہلتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ

عزیز سنگھور کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: